بدھ14؍شوال المکرم 1442ھ26؍مئی 2021ء

آپ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ اسلاموفوبیا حقیقت نہیں ہے: جسٹن ٹروڈو

کینیڈا میں پاکستانی نژاد خاندان کی ہلاکت: ’آپ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ اسلاموفوبیا حقیقت نہیں ہے‘

کینیڈا

،تصویر کا ذریعہGetty Images

کینیڈا کے صوبے اونٹاریو میں پاکستانی نژاد مسلمان خاندان کے چار افراد کو گاڑی تلے روند کر ہلاک کیے جانے کے واقعے پر اپنے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کینیڈین وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے کہا ہے کہ حقیقت یہ ہے کہ کینیڈا کے بیشتر شہری اس خوف سے واقف نہیں ہیں جو نسل پرستی کے خدشات کا شکار کینیڈین مسلمان محسوس کرتے ہیں۔

جسٹن ٹروڈو نے ہاؤس آف کامنز میں اپنی تقریر میں کہا کہ ’اگر کوئی یہ سوچتا ہے کہ نسل پرستی اور نفرت اس ملک (کینیڈا) میں نہیں ہے تو میں ان کو یہ کہنا چاہتا ہوں کہ آپ ہسپتال میں ایک بچے کو ایسے پرتشدد واقعے کی وضاحت کیسے پیش کریں گے؟ آپ کیسے ان خاندانوں سے نظریں ملا کر کہہ سکتے ہیں کہ اسلاموفوبیا ایک حقیقت نہیں ہے؟‘

یاد رہے کہ اتوار کی شام اونٹاریو کے شہر لندن میں پیش آنے والے ایک واقعے میں ایک 20 سالہ مقامی شخص نے اپنی گاڑی اس خاندان پر اس وقت چڑھا دی تھی جب وہ اپنے گھر کے باہر چہل قدمی کر رہے تھے۔

اس واقعے میں اس خاندان کا صرف ایک نو سال کا بچہ زندہ بچ پایا ہے جو ہسپتال میں داخل ہے جبکہ ہلاک ہونے والوں میں 46 سالہ فزیوتھراپسٹ سلمان افضل، ان کی اہلیہ اور پی ایچ ڈی کی طالبہ 44 سالہ مدیحہ سلمان، نویں جماعت کی طالبہ 15 سالہ یمنیٰ سلمان اور اُن کی 74 سالہ ضعیف دادی شامل ہیں۔

پولیس کا کہنا ہے کہ زندہ بچ جانے والا نو سالہ فائز سلمان زیرِعلاج ہیں مگر ان کی جان کو خطرہ نہیں ہے۔

ہاؤس آف کامنز میں اپنی تقریر میں وزیر اعظم ٹروڈو کا کہنا تھا کہ ’جب آپ ایک ایسی مسلمان خاتون سے بات کرتے ہیں جو کہ ایک بس سٹاپ پر کھڑی اس فکر میں ہوتی ہے کہ کوئی اس کے سر سے حجاب کھینچے گا یا اس کو نقصان پہنچائے گا تو وہ آپ کو یہی بتائے گی کہ اسلاموفوبیا حقیقت ہے۔‘

مسلم

،تصویر کا ذریعہGetty Images

’اگر آپ ان والدین سے بات کریں گے جو اپنے بچوں کو صرف اس خوف سے روایتی لباس نہیں پہننے دیتے کہ انھیں ہراساں کیا جائے گا، وہ آپ کو بتائیں گے کہ نسل پرستی ایک حقیقت ہے۔‘

کینیڈا میں مسلمانوں کے خلاف سنہ 2017 میں ایک مسجد میں چھ افراد کے قتل کے بعد سے یہ بدترین حملہ ہے۔

اس واقعے پر پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے بھی افسوس کا اظہار کرتے ہوئے اسے مغربی ممالک میں پھیلنے والے ’اسلاموفوبیا‘ کی ایک کڑی قرار دیا تھا۔

اس سے قبل کینیڈا کے وزیراعظم نے یہ بھی پیغام دیا تھا کہ ’ہم لندن کی مسلم کمیونٹی اور پورے ملک میں موجود مسلمانوں کے ساتھ کھڑے ہیں۔ اسلاموفوبیا کی یہاں کوئی جگہ نہیں ہے۔ خاموشی سے پنپنے والی یہ نفرت نقصان دہ اور انتہائی شرمناک ہے۔ اسے ختم ہونا ہو گا۔‘

لندن

،تصویر کا ذریعہGetty Images

ہلاک ہونے والے کون ہیں؟

متاثرہ خاندان کے رشتہ داروں اور دوستوں نے سی بی سی نیوز کو بتایا کہ یہ فیملی اپنی کمیونٹی میں کافی فعال تھی اور اپنے مذہب سے بہت جڑی ہوئی تھی۔

لندن اسلامک سکول سے گذشتہ سال گریجوئیٹ کرنے کے بعد اوکریج سیکنڈری سکول میں 15 سالہ یمنیٰ سلمان نویں جماعت کی طالبہ تھیں۔ سکول کی مسلم سٹوڈنٹس ایسوسی ایشن کا کہنا ہے کہ یمنیٰ کو اگلے سال یعنی دسویں جماعت میں مسلم ایسوسی ایشین کا ترجمان بننا تھا۔

لنکڈ ان پیچ کے مطابق یمنیٰ کی والدہ مدیحہ سلمان نے حال ہی میں ویسٹرن یونیورسٹی لندن سے سول اور ماحولیاتی انجنینئرنگ میں ایک پوسٹ گریجوئیٹ ڈگری مکمل کی تھی۔ اُن کا ہدف تھا کہ وہ ’جیو ماحولیاتی معاملات‘ پر کام کریں اور ’ہمارے قدرتی ماحول کی بحالی‘ کے لیے کوششیں کریں۔

خاندان کے ایک دوست نے سی بی سی نیوز کو بتایا کہ سلمان افضل ایک عاجز شخص تھے اور اپنی برادری کے ساتھ انتہائی وفا دار تھے۔

یمنیٰ کی 74 سالہ ضعیف دادی بھی ہلاک ہونے والوں میں شامل ہیں تاہم ان کا نام ابھی جاری نہیں کیا گیا ہے۔

کینیڈا کے شہر لندن میں کیسا سماں ہے؟

کینیڈا

،تصویر کا ذریعہGetty Images

کینیڈا میں اونٹاریو کے شہر لندن میں موجود صحافی محسن عباس کے مطابق جس شہر میں یہ واقعہ پیش آیا تھا وہاں بالخصوص اور کینیڈا بھر میں بالعموم سوگ کا سماں ہے اور متاثرین سے اظہار یکجہتی کے لیے متعدد عمارتوں پر لگے قومی پرچموں کو سرنگوں کر دیا گیا ہے۔

ملک میں مسلم کمیونٹی خاص طور پر پاکستانی برادری میں خوف اور تشویش کی ایک لہر دوڑ گئی ہے۔

صحافی محسن عباس کے مطابق مقامی پولیس نے ملزم کے فلیٹ کے قریب واقع ایک پارکنگ لاٹ پر نظر رکھے ہوئے ہے اور تفتیش کا دائرہ کار وہاں تک بڑھا دیا گیا ہے۔

مقامی سماجی اور مذہبی تنظیموں کی وزیراعظم جسٹن ٹروڈو سے پرزور اپیل ہے کہ وہ اس واقعے کو ایک معمولی واقعہ نہ سمجھیں اور اس واقعے کو دہشتگردی کی واردات کے طور پر دیکھا جائے اور ملزم پر دہشگردی کی دفعات عائد کی جائیں۔

مقامی پولیس شہر کے مختلف علاقوں سے سی سی ٹی وی کیمروں سے ملزم کے بارے میں معلومات جمع کر رہی ہے تاکہ ملزم اور اس کی مقاصد کے بارے میں زیادہ سے زیادہ پتا چلا سکیں۔ اس کے علاوہ شہر کی بڑی مسجد کے گرد حفاظتی پہرا بڑھا دیا گیا ہے۔

کینیڈا کے شہر لندن میں ملک کی ایک مشہور یونیورسٹی واقع ہے اور گذشتہ چند سالوں میں پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد ملک کے دوسرے شہروں سے یہاں آ کر آباد ہونا شروع ہوئی ہے۔

’ہم باہر نکلتے ہوئے گھبرا رہے ہیں‘

شازیہ

،تصویر کا کیپشن

شازیہ نذیر

کینیڈا میں مقیم پاکستانی کمیونٹی سے تعلق رکھنے والی سماجی کارکن شازیہ نذیر کا کہنا ہے کہ ‘میرے پاس الفاظ نہیں ہیں، اس واقعے کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ وزیر اعظم ٹروڈو نے ہمیں کہا ہے کہ کینیڈا میں دہشتگردی یا اسلاموفوبیا کی کوئی جگہ نہیں ہے، اب ہم دیکھنا چاہتے ہیں کہ جسٹن ٹروڈو اس واقعے کو کس طرح لیتے ہیں۔ آیا اس واقعے کو عام واقعہ قرار دیا جاتا ہے یا اس شخص پر کوئی دہشگردی کی وفعہ لگائی جاتی ہے۔’

شازیہ کا کہنا ہے کہ ایک ماں ہونے کی حیثیت سے یہ اُن کے لیے بہت خطرناک صورتحال ہے۔ گذشتہ مارچ سے ہم بچوں کو لے کر گھروں میں قید ہیں، اب موسمِ گرما کی آمد آمد ہے اور ہر انسان چاہتا ہے کہ وہ باہر نکلے، لیکن ایک ایسی خوفناک لہر آ گئی ہے کہ ہم باہر نکلتے وقت بھی گھبرا رہے ہیں۔’

انھوں نے کہا کہ ‘یہ واقعہ تو بہت بڑا ہے مگر چھوٹی سطح پر بھی یہاں اسلاموفوبیا کے واقعات ہوتے ہیں جیسے سکولوں میں، پارکس میں، اور اب خواتین آ کر بتا رہی ہیں کہ ان کے بچوں کے ساتھ کیا واقعات ہو رہے ہیں۔ ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ ہر قدم پر ہی ان واقعات کو کیسے روکا جائے تاکہ اتنا بڑا واقعہ رونما نہ ہو سکے۔’

شازیہ کا کہنا تھا کہ ‘ہم امید کرتے ہیں کہ مسلمانوں کو انصاف ملے۔’

یہ بھی پڑھیے

’سوچے سمجھے منصوبے کے تحت قتل‘

کینیڈین پولیس نے پیر کو کہا تھا کہ اس مسلمان خاندان کو ’سوچے سمجھے منصوبے‘ کے تحت گاڑی تلے روند کر قتل کیا گیا ہے۔

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق حملہ آور کو پولیس نے اس واقعے کے بعد گرفتار کر لیا تھا اور اس کے خلاف چار قتل اور ایک اقدامِ قتل کے مقدمات درج کر لیے گئے ہیں۔

حملہ آور کا نام نیتھانیئل ویلٹ مین بتایا گیا ہے۔ حملہ آور 20 سال کے ہیں اور لندن سے تعلق رکھتے ہیں۔ اُنھیں جائے وقوعہ سے چھ کلومیٹر دور ایک شاپنگ سینٹر میں گرفتار کیا گیا تھا جس کے بعد پیر کو انھیں پولیس کی تحویل میں دے دیا گیا اور ان کی اگلی پیشی جمعرات کو متوقع ہے۔

مقامی پولیس کے اہلکار پال ویٹ نے صحافیوں کو بتایا تھا کہ لندن کی پولیس اس معاملے میں دہشت گردی کی دفعات شامل کرنے کے حوالے سے کینیڈین حکام سے مشاورت کر رہی ہے۔ پولیس نے اسے ’نفرت پر مبنی جرم‘ قرار دیا ہے۔

ڈیٹیکٹیو سپرینٹنڈنٹ پال ویٹ نے ایک نیوز کانفرنس میں بتایا تھا کہ ’یہ مانا جا رہا ہے کہ ان افراد کو مسلمان ہونے کی وجہ سے نشانہ بنایا گیا۔‘

تاہم ان کا کہنا تھا کہ ابھی یہ معلوم نہیں ہے کہ حملہ آور کے کسی نفرت انگیز گروہ سے تعلقات ہیں یا نہیں۔

BBCUrdu.com بشکریہ
You might also like

Comments are closed.