جمعہ9؍ شوال المکرم 1442ھ21؍مئی 2021ء

کیا یہ مونچھیں پہلی صدی عیسوی کے فیشن کو ظاہر کرتی ہیں؟

کیا یہ مونچھیں پہلی صدی عیسوی کے فیشن کو ظاہر کرتی ہیں؟

مجسمہ

یہ خیال ظاہر کیا جاتا ہے کہ یہ مجسمہ زرخیزی کے کلٹی یا سیلٹک دیوتا سرنونوس کی نمائندگی کرتا ہے

ایک ماہر آثار قدیمہ نے کہا ہے کہ کھدائی میں ملنے والے ایک چھوٹے سے مجسمے میں تراشے ہوئے بال اور مونچھیں پہلی صدی عیسوی میں رائج فیشن کا ثبوت ہو سکتے ہیں۔

واضح رہے کہ کیمبرج شائر میں نیشنل ٹرسٹ کے ویمپول سٹیٹ میں سیلٹک دیوتا کی پانچ سینٹی میٹر (یا دو انچ) مجسمے کی دریافت سے یہ بات سامنے آئی ہے۔

لوہے کے زمانے کے بعد کے زمانے سے لے کر ابتدائی دیہی رومن آبادی کے دور کے جو نوادرات سنہ 2018 میں ملے ہیں وہ مزید تجزیے کا موضوع رہے ہیں۔

جب اس مجسمے کو صاف کیا گیا تو اس کے متعلق ‘قابل ذکر’ تفصیلات سامنے آئیں۔

اس کے بال آگے کے حصے میں صاف تراشے اور سنورے ہوئے نظر آتے ہیں جبکہ پیچھے کا حصہ صاف اور لمبا نظر آتا ہے۔ اور اس کے متعلق یہ خیال ظاہر کیا جاتا ہے کہ یہ زرخیزی کے کلٹیک یا سیلٹک دیوتا سرنونوس کی نمائندگی کرتا ہے۔

مشرقی انگلینڈ کے لیے نیشنل ٹرسٹ کی ماہر آثار قدیمہ شینن ہوگن نے کہا: ‘یہ مجسمہ ایک غیر معمولی دریافت ہے اور اسے بحفاظت رکھنے اور اس کی اچھی طرح سے صفائی کے باعث اب اس میں کچھ قابل ذکر تفصیل دیکھ سکتے ہیں۔`

‘اس کے بال کا سٹائل اور مونچھیں واضح ہیں جو کہ اس وقت کے رجحانات کی نشاندہی کرتے ہیں یا شاید اس خاص دیوتا کی تصویر کشی کے لیے مخصوص ہو سکتے ہیں۔’

یہ بھی پڑھیے

انھوں نے مزید کہا کہ اگرچہ یہ مجسمہ رومیوں نے بنایا ہو گا لیکن اس میں ‘سیلٹک خصوصیات’ جیسے بیضوی آنکھ موجود ہیں۔ خیال رہے کہ رومیوں نے سنہ 43 عیسوی میں برطانیہ پر حملہ کیا تھا اور یہاں آباد ہو گئے تھے۔

انھوں نے کہا ‘جس ٹارک (بٹی ہوئی ڈوریوں کی مالا یا ہار) کو اس نے تھام رکھا ہے وہ کھلا ہوا دھات کا بنا گردن کا ہار ہے۔ اور مرکز میں ایک چھوٹی سی طاق سے پتہ چلتا ہے کہ اس میں آرائش رہی ہوگی جو کہ اب کھو گئی ہے۔

‘ہمیں اس بارے میں انتہائی محدود معلومات ہیں کہ اس زمانے میں انگلینڈ کے عام لوگ کس طرح کے نظر آتے تھے، لہذا یہ چھوٹا سا خوبصورت مجسمہ ہمیں ان کے ظاہر کی ہلکی سی جھلک پیش کرتا ہے یا پھر ان کے نزدیک اپنے خداؤں کا تصور کیسا تھا۔’

مجسمہ

نیشنل ٹرسٹ کے مطابق اصل میں یہ مجسمے ممکنہ طور کسی چاقو یا چمچے کے ہینڈل کے طور پر کام کرتے تھے۔

اس مجسمے کو لوہے کے زمانے کے آخری دور یا ابتدائی رومن دور میں برطانیہ کے باشندوں نے ویمپول میں کھو دیا ہوگا یا پھر اسے رکھا گيا ہو گا۔

‘اثرات اور اقتدار’

آکسفورڈ ایسٹ آثار قدیمہ سے تعلق رکھنے والی کرس تھیچر نے کہا: "اس طرح کی چیزوں کی دریافت سےعہد آہن کے آخری زمانے میں جمالیات اور علامات کی نادر، دلچسپ اور بصیرت افروز معلومات حاصل ہوتی ہیں۔‘

‘اس کے بالوں کا انداز اس دور کے طرز کا ہے یہ بات کبھی بھی یقینی طور پر معلوم نہیں ہو سکے گی۔‘

‘تاہم، ہمارا خیال ہے کہ اس کا ٹورک کو پکڑنا اور خنجر کا دستہ بنانا اس کی حیثیت کا غماز ہے یا تو وہ دواؤں کو ملانے کے لیے ہے یا پھر لکھنے کی میز کے لیے موم ہے۔’

کھدائی کے دوران تقریبا 300 باہر سے لائے جانے والے برتن اور دوسری دھات کی اشیا ملی ہیں۔

ان میں سکے، کاسمیٹک کے سامان، گھوڑوں کے زین و لگام سے متعلقہ اشیاء، رومن فوجی وردی کی چیزیں، ایک بھالے کا سرا، کلہاڑی کا سر، کنجیوں کے دستے اور بروچز یعنی طرہ یا جگنی شامل ہیں۔

BBCUrdu.com بشکریہ
You might also like

Comments are closed.