کیا روس کے صدر پوتن کو جنگی جرائم کے الزام میں گرفتار کیا جا سکتا ہے؟
بین الاقوامی فوجداری عدالت (آئی سی سی) کی جانب سے روسی صدر ولادیمیر پوتن کے خلاف گرفتاری کے وارنٹ جاری کیے جانے کے بعد جنوبی افریقہ کی حکومت یہ فیصلہ کر رہی ہے کہ آیا روس کے صدر ولادیمیر پوتن کو اگست میں ہونے والی ایک کانفرنس میں شرکت کے لیے مدعو کیا جائے یا نہیں۔
آئی سی سی کے وارنٹ کی قانونی حیثیت کے حوالے سے کئی سوالات جواب طلب ہیں، اور یہ بھی جاننا باقی ہے کہ کیا کسی بھی ملک کی حکومت واقعی پوتن کو گرفتار کر پائے گی یا نہیں۔
صدر پوتن پر کیا الزام ہے؟
آئی سی سی نے 17 مارچ کو صدر پوتن اور بچوں کے حقوق کے لیے روس کی کمشنر ماریا لیووا بیلووا کے خلاف گرفتاری کے وارنٹ جاری کیے تھے۔
آئی سی سی کا الزام ہے کہ فروری 2022 میں روس کے حملے کے بعد یوکرین سے بچوں کو غیر قانونی طور پر روس بھیجنے کے لیے یہ دونوں افراد ذاتی طور پر ذمہ دار ہیں۔
پوتن پر یہ الزام بھی لگایا گیا ہے کہ وہ اپنے صدارتی اختیارات کو بچوں کی ملک بدری روکنے کے لیے استعمال کرنے میں ناکام رہے ہیں۔
یوکرین کے نیشنل انفارمیشن بیورو کے مطابق 16,221 بچوں کو زبردستی روس لے جایا گیا۔
یوکرین نے آئی سی سی کو اپنی سرزمین پر ہونے والے جنگی جرائم کی تحقیقات کا دائرہ اختیار دیا تھا جس کے بعد اس نے اس کیس کے حوالے سے کارروائی کا آغاز کیا ہے۔
یہ پہلا موقع ہے جب عدالت نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے پانچ مستقل ارکان میں سے کسی ایک رہنما کے خلاف وارنٹ جاری کیے ہیں۔
یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی نے آئی سی سی کے اس اقدام کو ’تاریخی فیصلہ‘ قرار دیا ہے۔
بین الاقوامی فوجداری عدالت کیا ہے؟
نیدرلینڈز کے دی ہیگ میں مقیم، آئی سی سی نسل کشی، جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم میں ملوث افراد کی تحقیقات اور ان پر مقدمہ چلاتی ہے۔
اسے 1998 میں روم سٹیٹیوٹ کے تحت قائم کیا گیا تھا اور 2002 میں اس نے کام کا آغاز کیا تھا۔
تحقیقات کے لیے اس کا سالانہ بجٹ 130 ملین پاؤنڈ ہے، اب تک آئی سی سی نے 40 مقدمات نمٹائے ہیں، اور 10 افراد کو سزا سنائی ہے۔
اس وقت آئی سی سی کے پاس رجسٹر ممالک کی تعداد 123 ہے، جو اس کے اختیار کو قبول کرتے ہیں۔
تاہم روس، امریکہ اور چین اس کا حصہ نہیں ہیں۔
کیا آئی سی سی پوتن کو گرفتار کر سکتی ہے؟
آئی سی سی کے پاس مشتبہ افراد کو گرفتار کرنے کا کوئی اختیار نہیں ہے۔
عدالت کے صدر پیوتر ہوفمانسکی نے کہا ہے کہ پوتن کو گرفتار کرنا بین الاقوامی برادری پر منحصر ہے۔
چونکہ روس میں پوتن کی سیاسی طاقت کو فی الحال کوئی چیلنج نہیں کر سکتا، اور روس نے کبھی بھی آئی سی سی کا ممبر بننے کے لیے دستخط نہیں کیے، اس لیے ان کی اپنے ملک میں گرفتاری کا کوئی امکان نہیں ہے۔
کریملن کی ترجمان ماریا زاخارووا نے پوتن اور لیووا بیلووا کے خلاف گرفتاری کے وارنٹ کو ’بے معنی‘قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا ہے اور کہا ہے کہ ان کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔
تاہم آئی سی سی کے پراسیکیوٹر خالد خان نے بی بی سی کو بتایا کہ اگرچہ روس آئی سی سی کو تسلیم نہیں کرتا مگر اس کے باوجود یہ دونوں افراد مبینہ جنگی جرائم کے لیے قانونی چارہ جوئی سے بچ نہیں سکتے۔
انھوں نے کہا کہ تمام ریاستوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ بین الاقوامی قانون کی پابندی کریں۔
یہ بھی پڑھیے
کیا کوئی ملک پوتن کو گرفتار کرے گا؟
پوتن برکس ممالک (برازیل، روس، انڈیا ، چین اور جنوبی افریقہ) کی کانفرنس کے لیے اگست میں جنوبی افریقہ کا دورہ کرنے والے ہیں۔
جنوبی افریقہ آئی سی سی کو تسلیم کرتا ہے مگر اس کی حکومت الجھن کا شکار ہے کہ آیا اسے پوتن کے خلاف گرفتاری کے وارنٹ پر عمل درآمد کرنا چاہیے یا وہ ان کے ساتھ مہمان خصوصی کی طرح برتاؤ کر سکتی ہے۔
اس کے وزیر خارجہ نالیڈی پانڈور نے کہا ہے ’ہمیں اپنی قانون سازی کی موجودہ دفعات کا جائزہ لینا ہو گا۔‘
تاہم انھوں نے آئی سی سی پر دوہرے معیار کا الزام بھی لگاتے ہوئے کہا ’بہت سے ایسے ممالک اور رہنما ہیں جنھوں نے تنازعات کے دوران بہت سنگین نوعیت کی زیادتیاں کی ہیں، لیکن کوئی انھیں چھو تک نہیں سکا۔‘
جنوبی افریقہ اور روس کے دوستانہ تعلقات ہیں اور ان کی بحریہ نے فروری میں ایک ساتھ مشقیں کی تھیں۔
جنوبی افریقہ پہلے بھی آئی سی سی کے وارنٹ گرفتاری کو نظر انداز کر چکا ہے۔
عدالت نے سوڈان کے صدر عمر البشیر کی 2009 اور 2010 میں انسانیت کے خلاف جرائم کے الزام میں گرفتاری کے وارنٹ جاری کیے تھے۔
ان کا تعلق دارفور میں 2003 میں ہونے والے تنازعے سے تھا جس کی وجہ سے 300,000 لوگ مارے گئے تھے۔
تاہم، جنوبی افریقی حکام نے انھیں گرفتار کرنے سے انکار کر دیا جب وہ 2015 میں وہاں کے دورے پر تھے۔
پوتن جون 2023 میں وارانسی میں شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس کے لیے اور ستمبر میں جی 20 سربراہی اجلاس کے لیے انڈیا کا دورہ کرنے والے ہیں۔
تاہم انڈیا نے آئی سی سی کو تسلیم نہیں کیا اور اس سے توقع نہیں کی جار ہی کہ وہ گرفتاری کے وارنٹ پر کارروائی کرے گا۔
ہنگری کی حکومت، جس کے روس کے ساتھ دوستانہ تعلقات ہیں، نے کہا ہے کہ وہ پوتن کو اپنی سرزمین پر گرفتار نہیں کرے گی حالانکہ وہ آئی سی سی کو تسلیم کرتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ایسا کرنا ان کے ملک کے آئین سے متصادم ہو گا۔
پوتن نے یوکرین جنگ کے آغاز کے بعد سے آٹھ ممالک کا سفر کیا ہے جن میں سات سابق سوویت جمہوریہ اور ایران شامل ہیں۔ یہ سب روس کے لیے دوست ممالک ہیں۔
اس بات کا امکان نہیں ہے کہ وہ کسی ایسے ملک کا سفر کریں گے جہاں انھیں گرفتار کیا جا سکے۔
تاہم یہ خطرہ برقرار ہے کہ انھیں بیرون ملک گرفتار کیا جا سکتا ہے اور یہ چیز مستقبل میں ان کی سفری آزادی کو محدود کر سکتی ہے۔
کیا پوتن کو واقعی مقدمے کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے؟
اگر پوتن کو گرفتار کربھی لیا جاتا ہے تب بھی آئی سی سی میں ان کے خلاف مقدمے کی سماعت میں کئی قانونی رکاوٹیں ہوں گی۔
یہ عدالت ان ممالک کی جانب سے مقدمات چلانے کے لیے قائم کی گئی تھی جو آئی سی سی کے دستخط کنندہ ہیں اور جو اس کے دائرہ اختیار کو قبول کرتے ہیں اور روس ان میں سے ایک نہیں ہے۔
اور اگرچہ یوکرین نے آئی سی سی سے کہا ہے کہ وہ روس کے مبینہ جنگی جرائم کی تحقیقات کرے، لیکن یہ دراصل خود یوکرین بھی آئی سی سی کا دستخط کنندہ نہیں ہے (یعنی اس نے کبھی بھی آئی سی سی کے قوانین پر دستخط کی توثیق نہیں کی ہے)۔
تاہم آئی سی سی نے وارنٹ گرفتاری جاری کرنے کے اپنے فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ یوکرین میں روس کے جنگی جرائم جاری ہیں اور وہ مزید جرائم کو روکنے کی کوشش کر رہا ہے۔
Comments are closed.