وہ سات وجوہات جن کے باعث امریکہ ویتنام جنگ ہار گیا

GETTY IMAGES

،تصویر کا ذریعہGetty Images

  • مصنف, مارک شیا
  • عہدہ, بی بی سی ورلڈ

دوسری جنگ عظیم کے بعد امریکہ بلاشبہ دنیا کی سب سے بڑی اقتصادی طاقت تھا اور اس کا خیال تھا کہ اس کی فوج بھی اسی طرح سب سے طاقتور ہے۔

مگر آٹھ سال کی جنگ میں بے شمار فوجیوں اور وسیع تر وسائل جھونکنے کے بعد بھی امریکہ کو شمالی ویتنام کی افواج اور ان کے گوریلا اتحادیوں، ویت کاننگ کے ہاتھوں شکست ہوئی۔

امریکی لڑاکا دستوں کے حتمی انخلا کی 50 ویں سالگرہ (29 مارچ 1973) پر ہم نے چند ماہرین سے بات کرکے یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ امریکہ ویتنام کی جنگ کیسے ہارا۔

یہ سرد جنگ کا عروج تھا، اور کمیونسٹ اور سرمایہ دار عالمی طاقتیں ایک دوسرے کے خلاف آمنے سامنے تھیں۔

دوسری جنگ عظیم سے دیوالیہ ہونے والے فرانس نے انڈوچائنا میں اپنی کالونی کو برقرار رکھنے کی کوشش کی مگر ناکام ہو گیا، اور ایک امن کانفرنس کے نتیجے میں آج کا ویتنام، شمال کی جانب کمیونسٹ اور جنوب میں امریکی حمایت یافتہ ریاست میں تقسیم کر دیا گیا۔

لیکن فرانسیسیوں کی شکست سے اس ملک میں تنازعہ ختم نہیں ہوا اور اس خوف کے باعث کہ اگر تمام ویتنام کمیونسٹ ہو گیا تو آس پاس کے ممالک بھی تباہ ہو جائیں گے، امریکہ ایک ایسی جنگ میں کود پڑا جو ایک دہائی تک جاری رہی اور اس میں لاکھوں جانیں ضائع ہوئیں۔

تو پھر دنیا کی سب سے بڑی فوجی طاقت کس طرح غریب جنوب مشرقی ایشیا میں ایک نئی تشکیل شدہ ریاست کے باغیوں سے جنگ ہار گئی؟

دنیا کے دوسرے کونے میں جا کر جنگ لڑنا کوئی آسان کام نہیں تھا

GETTY IMAGES

،تصویر کا ذریعہGetty Images

یقیناً دنیا کے دوسرے کونے میں جا کر جنگ لڑنا کوئی آسان کام نہیں تھا۔

جنگ کے عروج پر ویتنام میں امریکہ کی نصف ملین سے زیادہ فوج موجود تھی۔

اس جنگ پر بےحساب لاگت آئی- 2008 میں امریکی کانگریس کی ایک رپورٹ کے مطابق جنگ پر کل اخراجات 686 بلین ڈالر (آج کے حساب سے 950 بلین ڈالر سے زیادہ) تھے۔

لیکن امریکہ نے دوسری جنگ عظیم میں اس سے چار گنا سے زیادہ خرچ کیا اور کامیاب بھی ہوا، اور کوریا میں طویل فاصلے کی جنگ لڑی تھی، اس لیے امریکہ کے پاس اعتماد کی کوئی کمی نہیں تھی۔

برطانیہ کی سینٹ اینڈریوز یونیورسٹی میں امریکی خارجہ اور دفاعی پالیسی کے ماہر ڈاکٹر لیوک مڈپ کا کہنا ہے کہ جنگ کے ابتدائی سالوں میں جیت کے حوالے سے مثبت سوچ پائی جاتی تھی۔

انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’امریکہ بہت سارے مسائل سے بخوبی واقف تھا، اس بارے میں بہت سارے شکوک و شبہات تھے کہ آیا امریکی فوج ویتنام کے ماحول میں جنگ لڑ سکتی ہے یا نہیں اور پھر بھی، 1968 تک امریکی حکومت کو یقین رہا کہ وہ آخر کار جیت جائے گی۔‘

تاہم یہ یقین جلد ہی ختم ہو گیا۔۔ خاص طور پر جنوری 1968 میں کمیونسٹوں کی جارحانہ کارروائیوں کے نتیجے میں جنگ کی فنڈنگ کے لیے امریکی کانگریس کی حمایت کم ہوتی گئی اور بلآخر 1973 میں امریکہ ویتنام سے اپنے لڑاکا فوجیوں کے انخلا پر مجبور ہو گیا۔

تاہم ڈاکٹر مِڈپ سوال کرتے ہیں کہ کیا امریکی جنگی دستوں کو ویتنام میں جانا بھی چاہیے تھا یا نہیں؟ ایک اور ماہرِ تعلیم، ڈاکٹر نگوین ہوانگ آن، جو یونیورسٹی لیکچرر ہونے کے ساتھ ساتھ ہنوئی میں فیس بک پر بہت معروف ہیں، وہ بھی یہی سوال کرتی ہیں۔

وہ جنگ کے دوران شمالی ویتنام میں پلی بڑھیں اور شہری علاقوں پر امریکی بمباری ہوتے دیکھی، وہ کہتی ہیں کہ ویتنام میں امریکی فوجیوں کا کوئی کام نہیں تھا۔

وہ کہتی ہیں ’میری رائے میں، امریکیوں نے شمالی ویتنام کی حکومت کے لیے بہت اچھا کام کیا اور جب تک وہ جیت رہے تھے، ان کے تمام اقدامات اور غلطیوں کو جنگ سے جوڑتے ہوئے انھیں معاف کر دیا گیا تھا۔‘

امریکی افواج کو گوریلا جنگ کا کوئی تجربہ نہیں تھا

GETTY IMAGES

،تصویر کا ذریعہGetty Images

امریکی افواج کو اس قسم کی جنگ کا کوئی تجربہ نہیں تھا

ہالی ووڈ کی کئی فلموں میں اکثر نوجوان امریکی فوجیوں کو جنگل کے ماحول سے نمٹنے کے لیے جدوجہد کرتے دکھایا گیا ہے، جب کہ ویت کانگریس کے باغی بڑی مہارت کے ساتھ گھنے جنگلوں میں رہتے ہیں اور وہاں سہ نکل کر اچانک حملہ کر تے ہیں۔

ڈاکٹر مڈپ نے اعتراف کیا کہ ’کسی بھی بڑی فوج کو ایسے ماحول میں لڑنے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑے گا جس میں امریکیوں کو لڑنے کے لیے کہا جا رہا تھا۔‘

’یہاں کے کچھ حصے جنوب مشرقی ایشیا کے گھنے ترین جنگلات میں سے ایک ہیں۔‘

لیکن وہ کہتے ہیں، دونوں فریقوں کی قابلیت میں فرق بڑھا چڑھا کر پیش کیا جا سکتا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ جنگ کے دوران کہا گیا کہ امریکی فوج اس ماحول سے نمٹ نہیں سکتی جبکہ شمالی ویتنامی اور ویت کانگ اس کے عادی ہیں، وہ کہتے ہیں کہ یہ سچ نہیں ہے۔

’شمالی ویتنامی فوج اور ویت کانگ کے لیے بھی اس ماحول میں بھی لڑنا آسان نہیں تھا اور انھیں بہت جدوجہد کرنا پڑی۔‘

ڈاکٹر مڈپ کے مطابق یہ بات زیادہ اہم ہے کہ ہمیشہ باغیوں نے جنگ کے وقت اور مقام کا انتخاب کیا، اور وہ لاؤس اور کمبوڈیا میں سرحد کے اس پار محفوظ پناہ گاہوں میں پیچھے ہٹنے میں کامیاب ہوئے جہاں امریکی افواج کے لیے تعاقب ممکن نہیں تھا۔

امریکہ کی اوریگون یونیورسٹی کے شعبہ سیاسیات کے سربراہ پروفیسر ٹونگ وو نے بی بی سی کو بتایا کہ امریکہ کی توجہ ویت کانگ گوریلوں سے لڑنے پر مرکوز تھی جس کی وجہ سے شکست ہوئی۔

انہوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’جنوب سے اٹھنے والی شورش کبھی بھی سائگون کو شکست نہیں دے سکتی تھی لیکن اس سٹریٹجک غلطی نے شمالی ویتنامی فوج کے دستوں کو جنوب میں داخل ہونے کی اجازت دی اور یہ دراندازی کرنے والی فوجیں ہی تھیں جو جنگ جیت گئیں۔‘

امریکہ کو اپنے ملک کے اندر بھی شکست کا سامنا تھا

GETTY IMAGES

،تصویر کا ذریعہGetty Images

اس تنازعہ کو اکثر طپہلی ٹیلی ویژن جنگ‘ کہا جاتا ہے اور جس حد تک اس کی میڈیا کوریج ہوئی وہ بے مثال تھی۔

1966 تک کے یو ایس نیشنل آرکائیوز کے تخمینے کے مطابق 93 فیصد امریکی خاندانوں کے پاس ٹی وی سیٹ تھے اور جوفوٹیج وہ دیکھ رہے تھے وہ پچھلے تنازعات کے مقابلے میں کم سنسر شدہ اور جلدی نشر کی جا رہی تھی۔

یہی وجہ ہے کہ ٹیٹ حملے کے دوران سائگون میں امریکی سفارت خانے کے احاطے کے ارد گرد لڑائی بہت شدید تھی۔ سامعین نے حقیقی وقت میں دیکھا کہ ویت کانگ اس تنازعہ کو جنوبی حکومت اور امریکی عوام کے بیڈ رومز تک پہنچانے میں کامیاب ہے۔

1968 کے بعد سے، کوریج بڑی حد تک جنگ کے لیے ناموافق تھی۔۔۔ معصوم شہریوں کے مارے جانے، معذور ہونے اور تشدد کا نشانہ بننے کی تصاویر ٹی وی اور اخبارات میں دکھائی گئیں اور بہت سے امریکی خوفزدہ ہو کر جنگ کے خلاف ہو گئے۔

ملک بھر میں ایک بہت بڑی احتجاجی تحریک نے جنم لیا۔

4 مئی 1970 کو ایسے ہی ایک مظاہرے میں، اوہائیو کی کینٹ سٹیٹ یونیورسٹی میں چار پرامن طلبا مظاہرین کو نیشنل گارڈز کے اہلکاروں نے گولی مار کر ہلاک کر دیا۔

’کینٹ سٹیٹ قتل عام‘ نے مزید لوگوں کو جنگ کے خلاف کردیا۔

getty

،تصویر کا ذریعہGetty Images

ان نوجوانوں کی ہلاکت اور امریکی فوجیوں کے گھر واپس آنے والے تابوتوں کی تصاویر نے عوام پر تباہ کن اثر ڈالا۔ اس جنگ میں تقریباً 58,000 امریکی فوجی ہلاک یا لاپتہ ہو گئے۔

پروفیسر وو کے مطابق اس میں شمال کے لیے ایک بڑا فائدہ تھا: اگرچہ ان کے نقصانات کہیں زیادہ تھے، ان کی مطلق العنان ریاست کا میڈیا پر مکمل کنٹرول اور معلومات پر اجارہ داری تھی۔

’امریکہ اور جنوبی ویتنام کے پاس رائے عامہ کو اس حد تک تشکیل دینے کی صلاحیت اور خواہش نہیں تھی جس حد تک کمیونسٹ کر سکتے تھے۔ ان کے پاس بڑے پیمانے پر پروپیگنڈہ کا نظام تھا۔ انھوں نے سرحد بند کر دی اور اختلاف رائے کو دبایا۔ جو بھی جنگ سے اختلاف کرتا تھا اسے جیل بھیج دیا جاتا تھا۔‘

شمال سے تعلق رکھنے والے پروفیسر نگوین بھی متفق ہیں: ’امریکہ میڈیا کی جنگ ہار گیا۔ شمالی ویتنام دنیا سے بالکل الگ تھلگ تھا، اس لیے اس کی حکومت کی غلطیاں ظاہر نہیں ہوئیں، دنیا نے انھیں صرف صالحین کے طور پر دیکھا۔ لیکن امریکہ کے مظالم کی تصویریں ہر طرف پھیل گئیں۔‘

امریکہ جنوبی ویتنام میں بھی دل و دماغ کی جنگ ہار گیا

GETTY IMAGES

،تصویر کا ذریعہGetty Images

یہ ایک غیر معمولی تنازعہ تھا جس میں لوگوں نے دیکھا کہ امریکہ نے بہت سے خوفناک ہتھیاروں کا استعمال کیا۔

نیپلم (ایک پیٹرو کیمیکل آتش گیر مادہ جو 2700C پر جلتا ہے اور جس چیز کو چھوتا ہے اس سے چمٹ جاتا ہے) اور ایجنٹ اورنج (ایک اور کیمیکل جو جنگل میں دشمن کے کوور کو ختم کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے لیکن جس سے فصلیں بھی تباہ ہو گئیں اور لوگ فاقہ کشی پر مجبور ہوئے) کے استعمال نے دیہی آبادیوں میں امریکہ کا تاثر بہت خراب کیا۔

’تلاش اور تباہ‘ کے مشن میں لاتعداد بے گناہ شہریوں کا قتل عام ہوا۔ ویتنام جنگ کے سب سے بدنام واقعہ ’ 1968 کے مائی لائی قتل عام‘ میں امریکی فوجیوں نے کئی سو ویتنامی شہریوں کو قتل کیا۔

شہریوں کی ہلاکتوں نے ایک مقامی آبادی کو امریکہ مخالف کر دیا، خیال کیا جاتا ہے کہ یہ آبادی ویت کاننگ کی حمایت کے لیے مائل نہیں تھی۔

ڈاکٹر مڈپ کا کہنا ہے کہ’ایسا نہیں ہے کہ جنوبی ویتنام کے لوگوں کی اکثریت کمیونسٹ تھی – زیادہ تر لوگ صرف اپنی زندگی میں آگے بڑھنا اور ہاں تک ممکن ہو اس جنگ سے بچنا چاہتے تھے۔‘

پروفیسر وو اس بات سے متفق ہیں کہ امریکہ نے دل و دماغ جیتنے کے لیے جدوجہد کی۔

وہ کہتے ہیں ’غیر ملکی فوج کے لیے لوگوں کو خوش کرنا ہمیشہ مشکل ہوتا ہے۔‘

ڈاکٹر گوئین کا کہنا ہے کہ ’یہ صرف شمالی نہیں بلکہ جنوبی بھی امریکہ مخالف تھے۔ جنوب میں امریکی ایجنسیوں میں کام کرنے والوں خصوصاً خواتین کے ساتھ بہت امتیازی سلوک کیا جاتا تھا۔‘

حقیقت یہ ہے کہ امریکی ویتنام میں تعینات تھے اور جنوبی ویتنام کی فوج کی کمانڈ ان کے ہاتھ میں تھی، اسی وجہ سے تمام ویتنامی امریکہ سے نفرت کرنے اور ان پر عدم اعتماد کرنے لگے۔

یہ بھی پڑھیے

کمیونسٹوں کے حوصلے بہتر تھے

GETTY IMAGES

،تصویر کا ذریعہGetty Images

ڈاکٹر مڈپ کا خیال ہے کہ عام طور پر، جن لوگوں نے کمیونسٹ سائیڈ پر لڑنے کا انتخاب کیا وہ ان لوگوں کے مقابلے جیتنے کے لیے زیادہ پرعزم تھے جنھیں جنوبی ویتنام کی طرف سے لڑنے کے لیے تیار کیا گیا تھا۔

وہ کہتے ہیں ’امریکہ نے جنگ کے دوران کئی تحقیقات کیں جن میں کمیونسٹ قیدیوں سے بڑی تعداد میں پوچھ گچھکیگئی اور یہ اس کی تصدیق کرتی ہیں۔‘

’امریکی محکمہ دفاع اور رینڈ کارپوریشن (امریکی فوج سے وابستہ ایک تھنک ٹینک) نے حوصلہ افزائی اور حوصلے سے متعلق تحقیقات پر کام کیا۔ ان میں اس چیز کا جائزہ لیا گیا کہ شمالی ویتنامی اور ویت کانگ کیوں لڑے اور وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ انھوں نے جذبہِ حب الوطنی کے تحت ایسا کیا، وہ ملک کو ایک ہی حکومت کے تحت دوبارہ متحد کرنا چاہتے تھے۔‘

بڑی تعداد میں ہلاکتوں کے باوجود کمیونسٹ قوتوں کا جنگ جاری رکھنا شاید ان کے حوصلوں کی مضبوطی کا ثبوت ہے۔

امریکی قیادت کو دشمن کے مارنے جانے والے فوجی گننے کا جنون تھا، ان کا خیال تھا کہ اگر وہ مارے جانے والے فوجیوں کی جگہ لینے والے دوسرے فوجیوں کو جلدی جلدی مارنے میں کامیاب ہو جاتےہیں تو کمیونسٹوں کی لڑنے کی قوت ارادی حتم ہو جائے گی۔

جنگ کے دوران شمالی ویتنام اور ویت کانگ کے تقریباً 11 لاکھ جنگجو مارے گئے تھے، اور پھر بھی کمیونسٹ جنگ کے اختتام تک اپنی تعداد کو تبدیل کرنے میں کامیاب دکھائی دیتے تھے۔

پروفیسر وو کو یقین نہیں ہے کہ آیا شمال کے حوصلے بہتر تھے، لیکن وہ تسلیم کرتے ہیں کہ شمالی فوجیوں کی طرف سے ان کو ’ہتھیار‘ بنایا گیا تھا۔

’وہ لوگوں کو مقصد پر یقین دلانے میں کامیاب رہے۔ پروپیگنڈے اور تعلیمی نظام کی بدولت وہ لوگوں کو گولیوں میں بدلنے میں کامیاب رہے۔‘

ڈاکٹر گوئین نے پروپیگنڈےکا کوئی ذکر نہیں کیا، لیکن شمال میں مقصد کےلیے بنے ایک قابل ذکر اتحاد کے بارے میں بتایا۔ ہر کوئی امریکی فوج کی مخالفت کے لیے پرعزم تھا۔ ہم نے تمام نقصان، درد، حتیٰ کہ ناانصافی کو اس یقین کے ساتھ قبول کیا کہ جب تک جنگ ختم ہوگی، سب کچھ بہتر ہوگا۔

جنوبی ویتنام کی حکومت غیر مقبول اور بدعنوان تھی

GETTY IMAGES

،تصویر کا ذریعہGetty Images

ڈاکٹر مِڈُپ کے مطابق جنوب کی ساکھ خراب تھی اور اسے سابق نوآبادیاتی طاقت کے ساتھ تعلق جیسے مسائل کا سامنا تھا۔

’شمالی اور جنوبی ویتنام کے درمیان تقسیم عارضی تھی۔ ویتنام کو دو ملکوں میں تقسیم کرنے کی کوئی ثقافتی، نسلی یا لسانی وجہ نہیں تھی۔‘

ان کا خیال ہے کہ جنوب میں مذہبی اقلیت، عسیائیوں کا غلبہ قائم ہوا۔

اگرچہ اس گروپ نے اس وقت آبادی کے صرف 10 سے 15 فیصد کی نمائندگی کی (ویتنام میں بہت زیادہ بدھ مت ہیں)، لیکن شمال میں بہت سے لوگ ظلم و ستم کے خوف سے جنوب سے فرار ہو گئے تھے، جس سے ڈاکٹر مِڈپ کے مطابق جنوب کی سیاست میں ’ایک تنقیدی اجتماع‘ نے جنم لیا۔ اور جنوب کے پہلے صدر نگو دھن دیم کی طرح ان جنوبی سیاست دانوں کے امریکہ میں صدر جان ایف کینیڈی جیسے طاقتور کیتھولک دوست تھے۔۔ دیم کو بعد میں 1963 میں سی آئی اے کی حمایت یافتہ بغاوت میں معزول کرنے کے بعد مار دیا گیا۔

ڈاکٹر مڈپ کہتے ہیں کہ ایک مذہبی اقلیت کے اس تسلط نے ’جنوبی ویتنامی ریاست کو بدھ مت کی پیروکار آبادی والی اکثریت میں غیر مقبول بنا دیا۔

ان کا خیال ہے کہ اس سے قانونی حیثیت کا بحران پیدا ہوا، اور ایک ایسی حکومت جسے ویتنام کی اکثریت نے ایک غیر ملکی ((فرانسیسی استعمار کی میراث) کے طور پر دیکھا، کیونکہ بہت سے کیتھولک فرانسیسیوں کے ساتھ لڑ چکے تھے۔

ڈاکٹر مڈپ نے مزید کہا ’امریکی فوجیوں کی نصف ملین کی موجودگی اس حقیقت کی نشاندہی کرتی ہے کہ یہ حکومت ہر طرح سے غیر ملکیوں پر بھروسہ کر رہی ہے۔ جنوبی ویتنام کبھی بھی ایسا سیاسی منصوبہ نہیں تھا جسے بچانے کے لیے آبادی کی ایک بڑی تعداد کو لڑنے اور مرنے پر قائل کیا جا سکے۔‘

ان کا کہنا ہے کہ اس سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا امریکی فوجیوں کو ایسی ریاست کی حمایت کے لیے بھیجا جانا چاہیے تھا جسے وہ بدعنوانی کا شکار قرار دیتے ہیں۔

’اپنے آغاز سے لے کر تباہی تک )جمہوریہ ویتنام) ایک ناقابل یقین حد تک بدعنوان ریاست رہی، اور 1960 سے 1975 تک بڑے پیمانے پر آنے والی امریکی امداد سے بدتر ہوتی گئی۔۔ اس نے جنوبی ویتنام کی معیشت کو مکمل طور پر تباہ کر دیا۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’اس کا بنیادی مطلب یہ ہے کہ کوئی بھی شخص رشوت دیے بغیر کوئی عہدہ حاصل نہیں کر سکتا، چاہے سول ہو یا فوجی۔‘ ان کا خیال ہے کہ اس کے مسلح افواج پر سنگین اثرات مرتب ہوئے۔

’اس کا مطلب یہ ہے کہ امریکہ کبھی بھی قابل اعتماد، قابل، جنوبی ویتنامی فوج نہیں بنا سکتا تھا۔‘

’یہ ہمیشہ سے ناگزیر تھا اور امریکی صدر رچرڈ نکسن نے بھی اسے ناگزیر تسلیم کیا تھا کہ جب مستقبل میں کسی غیر یقینی موڑ پر امریکی فوجی واپس جائے گی تو جنوبی ویتنامی ریاست ختم ہو جائے گی۔‘

شمال کے مقابلے میں امریکہ اور جنوبی ویتنام کو بہت سے مسائل کا سامنا کرنا پڑا

getty

،تصویر کا ذریعہGetty Images

پروفیسر وو اس بات سے اتفاق نہیں کرتے کہ جنوب کی شکست ناگزیر تھی، اور ان کا خیال ہے کہ امریکی ویتنام جنگ ہارنے کے بہانے تلاش کر رہے ہیں۔

’وہ چاہتے ہیں کہ کسی کو نقصان کا ذمہ دار ٹھہرایا جائے، اور سب سے آسان لوگ جنوبی ویتنامی ہیں۔‘ انھوں نے مزید کہا کہ امریکی رپورٹس میں بدعنوانی اور کیتھولک کی طرفداری کی تنقید کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا ہے۔

’وہاں بہت زیادہ بدعنوانی تھی، لیکن اس سطح پر نہیں تھی جس کی وجہ سے جنگ میں نقصان ہوا تھا۔ بدعنوانی کے نتیجے میں یقیناً بہت سی نااہل بھرتیار اور غیر موثر فوجی یونٹس نے جنم لیا، لیکن مجموعی طور پر جنوبی ویتنامی فوج نے بہت اچھی لڑائی لڑی۔‘

پروفیسر وو کے مطابق فیصلہ کن عنصر شمال کی جانب سے بہت طویل عرصے تک مکمل جنگی محاذ پر رہنے کی صلاحیت تھی۔ مسلسل کوشش جس کا مقابلہ زیادہ آزاد خیال جنوب نہ کر سکا۔

سیاسی نظام ایسا بنایا گیا تھا کہ عوام جنگ پر یقین رکھتے ہیں اور جانی نقصان کے بارے میں کم جانتے ہیں۔

پروفیسر وو کا کہنا ہے کہ ’امریکہ اور جنوبی ویتنامی، کمیونسٹ کی طرح عوام کی رائے کو بدل نہیں سکتے تھے۔‘

’بہت سے جنگجوؤں کی ہلاکتوں کے باوجود وہ پھر سے متحرک ہو جاتے تھے، شمال کے پاس خود کش حملوں جیسی فوجی حکمت عملی تھی مگر جنوب کے پاس ایسی کوئی صلاحیت نہیں تھی۔‘

وہ مزید کہتے ہیں، سوویت یونین اور چین کی طرف سے شمال کے لیے مالی اور فوجی مدد کم نہیں ہوئی، اور امریکہ کی حمایت جنوب کے لیے تھی۔

ڈاکٹر گوئین کے لیے ویتنام (اور افغانستان) ہمیں ایک اہم سبق سکھاتا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ ’تمام ممالک کو اپنے مسائل خود حل کرنے کے لیے چھوڑ دینا چاہیے – باہر والوں کو صرف حمایت کرنی چاہیے۔’‘

’ذاتی طور پر میرا خیال ہے کہ اگر امریکی صدر دیم کا تختہ الٹنے کے بجائے ان کی حمایت کرتے تو صورت حال مختلف ہوتی۔ کیا ویتنام کوریا جیسا بن جاتا؟ بعد میں جب میرے پاس مزید معلومات آئیں تو مجھے سمجھ آیا کہ امریکی بالکل غلط نہیں تھے، لیکن جس طرح انھوں نے جنگ کی اس کا مطلب یہ تھا کہ ویتنام کے لوگوں کی اکثریت انھیں قبول کرنے پر تیار نہ تھی۔‘

BBCUrdu.com بشکریہ