بدھ14؍شوال المکرم 1442ھ26؍مئی 2021ء

کیا روسی صدر کی ’زہریلی مردانگی‘ یوکرین تنازعے کی وجہ بنی؟

روس یوکرین جنگ: کیا صدر پوتن کی ’زہریلی مردانگی‘ تنازعے کی وجہ بنی؟

  • ایلیزاویتا پودشیوالووا
  • بی بی سی ورلڈ

Vladimir Putin, bare-chested, riding a horse

،تصویر کا ذریعہAFP

برطانیہ کے وزیراعظم بورس جانسن کا یہ بیان کہ’ اگر صدر پوتن خاتون ہوتے تو یوکرین کے ساتھ جنگ شروع نہ کرتے‘، نے روس میں غم و غصے کا طوفان برپا کر دیا تھا۔ روسی صدر جو ایک لمبے عرصے سے ’حقیقی مرد‘ کی شبیہہ پیش کرتے آ رہے تھے، اس بیان کے پیشِ نظر یہ کوئی حیرت کی بات نہیں تھی۔

کئی تجزیہ کاروں نے بی بی سی نیوز کی روسی سروس کو بتایا کہ روسی اسٹیبلیشمنٹ میں پدر شاہی اور مردانگی کے مظاہرے کا غلبہ ہے اور یوکرین پر حملے کی حمایت میں یہ دونوں چیزیں عوامی سطح پر اہم کردار ادا کرتی ہیں۔

بورس جانسن نے جون میں کہا تھا کہ ’اگر پوتن ایک عورت ہوتے، جو ظاہر ہے کہ وہ نہیں ہیں لیکن اگر وہ ہوتے، تو میرا نہیں خیال کہ وہ اس طرح تشدد کی راہ اپناتے ہوئے، مردانگی کے اظہار کے لیے جنگ کا آغاز کرتے جس طرح انھوں نے کیا۔

’پوتن جو کچھ یوکرین میں کر رہے ہیں یہ زہریلی مردانگی کی بہترین مثال ہے۔‘

برطانیہ کے وزیر دفاع بین والیس نے بھی جانسن کے الفاظ دہرائے، انھوں نے کہا کہ پوتن کو ’سمال مین سنڈروم‘ (کمتر آدمی کا احساس) ہے اور دنیا کے بارے میں ان کا ’ماچو‘ نظریہ ہی جنگ کا سبب بنا۔

اس کے بعد روسی وزارت خارجہ نے ماسکو میں برطانیہ کے سفیر کو طلب کیا اور ’برطانوی رہنماؤں کے بے تکلفانہ بیانات‘ پر سرزنش کی۔ کریملن کے ترجمان دمتری پیسکوف نے انھیں مشورہ دیا کہ جانسن کو نفسیاتی تجزیے کے بانی آسٹرین نیورولوجسٹ سگمنڈ فرائیڈ سے ملاقات کرنی چاہیے۔ یاد رہے سنہ 1856 میں پیدا ہونے والے سگمنڈ فرائیڈ 1939 میں وفات پا چکے ہیں۔

لیکن کیا بورس جانسن نے روسی حکام کو اس قدر سخت جواب دینے پر مجبور کیا تھا؟

ایک حقیقی مرد‘ اور اس کے ناپاک دشمن

Vladimir Putin is photographed next to a tranquilised tiger

،تصویر کا ذریعہAFP

مواد پر جائیں

پوڈکاسٹ
ڈرامہ کوئین
ڈرامہ کوئین

’ڈرامہ کوئین‘ پوڈکاسٹ میں سنیے وہ باتیں جنہیں کسی کے ساتھ بانٹنے نہیں دیا جاتا

قسطیں

مواد پر جائیں

ولادیمیر پوتن نے اپنے دور صدارت کے دوران دنیا کے سامنے اپنی جسمانی طاقت اور بہادری کے کئی مظاہرے کیے ہیں۔

وہ سائبیریا کی برف یختہ جھیل بیکل کی گہرائیوں میں اترے، کرینوں میں پیراگلائیڈنگ کی، کریمیا کے ساحل سے قدیم یونانی ’امفورس‘ کے لیے غوطہ خوری کی، روس کے مشرق بعید میں خطرے سے دوچار امر ٹائیگر کے ساتھ دیکھے گئے ہیں اور سب سے زیادہ یادگار تو وہ تصویر ہے جس میں وہ ایک ویرانے میں بنا شرٹ کے گھوڑے پر بیٹھے نظر آئے تھے۔

پوتن کی ’ماچو مین‘ جیسی تصاویر مغرب میں لطیفوں کے طور پر لی گئی ہیں۔ تازہ ترین سربراہی اجلاس میں جی سیون ممالک کے رہنماؤں نے ان پر طنزیہ تبصرے کیے حتیٰ کہ جانسن نے طنزیہ انداز میں شرکا کو مشورہ دیا کہ خود کو پوتن سے بہتر مرد ثابت کرنے کے لیے وہ اپنی جیکٹیں اتار دیں۔

’روایتی اقدار کے محافظ‘ اور ایک طاقتور رہنما‘ کے طور پر پوتن کی کوششوں کا طویل عرصے سے مذاق اڑایا جاتا رہا ہے اور یہاں تک کہ ان پر تنقید بھی کی جاتی رہی ہے کہ وہ ’زہریلی مردانگی‘ کا مظاہرہ کرتے ہیں۔

عام طور پر زہریلی مردانگی کا مطلب ایسا شخص لیا جاتا ہے جو انتہائی سخت مزاج، بنا جذبات کے طاقت کا نشہ رکھنے والا ہو اور ہم جِنس پرستوں سے نفرت اور خواتین کی تضحیک کرتا ہو۔

امریکہ میں میساچوسٹس انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کی تاریخ دان اور صنفی تحقیق کی ماہر پروفیسر الزبتھ ووڈ کہتی ہیں کہ روسی صدر اکثر اپنے دشمنوں پر نسوانی حوالے سے تنقید کرتے اور اس طرح ان کی حیثیت کو کم کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ ’جنگ سے پہلے روسی حکام مغرب پر ’ہسٹریا‘ یا جنگ کا اشتعال پھیلانے کا الزام لگاتے رہے ہیں۔ یہ واضح ہے کہ ’ہیسٹریکل‘ ایک توہین آمیز لفظ ہے اور عام طور پر خواتین کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔‘

پوتن نے جی سیون سربراہی اجلاس میں خود پر بننے والے مذاق کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ اگر مغربی رہنما اپنی شرٹس اتار دیں تو یہ بہت ہی بدنما نظارہ ہو گا۔ ساتھ ہی انھوں نے ان رہنماؤں کو ورزش کا مشورہ بھی دیا۔

روسی صدر کے قریبی ساتھی بھی اپنے مخالفین کی توہین کے لیے ایسی ہی حکمت عملی استعمال کرتے ہیں۔

مارچ کے وسط میں چیچن رہنما رمضان قادروف نے ارب پتی ایلون مسک کا مذاق اڑاتے ہوئے ان کے نام کے پہلے حصے کو خواتین کے نام کی طرح بناتے ہوئے ’ایلونا‘ پکارا تھا۔

قادروف نے ایلون مسک کو چیچن بوٹ کیمپ ’اخمت‘ میں فٹنس ٹریننگ لینے کی دعوت دیتے ہوئے کہا کہ وہاں وہ ’ایک شریف لڑکی سے سفاک آدمی‘ میں تبدیل ہو جائیں گے۔ بظاہر مسک اس تجویز سے محظوظ ہوئے تھے اور کچھ عرصے کے لیے اپنا ٹوئٹر ہینڈل تبدیل کر کے ’ایلونا مسک‘ کر دیا تھا۔

Vladimir Putin wearing ice hockey kit with teammates

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

ایک بااثر اور خاص طور پر مردانہ تنظیم کی ایک مثال نائٹ ہاکی لیگ ہے، جس میں پوتن سرکاری ملازمین اور پیشہ ور کھلاڑیوں کے ساتھ کھیلتے ہیں

’نئی روسی مردانگی‘ اور ریاست کی تعمیرِنو

یہ رویہ پوتن اور قادروف تک ہی محدود نہیں۔ بہت سے ماہرین کا ماننا ہے کہ روس میں طاقت کا پورا ڈھانچہ ہی مردانگی کے تصور کے گرد بنایا گیا ہے۔

یونیورسٹی آف ویسٹرن مشیگن میں سوشیالوجی کی پروفیسر ایلینا گاپووا کہتی ہیں کہ جب پوتن ’روس میں مردانگی کی ایک نئی قسم‘ کے ذریعے خود میں تبدیلی لا رہے تھے، اس دوران روس کی شبہیہ بھی تبدیل ہوئی۔

وہ وضاحت کرتی ہیں کہ ’یہ نیا آدمی 1980 کی دہائی کی سوویت فلموں کا کوئی دانشور نہیں تھا جو ماسکو کے مضافات میں کسی ٹرین میں سفر کرتے اپنی سوچوں میں ڈوبا ہو بلکہ یہ ایک سرد، مضبوط ارادے والے شخص کی شبہیہ تھی۔۔۔ نئی نسل کا ایسا مینیجر جسے صرف نتیجے سے غرض ہو۔‘

یہ بھی پڑھیے

20ویں صدی کے اوائل میں فلسفی ولادیمیر روزانوف نے روس کی تعریف ان الفاظ میں کی ’ایک ایسی عورت جو ہمیشہ سے منگیتر کی تلاش میں‘ ہے۔

21ویں صدی کے اوائل میں ایک پاپ گانے ’سم ون لائک پوتن‘ نے تمام گانوں کو پیچھے چھوڑ دیا اور چارٹس میں سرفہرست رہا۔۔۔ اس گانے میں ایک ایسی عورت کے بارے میں بتایا گیا جو منگیتر کی تلاش میں ہے۔ البتہ اس معاملے میں وہ عورت چاہتی ہے کہ اس کا منگیتر بالکل روسی صدر جیسا ہو۔

پروفیسر ایلینا گاپووا کہتی ہیں کہ ’روس چاہتا تھا کہ وہ بالکل پوتن کی طرح دکھائی دے۔ اس زمانے میں ایک محاورہ بھی مشہور ہوا جس کا مطلب تھا کہ ’روس اپنے گھٹنوں کے بل کھڑا ہو رہا ہے‘ اور اس کی ایک مردانہ مثال سامنے آئی جس کا مظاہرہ پوتن اور ان کے قریبی حلقے نے کیا۔۔۔ اسی وقت 2010 کی دہائی میں ریاست کی تعمیر کا ایک عمل جاری تھا جس میں مرکزی طاقت پر توجہ مرکوز کی گئی۔ ایک مضبوط ریاست اور مردانگی والے اس منصوبے کے درمیان تعلق واضح نظر آتا ہے۔‘

T-shirt with Putin's face on it and the slogan 'Respect my power'

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

ٹی شرٹ پر لکھا ہے ’میری طاقت کا احترام کرو‘

’ایلفا میل‘

لیکن خالص مردانہ ماحول میں بھی پوتن کو ایلفا مرد بنے رہنے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ پروفیسر الزبتھ ووڈ کے مطابق مردانگی کا یہ دعویٰ، پوتن کا اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنے کا طریقہ بن گیا ہے۔

’ایک جانب وہ ایک قابلِ فہم، عقلمند اور اپنی صلاحیتوں کا عملی مظاہرہ کرنے والے ایسے شخص کی شبہیہ پیش کرتے ہیں جو مشکل تکنیکی سوالات بھی حل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے جبکہ دوسری طرف وہ مسلسل جارحیت کا مظاہرہ کرتے آ رہے ہیں۔‘

ووڈ نے سنہ 2009 کا ایک مشہور واقعہ یاد کرایا جب پوتن پیکالیوو قصبے کا دورہ کرنے گئے جہاں مقامی افراد ایک فیکٹری کے بند ہونے پر احتجاج کر رہے تھے۔

’پوتن ہیلی کاپٹر کے ذریعے وہاں پہنچے اور سب کو سزا دی۔ انھوں نے مزدوروں اور مینیجروں کو تو سزا دی ہی مگر خاص طور پر تاجروں کو بھی سزائیں دیں۔‘

ماہرین کا ماننا ہے کہ 13 سال پہلے والے اس واقعے کی اس سال فروری میں ہونے والے ایک واقعے سے بہت مماثلت ہے۔ فروری میں یوکرین پر روسی حملے سے کچھ دن قبل قومی سلامتی کونسل کے اجلاس کے دوران پوتن نے سرے عام فارن انٹیلیجنس کے سربراہ سرگئی ناریشکن کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ کئی دہائیوں کا تجربہ رکھنے والے انٹیلیجنس افسر ناریشکن کو روسی صدر کے قریبی ساتھیوں میں شمار کیا جاتا ہے۔

’انھوں نے جارحانہ انداز میں جواب مانگا ’ہاں یا نہیں؟‘ انھوں نے یہ ظاہر کیا کہ اب بھی ہر قسم کے حالات میں وہی سب سے اہم ہیں اور انھی کا حکم چلتا ہے۔ اس طرح سے اپنی برتری کا اظہار بھی بہت ہی مردانہ خصوصیت ہے۔‘

Vladimir Putin

،تصویر کا ذریعہGetty Images

لیکن اگر پوتن عورت ہوتے تو؟

ہم نے جتنے ماہرین سے بات کی وہ سب ایک بات پر متفق ہیں: جانسن کی یہ تجویز کہ پوتن اگر عورت ہوتے تو جنگ شروع نہ کرتے، ایک دقیانوسی خیال ہے۔

ایلینا گاپووا کہتی ہیں ’جانسن کے الفاظ کو ایک محاورے کے طور پر لیا جانا چاہیے۔۔۔۔ یہ ایک روایتی خیال ہے کہ خواتین مردوں کے مقابلے میں کم جارحانہ اور زیادہ ہمدرد ہوتی ہیں لیکن اس کی وجہ یہ ہے کہ خواتین کے ایسے بڑے عہدوں پر فائز ہونے کا امکان کم ہوتا ہے جہاں سے آپ جنگ شروع کر سکتے ہیں یا بڑے فیصلے کر سکتے ہیں۔‘

’ایسی تجاویز جن کے مطابق دنیا میں جنگوں اور انقلاب کو پدر شاہی سے منسوب کیا جاتا ہے اور یہ سوچا جاتا ہے کہ اگر زیادہ خواتین اقتدار میں ہوتیں تو تاریخ مختلف ہوتی، محض قیاس آرائیاں ہیں۔‘

ماہر نفسیات مرینا ٹریوکووا کہتی ہیں کہ یہ سچ ہے کہ جانسن خواتین کے بارے میں دقیانوسی خیالات کا حوالہ دیتے ہیں جن کے مطابق خواتین کے لیے مذاکرات کرنا یا کمزوری یا جذبات کا اظہار آسان ہے لیکن وہ انھیں پوتن کی دقیانوسی مردانگی کا مقابلہ کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ خواتین کے نزدیک ’بیک ٹریکنگ‘ یا معافی مانگنے میں کوئی حرج یا شرم نہیں ہوتی۔

’اس کے علاوہ مردانگی ’ہیروازم‘ یا بہادری سے جڑی ہوئی ہے۔۔۔ عموماً سمجھا جاتا ہے کہ مرد اپنے بچوں کے ساتھ رہنے اور باپ بننے کے بجائے ریاست کے لیے مرنے کو ترجیح دیتے ہیں جبکہ خواتین اس دوران اپنے بچوں کی ذمہ داریاں اٹھا رہی ہوتی ہیں۔ لہذا اس بات کا امکان کم ہے کہ وہ ایسے ہیروازم کی حمایت کریں گی۔ اس حوالے سے دیکھا جائے تو میرے خیال میں بورس جانسن کا تبصرہ درست ہے۔‘

BBCUrdu.com بشکریہ
You might also like

Comments are closed.