کیا روسی صدر پوتن اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ کا فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں؟

روسی صدر ولادیمیر پوتن

،تصویر کا ذریعہReuters

،تصویر کا کیپشن

روسی صدر ولادیمیر پوتن

  • مصنف, سٹیو روزنبرگ
  • عہدہ, ایڈیٹر، بی بی سی روسی سروس

جیمز بانڈ کی فلموں کی طرح روسی صدر ولادیمیر پوتن کو دور دراز پہاڑیوں میں اپنے انٹیلی جنس بیس پر ایک بہت بڑے کنٹرول پینل پر بیٹھا ہوا دیکھنا بہت دلچسپ ہو سکتا ہے۔

اور پھر وہ اپنے کنٹرول پینل پر ایک بٹن دباتے ہیں تو بلقان میں تباہی پھیل جاتی ہے۔ پھر وہ ایک دوسرا بٹن دباتے ہیں تو پورا مشرق وسطیٰ بم دھماکوں سے گونجنے لگتا ہے۔

اس قسم کا تصور بہت سنسنی خیز ہوسکتا ہے، لیکن شاید یہ حقیقت پسندانہ طور پر بالکل غلط ہے۔ اس طرح کا تصور کرنا روسی صدر کے اثر و رسوخ کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کے مترادف ہے۔

بہر حال یہ درست ہے کہ روس کے فلسطینی شدت پسند تنظیم حماس کے ساتھ تعلقات ہیں اور روس ایران کا قریبی دوست بھی ہے۔

امریکہ کے مطابق روس اور ایران کے درمیان دفاعی معاملات میں اچھی خاصی شراکت داری ہے۔ تاہم اس کا یہ مطلب نہیں کہ روس کو اسرائیل پر حماس کے حملے کا پہلے سے علم تھا یا وہ اس معاملے میں براہ راست ملوث ہے۔

روس میں اسرائیل کے سفیر الیگزینڈر بیل زوی نے رواں ہفتے کومیساں اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ وہ یہ نہیں مانتے کہ روس اس معاملے میں کسی بھی طرح ملوث ہے۔

انھوں نے اس خیال کو یکسر مسترد کر دیا کہ اسرائیل میں حماس کے جنگجوؤں کی پھیلائی تباہی سے روس کا کوئی تعلق ہے۔ اس طرح کے الزامات کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ یہ ’مکمل طور پر بے بنیاد‘ ہیں۔

غزہ پر اسرائیل کی بمباری

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

غزہ پر اسرائیل کی بمباری جاری، چھ ہزار سے زیادہ بم برسائے

حماس کے روس کے ساتھ تعلقات

برلن میں جیمز مارٹن سینٹر فار نان پرولیفریشن سٹڈیز میں روس اور مشرق وسطیٰ کے امور کی ماہر حنّا ناتے کا کہنا ہے کہ ’مجھے ابھی تک ایسے شواہد نہیں ملے ہیں جن سے یہ لگے کہ روس نے حماس کو براہ راست ہتھیار فراہم کیے یا روسی فوج نے حماس کے جنگجوؤں کو کسی قسم کی تربیت دی ہے۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ’یہ درست ہے کہ روس کے حماس کے ساتھ طویل عرصے سے تعلقات رہے ہیں۔ روس نے کبھی بھی حماس کو شدت پسند نہیں گردانا ہے۔ حماس کے نمائندوں نے پچھلے سال اور رواں سال بھی ماسکو کا دورہ کیا تھا۔

لیکن ان باتوں سے میں کبھی بھی اس نتیجے پر نہیں پہنچ سکتی کہ روس بڑے پیمانے پر حماس کی مدد کر رہا ہے۔ ہم یہ تسلیم کر سکتے ہیں کہ روسی ساختہ ہتھیار اور سازوسامان غزہ پٹی تک پہنچے ہیں، لیکن وہ غالباً مصر کے صوبے سینائی سے آئے ہیں اور ایران نے اس میں مدد کی ہے۔‘

دوسرے لفظوں میں صدر پوتن نے ’مشرق وسطیٰ میں جنگ‘ کا بٹن نہیں دبایا ہے۔ لیکن کیا وہ اس کا فائدہ اٹھانے کے لیے تیار ہیں؟

اس پر مبصرین کا کہنا ہے کہ وہ ضرور اس جنگ سے فائدہ اٹھانے کے لیے پوری طرح تیار ہیں۔ لیکن کیسے؟

اسرائیل کا زمینی جنگ کا اعلان

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

اسرائیل کا زمینی جنگ کا اعلان اور جنگی ٹینک کی تعیناتی جاری

یوکرین جنگ سے دنیا کی توجہ ہٹے گی

مواد پر جائیں

ڈرامہ کوئین

ڈرامہ کوئین

’ڈرامہ کوئین‘ پوڈکاسٹ میں سنیے وہ باتیں جنہیں کسی کے ساتھ بانٹنے نہیں دیا جاتا

قسطیں

مواد پر جائیں

مشرق وسطیٰ میں تشدد میں اضافے سے یہ ہوگا کہ اس سے متعلق تنازعات کی رپورٹوں کو بین الاقوامی خبروں کے ایجنڈے میں مزید جگہ ملے گی۔ روس کو امید ہے کہ آنے والے وقت میں اسرائیل اور غزہ سے آنے والی خبریں میڈیا کی سرخیاں بنیں گی اور لوگوں کی توجہ روس یوکرین جنگ سے ہٹ جائے گی۔

لیکن یہ خبروں کی ترتیب میں تبدیلی سے زیادہ اہم ہے۔ روسی حکام کو امید ہے کہ مشرق وسطیٰ میں کشیدگی کے باعث بعض مغربی ممالک کے ہتھیار اب یوکرین کے بجائے مشرق وسطیٰ پہنچیں گے۔

روسی سفارت کار کونسٹنٹن گیوریلوف نے روسی حکومت کے حمایت یافتہ ازوستیا اخبار کو بتایا ’مجھے یقین ہے کہ اس بحران کا براہ راست اثر یوکرین میں جاری خصوصی فوجی آپریشن پر پڑے گا۔‘

انھوں نے کہا کہ ’غزہ کی پٹی پر اسرائیل کے حملے کے بعد یوکرین کی حمایت کرنے والوں کی توجہ غزہ کی طرف مبذول ہو جائے گی۔ تاہم اس کا یہ مطلب نہیں کہ مغربی ممالک یوکرین کے شہریوں کو اپنی حفاظت آپ کے لیے چھوڑ دیں گے۔ لیکن یوکرین کو ملنے والی فوجی امداد میں یہ یقینی طور پر کمی آئے گی۔۔۔ اس سے روس-یوکرین جنگ میں پلڑا بڑے پیمانے پر روس کے حق میں جھک جائے گا۔‘

کیا ہم دانستہ طور پر روس کے حق میں سوچنا چاہتے ہیں؟ ممکن ہے ایسا ہو!

یہ بھی پڑھیے

حال ہی میں نیٹو کے وزرائے دفاع کے اجلاس میں امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن نے کہا کہ ہم اسرائیل کے ساتھ کھڑے ہوتے ہوئے بھی یوکرین کی حمایت کر سکتے ہیں۔

لیکن ماہرین کا خیال ہے کہ اگر مشرق وسطیٰ میں کشیدگی طویل عرصے تک جاری رہی تو پھر دو مختلف جگہوں پر جنگ لڑنے میں اپنے اتحادیوں کی مدد کرنا امریکہ کی صلاحیتوں کے لیے ایک امتحان ثابت ہوگا۔

غزہ پر بمباری

،تصویر کا ذریعہGetty Images

کیا روس ثالثی کر سکتا ہے؟

روس یہ کہہ کر مشرق وسطیٰ میں اپنا کردار بڑھانے کی کوشش کر رہا ہے کہ وہ یہاں ممکنہ ثالث کا کردار ادا کر سکتا ہے۔ روس پہلے بھی یہ کردار ادا کر چکا ہے اور خطے میں تنازعات کے خاتمے کے لیے بین الاقوامی کوششوں میں حصہ لے چکا ہے۔

روسی صدر ولادیمیر پوتن کے ترجمان دمتری پیسکوف کا کہنا ہے کہ ’روس تنازع کے خاتمے کی کوششوں میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے اور کرے گا۔‘ انھوں نے مزید کہا کہ ’ہم تنازعے میں ملوث دونوں فریقوں سے رابطے میں ہیں۔‘

عراق کے وزیر اعظم، رواں ہفتے ماسکو پہنچے تھے۔ انھوں نے پوتن سے اپیل کی کہ وہ ’حقیقی جنگ بندی کے لیے کسی منصوبے کا اعلان کریں۔‘

لیکن کیا روس جنگ بندی میں ثالث کا کردار ادا کر سکتا ہے؟ یہ قدرے مشکل امر ہے۔

اور ایسا اس لیے ہے کیونکہ روس وہ ملک ہے جس نے گذشتہ سال فروری میں اپنے پڑوسی کے خلاف ’خصوصی فوجی آپریشن‘ شروع کیا تھا۔ اس جنگ کو تقریباً 20 ماہ ہوچکے ہیں اور یوکرین میں بڑے پیمانے پر ہونے والی تباہی اور جانوں کے ضیاع سے پوری دنیا سکتے کے عالم میں ہے۔

اسرائیلی وزیر اعظم بنیامن نتن یاہو

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

کیا اسرائیلی وزیر اعظم بنیامن نتن یاہو روس کی ثالثی کو قبول کریں گے؟

اور پھر یہ کہنا کہ ’روس امن قائم کرنے کے لیے ثالث کا کردار ادا کر سکتا ہے‘ اپنے آپ میں عجیب ہو سکتا ہے کیونکہ روس یہ کیسے گارنٹی دے گا کہ تنازعے میں ملوث دونوں فریق اسے ثالث کے طور پر قبول کرنے کے لیے تیار ہیں۔

مشرق وسطیٰ میں روس کی دلچسپی اس وقت سے ہے جب اسرائیل امریکہ کے ساتھ اپنے تعلقات کو بتدریج مضبوط کر رہا تھا اور سوویت یونین نے عرب ممالک کا ساتھ دینا بہتر سمجھا تھا۔ یہود مخالف تحریکوں کے لیے حکومت کی حمایت برسوں سے سوویت یونین کی حکمت عملی کا حصہ رہی ہے۔

سوویت یونین کی تحلیل کے بعد روس کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات بہتر ہونے لگے ہیں۔ اس کی ایک وجہ سابقہ جمہوریہ جو سوویت یونین کا حصہ تھیں ان سے ہزاروں یہودیوں کی اسرائیل کی طرف نقل مکانی تھی۔

لیکن حالیہ برسوں میں پوتن کی قیادت میں روس ایران جیسے اسرائیل کے دشمن ممالک کے قریب آ گیا ہے۔ جس کی وجہ سے روس اور اسرائیل کے تعلقات میں تناؤ دیکھا گیا ہے۔

امریکی وزیر دفاع اینٹونی بلنکن

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

امریکی وزیر دفاع اینٹونی بلنکن

امریکہ پر تنقید

اس سارے معاملے میں روس کوئی موقع کبھی نہیں گنوائے گا کیونکہ وہ ہمیشہ ایسا کرتا آیا ہے اور اس میں امریکہ پر کڑی تنقید شامل ہے۔

اسرائیل پر حماس کے حملے کے بعد سے ولادیمیر پوتن کا یہ پیغام رہا ہے کہ ’یہ مشرق وسطیٰ میں امریکہ کی پالیسی کی ناکامی کی مثال ہے۔‘

یہ روس کے اس روایتی طرز عمل پر بالکل فٹ بیٹھتا ہے جسے پوتن ’امریکی تسلط‘ قرار دیتے ہیں۔

امریکہ کو مشرق وسطیٰ میں انتشار کا سب سے بڑا مجرم قرار دینا کریملن کا پرانا طریقہ رہا ہے اور وہ اس طرح سے واشنگٹن کی قیمت پر خطے میں روس کی پوزیشن کو مضبوط کرتا ہے۔

یہ مشرق وسطیٰ میں روس کے لیے ممکنہ فوائد ہیں۔ لیکن اس کے خطرات بھی بہت ہیں۔

حماس

،تصویر کا ذریعہReuters

،تصویر کا کیپشن

حماس کے جنگجو

حنّا ناتے کا خیال ہے کہ ’اگر یہ بحران یوکرین سے توجہ ہٹاتا ہے، جس کا بہت امکان ہے، تو امریکہ کی گھریلو سیاست میں اسرائیل کی اہمیت کو دیکھتے ہوئے، ممکن ہے کہ روس کو مختصر مدت میں فائدہ پہنچے۔

اس کے ساتھ ہی ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ’لیکن اگر خطے میں جنگ چھڑ جاتی ہے جس میں ایران حماس کو ہتھیاروں اور فنڈز سے مدد کرتا ہے تو روس کو اس سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔‘

’روس نہیں چاہتا کہ اسرائیل اور ایران کے درمیان جنگ چھڑ جائے۔ اگر حالات اسی طرح چلتے ہیں اور یہ واضح ہو جاتا ہے کہ امریکہ اسرائیل کے ساتھ کھڑا ہے، تو میرے خیال میں روس کے پاس ایران کے ساتھ جانے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہے گا۔ اور مجھے نہیں لگتا کہ وہ ایسا چاہے گا۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ ’میرے خیال میں پوتن اب بھی اسرائیل کے ساتھ اپنے تعلقات کو اہمیت دیتے ہیں۔ مجھے نہیں لگتا کہ روسی سفارت کاری اس مقام پر جانا چاہے گی جہاں انھیں فریقوں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑے۔ لیکن جیسے جیسے یہ تنازع آگے بڑھے گا، ان پر انتخاب کے لیے اتنا ہی دباؤ بڑھے گا۔‘

BBCUrdu.com بشکریہ