بدھ14؍شوال المکرم 1442ھ26؍مئی 2021ء

کیا جینیوا کنوینشنز ایکٹ کے تحت لندن پولیس انڈین فوج کے خلاف قانونی کارروائی کر سکتی ہے؟

سٹوک وائیٹ رپورٹ: لندن کی نجی لا فرم کی انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر میں مبینہ جنگی جرائم کا دعویٰ، کیا لندن پولیس انڈین فوج کے خلاف قانونی کارروائی کر سکتی ہے؟

  • ثقلین امام
  • بی بی سی اردو سروس

کشمیر برطانیہ جینیوا کنوینشنز ایکٹ

،تصویر کا ذریعہGetty Images

انڈیا کے زیرِ انتظام جموں اور کشمیر میں انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزیوں اور جنگی جرائم کے بارے میں لندن کی میٹروپولیٹن پولیس کو دی گئی درخواست پر تاحال کوئی کارروائی نظر نہیں آئی ہے اور نہ ہی انڈیا کی وزارتِ خارجہ، وزارت دفاع یا وزارتِ داخلہ نے کوئی ردعمل جاری کیا ہے۔

حال ہی میں لندن میں ایک نجی لا فرم، سٹوک وائیٹ انٹرنیشنل نے میٹروپولیٹن پولیس کو درخواست دی ہے، جس میں انڈیا کی فوج کے سربراہ سمیت دیگر فوجی اور نیم فوجی حکام کے خلاف انڈیا کے زیرِ اتتظام کشمیر میں مبینہ جنگی جرائم، ریپ، عدالت سے ماورا قتل اور تشدد کے دیگر واقعات کی وجہ سے برطانوی قانون جینیوا کنوینشنز ایکٹ 1957 کے تحت مقدمہ چلانے کا کہا ہے۔

سٹوک وائیٹ لا فرم نے اپنی شکایت میں الزام عائد کیا ہے کہ انڈین فوج کے سربراہ جنرل نروانے اور وزیر داخلہ امِت شاہ کی سربراہی میں انڈین سکیورٹی فورسز انسانی حقوق کے کارکنوں، صحافیوں اور عام شہریوں پر تشدد کر رہی ہے، اغوا کر رہی ہے اور انھیں ماورائے عدالت قتل کر رہی ہے۔

جنیوا کنونشنز ایکٹ 1957 برطانیہ کی پارلیمنٹ کا ایک قانون ہے جس میں جنیوا کنونشنز کی دفعات کو برطانوی قانون میں شامل کیا گیا ہے۔ جنیوا کنونشنز ایکٹ کے تحت دنیا کے کسی بھی حصے میں کیے گئے جنگی جُرم، ریپ اور تشدد کے دیگر واقعات میں ملوث افراد کے خلاف ماہرین کے مطابق برطانیہ میں مقدمہ چلانے کی گنجائش موجود تو ہے لیکن اس میں ’سخت چیلنجز‘ درپیش ہیں۔

برطانیہ کے بارے میں عدالتوں اور پولیس کا دائرہ اختیار علاقائی ہے، جس کا مطلب ہے کہ وہ صرف برطانیہ کی حدود میں ہونے والے جرائم کے لیے مقدمہ چلا سکتے ہیں۔ تاہم جنیوا کنونشنز ایکٹ 1957 کے تحت جنگی جرائم عالمگیری دائرہ اختیار کے تابع ہیں، جو اس اصول کو ایک انتہائی طاقتور انصاف کا طریقہ کار بناتا ہے۔

انڈیا سے دفاعی مبصرین کا مؤقف

سٹوک وائیٹ انٹرنیشنل کے انویسٹیگیشن یونٹ کی جاری کردہ انڈیا کے زیرِ انتظام جموں اور کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے بارے میں رپورٹ پر انڈیا کی وزارتِ خارجہ، وزارت دفاع اور وفاقی وزارت داخلہ نے تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا ہے۔

تاہم نئی دہلی میں قائم ‘سکیورٹی رسکس کنسلٹنسی گروپ’ کے دفاعی تجزیہ کار بریگیڈیئر راہول بھونسلے (ریٹائرڈ) نے کہا ہے کہ سٹوک وائیٹ انٹرنیشنل کی یہ رپورٹ ایک ‘سپانسرڈ’ تحقیق لگتی ہے اور سٹوک وائیٹ انٹرنیشنل لا فرم کی ساکھ پر سوالیہ نشان لگاتی ہے۔

بریگیڈیئر بھونسلے نے کہا کہ سٹوک وائیٹ انٹرنیشنل کی شہادتیں ‘مشکوک’ اور ‘غیر یقینی’ ہیں اور یہ کہ اس کی رپورٹ کا انڈین سرکاری حلقوں میں ‘الٹا’ اثر پڑے گا۔ انھوں نے کہا کہ ‘آج کل اس قسم کی معلومات کا ذریعہ قابل اعتبار ہونا ضروری ہے جس کا نوٹس لیا جائے۔’

انڈیا کے ایک فوجی تجزیہ کار میجر جنرل اے پی سنگھ (ِریٹائرڈ) جنھوں نے انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر میں انسداد شورش کی کارروائیوں میں خدمات انجام دی ہیں، وہ بھی بریگیڈیر بھونسلے کی رائے سے اتفاق کرتے ہوئے سٹوک وائیٹ انٹرنیشنل کی رپورٹ کے ‘متنازع’ پس منظر، سابقہ واقعات اور ترکی کے راستے پاکستان کے ساتھ ان کے مبینہ روابط پر سوال اٹھاتے ہیں۔

جنرل اے پی سنگھ نے دعویٰ کیا کہ اس سے ‘بو آ رہی ہے جیسے کسی پاکستانی نے اپنی رپورٹ لکھی ہو۔’

کشمیر برطانیہ جینیوا کنوینشنز ایکٹ

،تصویر کا ذریعہAFP

انڈیا کے سینئیر صحافی اور دفاعی امور کے تجزیہ کار راہول بیدی کہتے ہیں کہ 41 صفحات پر مشتمل سٹوک وائیٹ لا فرم کی اس رپورٹ کا کوئی اثر نہیں ہو گا۔

‘کشمیر اور انڈیا میں دیگر جگہوں پر تشدد کے واقعات کے بارے میں اس رپورٹ کا بہت کم لوگوں نے نوٹس لیا ہے۔ اس کی گونج یا اس پر کچھ شور سننے میں نہیں آیا ہے۔‘

راہول بیدی کہتے ہیں کہ انھوں نے انڈیا کے چند سرکردہ صحافیوں/کالم نگاروں/آن لائن نیوز ویب سائٹ سے وابستہ افراد سے بات کی تو ان کا بھی خیال تھا کہ ماضی کی طرح یہ رپورٹ بھی ‘کوئی اثر نہیں رکھے گی۔ ہفتے کے اوائل میں پریس میں اس کی ایک معمولی خبر شائع ہوئی، لیکن اس کے بعد نہ تو بحث ہوئی اور نہ ہی نیوز پیجز یا اداریوں میں اس کا تذکرہ ہوا۔’

انڈیا کی ایک نیوز ویب سائٹ کے چیف ایڈیٹر نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بات کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ سٹوک وائیٹ انٹرنیشنل کا ترک حکام سے گہرا تعلق رہا ہے اور ممکنہ طور پر یہ اپنے قریبی اتحادی پاکستان کی جانب سے کام کر رہی ہے۔

ویب سائٹ کے چیف ایڈیٹر کہتے ہیں کہ ‘اگرچہ وہ اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ برطانوی قانون جنیوا کنونشنز ایکٹ 1957 کے تحت دوسرے ممالک میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی تحقیقات کی اجازت دیتا ہے، لیکن موجودہ حالات میں ایسا ہونے کا امکان نہیں ہے۔’

نیوزویب سائٹ کے ایڈیٹر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا کہ ’یہ (رپورٹ) کشمیر میں انڈیا کی طرف سے نسل کشی اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا الزام تو لگاتی ہے، لیکن ریاست میں سرحد پار دہشت گردی پر خاموش ہے، جسے پاکستان کی سرپرستی حاصل ہے۔‘

پاکستانی تجزیہ کار

ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل غلام مصطفیٰ نے سٹوک وائیٹ لا فرم کی رپورٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ کشمیر کے مسئلے پر پاکستان جو مختلف اقدامات لیتا رہا ہے خاص کر پانچ اگست سنہ 2019 کے بعد سے، وہ سب کے سب پاکستان کی سفارتکاری کے زمرے میں آتے ہیں۔

‘پاکستان نے کشمیر میں ہمارے مسلمان بھائیوں پر جو مظالم ڈھائے جا رہے ہیں، اس کے مختلف قسم کے ڈوزیئر (دستاویزات کے مجموعے) بھی دنیا کے سامنے رکھے ہیں، اور ان کی وجہ سے اب انٹرنیشنل میڈیا بھی اس معاملے کی جانب متوجہ ہونے لگا ہے۔’

انڈیا

،تصویر کا ذریعہGetty Images

’آج کی دنیا میں سفارت کاری کا دائرہ بہت پھیل چکا ہے اور یہ جو ابھی حال ہی میں لندن میں کیس فائل کیا گیا ہے، جس میں انڈین آرمی چیف کو نامزد کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ کس طرح ایک نوجوان کی شہادت کے بعد یہ ڈوزیئر تیار کیا گیا، اُس میں انڈیا کی افواج کی تفصیل بیان کی گئی ہے اور یہ کہ کیسے عام مسلمانوں کو کشمیریوں کو ظلم و ستم کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔’

جنرل غلام مصطفیٰ نے کہا کہ ‘میں قانون دان تو نہیں ہوں اس لیے میں قانونی رائے نہیں دے سکتا، لیکن میں یہ سمجھتا ہوں کہ جب بھی یہ ‘لا فیئر’ (یعنی قانون سازی کو جنگی حربے کے طور پر استعمال کرنے) کی بات آئے گی تو کسی سٹیج پر کشمیری بھی دنیا کو بتانا چاہیں گے، ان کے پڑھے لکھے لوگوں کو اپنا مقدمہ خود لڑنا ہو گا۔’

انھوں نے کہا کہ پاکستان تو دنیا کا سامنے کشمیر کے بارے میں اپنا مؤقف بار بار پیش کر رہا ہے اور اب سفارتی کوششوں کو زیادہ فعال کرنا پڑے گا، اور پاکستان تو ہمیشہ سے کہتا آ رہا ہے کہ وہ کشمیری بھائیوں کو سفارتی اور اخلاقی مدد دے رہا ہے، اور اس سلسلے میں پاکستان کا جو مجموعی سفارتی عملہ ہے اس کا اس معاملے کو بڑھانے میں بہت فائدہ ہو گا۔

‘تو میں یہ سمجھتا ہوں کہ یہ (لندن میں انڈین افسران کے خـلاف شکایت فائل کروانا) کشمیر کے بارے میں ایک مثبت پیش رفت ہے۔ اب خود بھی پڑھے لکھے کشمیری اپنا مقدمہ لڑنے کے لیے آگے آرہے ہیں، پڑھے لکھے لوگوں کا طریقہ اپنا کر دنیا کو یہ باور کرا رہے ہیں کہ صرف ہتھیار، بندوق اور توپ سے نہیں، بلکہ دوسرے ہتھیار بھی ہیں، جنھیں استعمال کر کے دنیا کو مظالم کے بارے میں باور کرایا جاسکتا ہے۔‘

ریٹائرڈ جنرل مصطفیٰ نے کہا کہ ‘یہ ایک کوشش ہے اور مجھے تو یہ بہت مثبت کوشش لگتی ہے اور اسی طریقے سے جو انفرادی کیس ہیں جن کے بارے میں ہم بار بار سنتے رہتے ہیں، اُن سب کے ڈوسیئر پیش کیے جانے چاہیں، خاص کر دنیا کے دارالحکومت لندن میں جو عالمی سیاست کا اہم مرکز ہے، اس سفارتی کوشش سے کشمیر کے کاز کو بہت فائدہ ملے گا۔’

کشمیری ماہرِ قانون کی رائے

مرزا صائب بیگ ایک کشمیری وکیل ہیں۔ وہ آکسفورڈ یونیورسٹی کے بلاوتنک سکول آف گورنمنٹ میں کوفی عنان-مینسفیلڈ اور آکسفورڈ-وائیڈن فیلڈ-ہافمین سکالرشپ حاصل کرنے والے پہلے کشمیری ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ قانون کی روایتی تفہیم کے تحت کسی قانون کا دائرہ اختیار (جیوریسڈکشن) کسی ملک کے اقتدارِ اعلیٰ کا مظہر ہے۔

‘عالمگیری دائرہ اختیار اس روایتی تفہیم میں ایک مداخلت ہے، لیکن بہرحال یہ قانون کا ایک اصول ہے جسے دنیا کے بہت سے ممالک میں تسلیم کیا جاتا۔ یہ دائرہ کار ایک سماجی ضمیر کے اصول کے طور پر کام کرتا ہے اور اگر عملی طور پر بات کی جائے تو اس میں ادارہ جاتی حدود، خارجہ پالیسی کے مفادات اور سیاسی مرضی جیسے سخت چیلنج درپیش ہیں۔’

وہ کہتے ہیں کہ اس وقت عالمی سطح پر 150 سے زائد افراد ایسے ہیں جن کے خلاف 20 ممالک میں عالمگیری دائرہ اختیار کے تحت شکایات درج کی گئی ہیں۔ ‘اگرچہ تکنیکی طور پر کسی کے لیے بھی ایسے ملک میں شکایت درج کروانا ممکن ہے جہاں عالمگیر دائرہ اختیار موجود ہے، لیکن متعلقہ حکام کی طرف سے ایسی شکایات کی ہمیشہ تفتیش نہیں کی جاتی ہے۔’

‘عالمی برادری کے اندر ‘عالمگیری دائرہ اختیار’ کے دائرہ کار، اطلاق اور نوعیت اور علاقائی خودمختاری کے ساتھ اس کے تعلق کے بارے میں غیر مبہم اور واضح اتفاق رائے کا فقدان ہے۔ اس کے علاوہ برطانیہ کے تناظر میں جنیوا کنونشن کے تحت جنگی جرائم اور خلاف ورزیوں سے متعلق جرائم کے لیے اٹارنی جنرل یا ڈائریکٹر پبلک پراسیکیوشن کی پیشگی اجازت کے بغیر کوئی کارروائی نہیں کی جا سکتی ہے۔’

وہ کہتے ہیں کہ پولیس کے لیے کوئی بھی کارروائی شروع کرنے سے پہلے قانونی اتھارٹی کی رضامندی یا اجازت حاصل کرنے میں ناکامی عدالت کو اس یونیورسل جیوریسڈِکشن یا عالمگیری دائرہ اختیار کے حق سے محروم کردیتی ہے، اور اگر کسی ملزم کو مجرم قرار بھی دے دیا جائے تو وہ سزا کو ختم کروانے کا حق رکھتا ہے۔

اس کے علاوہ مرزا صائب بیگ سوال کرتے ہیں کہ کشمیر کے معاملے میں یہ دیکھنا باقی ہے کہ آیا عالمگیری دائرہ اختیار کو عالمی انصاف کے اصول کے طور پر استعمال کیا جائے گا یا برطانوی حکومت کے فوری معاشی مفادات کو پورا کرنے کے لیے ‘سیلیکٹو جسٹس’ کے ایک عارضی حربے کے طور پر استعمال کیا جائے گا۔

برطانوی پارلیمان کا مؤقف

برطانوی پارلیمنٹ کی سنہ 2010 کی ایک تجزیاتی رپوٹ کے مطابق، جنیوا کنونشنز ایکٹ 1957 کا اطلاق سنگین بین الاقوامی جرائم کے بارے میں بہت محدود ہے۔ ‘برطانیہ کا ایک فرض بھی ہے کہ بین الاقوامی قانون کے تحت دنیا میں کہیں بھی ہونے والے جنگی جرائم یا تشدد کے واقعات میں ملوث مشتبہ افراد پر مقدمہ چلائے یا ایسے مشتبہ افراد کو ان کے ملک کے حوالے کرنے کے لیے کارروائی کرے۔’

کشمیر برطانیہ جینیوا کنوینشنز ایکٹ
،تصویر کا کیپشن

برطانوی پارلیمان کی ایک رپورٹ میں جینیوا کنوینشنز ایک 1957 میں تبدیلیوں کی تجویز دی گئی ہے۔

پارلیمانی رپورٹ کے مطابق، ‘لیکن ایسے عمل کا آغاز صرف کسی کے درخواست دینے سے شروع نہیں ہوسکتا ہے۔

انگلینڈ اور ویلز میں اس طرح کے مقدمات چلانے کے لیے اٹارنی جنرل کی رضامندی درکار ہوتی ہے، لیکن فی الحال گرفتاری کے وارنٹ جاری ہونے سے پہلے یہ رضامندی حاصل کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔’

اس کی وجہ سے اسرائیل کی سابق وزیرِ خارجہ زِپّی لیوانی جیسے اعلیٰ سطح کے غیر ملکی سیاست دانوں کے وارنٹ گرفتاری جاری کیے گئے، لیکن ان کے خلاف جنگی جرائم پر پرائیویٹ پراسیکیوشن کے لیے برطانوی اٹارنی جنرل کی اجازت ضروری ہے۔’

رپورٹ کے مطابق ‘اس لیے برطانیہ میں یہ بحث رہی ہے کہ آیا ایسے پرائیویٹ پراسیکیوشن کے وارنٹ گرفتاری کے قانون کو تبدیل کیا جانا چاہیے۔ اگرچہ عالمگیر دائرہ اختیار کے اصول کی بڑے پیمانے پر حمایت کی جاتی ہے، لیکن اس میں بہت سے مسائل ہیں۔ اور اس کے عملی اطلاق میں کافی رکاوٹیں ہیں۔’

‘ان میں ایک اہم مسئلہ تو عالمگیری دائرہِ اختیار کا سیاسی بنیاد پر فیصلہ کرنے کا ہے، جس کے بارے میں افریقی ممالک یورپی ریاستوں کی غیر جانبداری اور معروضیت پر اعتراض کرتی ہیں۔ اور اسی وجہ سے اقوام متحدہ میں عالمگیری دائرہ اختیار کے اصول کا از سرِ نو جائزہ زیرِ غور ہے۔‘

رپورٹ: ‘انڈیا وار کرائمز اِن کشمیر’

اس رپورٹ کے مصنف ایک لندن کے فارغ التحصیل وکیل خلیل دیوان ہیں۔ ان کے بارے میں اُن کے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر درج ہے وہ ڈرون حملوں اور انسانی حقوق اور بین الاقوامی تصادم پر نظر رکھتے ہیں۔ وہ رپورٹ فائل کرنے تک 1264 اکاؤنٹس کو فالو کرتے ہیں اور ان کے 2414 فالوؤرز ہیں۔

اس رپورٹ کے مطابق، خلیل دیوان، بین الاقوامی قانونی فرم سٹوک وائٹ میں تحقیقات کے شعبے کے سربراہ ہیں۔ اِن کے پاس بین الاقوامی انسانی حقوق کے قانون میں ایل ایل بی (آنرز) اور ایل ایل ایم کی ڈگری ہے۔ لندن یونیورسٹی کے سکول فار اورینٹل اینڈ ایفریکن سٹڈیز سے انسانی حقوق کی تعلیم حاصل کی۔

کشمیر برطانیہ جینیوا کنوینشنز ایکٹ

،تصویر کا ذریعہCADOUX, J.

،تصویر کا کیپشن

دوسری عالمی جنگ کے بعد جینیوا کنوینشنز پر دستخط کو ایک بہت بڑا موقع قرار دیا گیا تھا۔

‘خلیل دیوان کے پاس پاکستان، صومالیہ، یمن، شام، مالی اور دیگر جگہوں پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے واقعات کی تحقیقات کرنے کا ایک دہائی کا تجربہ ہے۔ اس نے پبلک انٹیلیجنس کے پلیٹ فارم او ایس آئی این ٹی پر قطر-خلیجی بحران پر بریفنگ پیش کی ہے اور اس کے علاوہ ایک آن لائین تحقیقاتی ویب سائٹ بیلنگکیٹ کے لیے مقالے لکھتے ہیں۔’

سٹوک وائٹ کے بارے میں

سٹوک وائٹ انویسٹی گیشنز یا SWI-unit سٹوک وائیٹ قانونی فرم کے اندر قائم ایک آزاد تفتیشی یونٹ ہے۔

سٹوک وائٹ کی اپنی ویب سائٹ پر لکھا ہے کہ یہ ایک بین الاقوامی قانونی فرم ہے جو کسی معاملے یا موضوع ماہرین اور اُس کے علم اور انصاف کے حصول کے ذریعے اپنے موکلان کے لیے بہترین نتائج حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

فرم کا کہنا ہے کہ وکلا کے اس گروپ نے یورپی عدالتِ انصاف (ای سی جے) میں ایک ایسا مقدمہ سب سے پہلے پیش کرنے اور یورپی کمیونٹی ایسوسی ایشن کے معاہدے (ای سی اے اے) میں پالیسی تبدیلیوں کے لیے کامیابی کے ساتھ بحث کرنے کا اعزاز حاصل کیا، یہی معاہدہ ترک شہریوں کے لیے انقرہ معاہدے کے نام سے جانا جاتا ہے۔

اس کمپنی نے شام میں ہونے والے مبینہ جرائم کی تحقیقات کے لیے چیف پراسیکیوٹر کو درخواست دی تھی۔

یہ لا فرم ترکی کے ایک بحری جہاز، ‘ماوی مرمرا’ کا آئی سی سی میں مقدمہ بھی انسانی ہمدردی کی بنیاد پر لڑ رہی ہے۔

یہ بھی پڑھیے

سٹوک وائٹ نے اب تک کُل دو رپورٹیں پیش کی ہیں، جن میں ایک مالی کے شہر بوونٹی میں 3 جنوری سنہ 2021 کو ایک شادی کی تقریب پر فرانسیسی لڑاکا طیاروں کی بمباری کے واقعہ کے بارے میں ہے۔ اس واقعے میں 19 شہری ہلاک ہوئے۔

دوسری رپورٹ جو حال میں جاری ہوئی ہے، وہ اسٹوک وائٹ انویسٹی گیشنز کے اپنے وکلا نے تیار کی ہے، جس میں جموں و کشمیر میں انڈین حکام کی جانب سے کیے گئے مبینہ جنگی جرائم اور زیادتیوں کے واقعات جمع کیے گئے ہیں تا کہ عالمگیری دائرہ اختیار کے اصول کا استعمال کرتے ہوئے انڈین حکام کے خلاف کارروائی کا آغاز ہو۔

رپورٹ کا خلاصہ

سٹوک وائیٹ انویسٹی گیشنز-یونٹ (SWI-unit) کی طرف سے کشمیر میں تنازعہ کی ایک سال تک جاری رہنے والی تحقیقات کے بعد، یونٹ نے جنوری 2022 میں اپنے وکلا کو عالمگیری دائرہ اختیار کے اصول کا استعمال کرتے ہوئے جنگی جرائم اور جموں و کشمیر میں انڈین حکام کی طرف سے کی جانے والی مبینہ زیادتیوں پر قانونی کارروائی شروع کرنے کی ہدایت کی۔

رپورٹ لکھنے والے وکلا کے مطابق برطانیہ کے پاس جنیوا کنونشن ایکٹ 1957 کے تحت جنگی جرائم پر ‘عالمگیری دائرہ اختیار’ ہے – اس دائرہِ اختیار میں دیگر سنگین جرائم بھی شامل ہیں، جو انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر میں بین الاقوامی قوانین کی مبینہ خلاف ورزی کے مرتکب افراد کے خلاف مقدمہ چلانے کے قابل بناتا ہے، باوجود اس کے کہ یہ مبینہ جرائم برطانیہ سے باہر ہوئے ہیں اور جاری ہیں۔

یونیورسل جیوریسڈکشن کے تحت یہ قانونی فرم برطانیہ کی میٹرو پولیٹن پولیس سے درخواست کرتی ہے کہ وہ ضیا مصطفیٰ کے کیس کی تحقیقات کرے، جسے ان کے مطابق انڈین حکام نے 18 سال سے بغیر الزامات یا بغیر مقدمہ چلائے حراست میں رکھا ہوا ہے اور انسانی حقوق کے ایک کارکن محمد احسن انتو پر جموں و کشمیر میں انڈین حکام کی طرف سے منظم تشدد کیا گیا ہے۔

کشمیر برطانیہ جینیوا کنوینشنز ایکٹ

،تصویر کا ذریعہTwitter

برطانیہ سے درخواست کی گئی ہے کہ وہ جموں و کشمیر میں اس طرح کے جنگی جرائم اور تشدد کا ارتکاب کرنے پر انڈین حکام کے سینئیر عہدیداروں کے خلاف تحقیقات کرے اور انھیں گرفتار کرے۔

ایس ڈبلیو آئی-یونٹ کو تشویش ہے کہ انڈیا کے زیر انتظام جموں و کشمیر پر اس کی فوج، نیم فوجی دستوں، بارڈر سیکورٹی فورس، خصوصی ٹاسک فورس اور دیگر دفاعی کمیٹیوں کے ساتھ طویل عرصے سے قبضے نے منظم طریقے سے بین الاقوامی انسانی حقوق کے قانون اور بین الاقوامی انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی ہے۔

یہ رپورٹ خاص طور پر انڈیا کے زیرِ انتظام جموں و کشمیر میں مبینہ جنگی جرائم اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر توجہ مرکوز کرتی ہے، جن میں اس کے مطابق ماورائے عدالت قتل، تشدد، پیلٹ گن سے تشدد، جبری گمشدگی اور غیر قانونی حراست کے واقعات شامل ہیں۔

سٹوک وائیٹ کی رپورٹ یہ بھی سمجھتی ہے کہ مذکورہ خطے میں ایک وسیع تر قانونی جواز مہیا کیا گیا ہے جو زیادتیوں کے واقعات کو جائز قرار دیتا ہے، اور اس قانونی جواز کو جنگ کے ایک آلے کے طور پر استعمال کر کے (یعنی جنگی جرائم کی اعانت کے لیے ‘قانون سازی’ کر کے)، انھیں دہشت گردی کے خلاف استعمال کی جانی والی پالیسیوں اور ویسی ہی بیان بازی سے جوڑ کر پیش کیا جاتا ہے۔

رپورٹ کو جن عنوانات میں تقسیم کیا گیا ہے ان میں ‘انڈیا کا انسداد دہشت گردی کا عملاً مظاہرہ’، اسرائیل کے انٹیلی جنس افسران کا جموں و کشمیر میں انسداد دہشت گردی کے بہانے تشدد کرنا، ‘اسرائیل انڈیا کی ابھرتی ہوئی ڈرون جنگ کو فائدہ پہنچا رہا ہے۔’ اور ‘سپورٹس اور انسداد دہشت گردی’ شامل ہیں۔

رپورٹ کے آخری حصے میں ‘اختلافات اور ساختی تشدد: این جی اوز، وکلا اور انسانی حقوق کے کارکنوں کو ہراساں کرنا’ اور ‘صحافت بند کرنا’ جیسے موضوعات کا ذکر ہے۔

ایس ڈبلیو آئی-یونٹ نے انسانی حقوق کے وکلا اور کارکنان کے گھروں/دفتروں کے چھاپوں، عام کام کے بہاؤ میں رکاوٹیں، فیلڈ ورک کے دوران گرفتاری یا سفری دستاویزات کی بدنیتی سے ضبط کرنے کے مبینہ واقعات کو ایک دستاویزی شکل دی ہے۔

اس کے مطابق سنہ 2019 کے بعد سے وکلا، انسانی حقوق کے ماہرین اور صحافیوں پر سیکیورٹی فورسز کے چھاپوں میں اضافہ ہوا ہے، جس سے کشمیریوں میں خوف کی ایک نئی فضا پیدا ہو گئی ہے۔

BBCUrdu.com بشکریہ
You might also like

Comments are closed.