بدھ14؍شوال المکرم 1442ھ26؍مئی 2021ء

برطانیہ کا صدر پوتن پر یوکرین حکومت میں ماسکو نواز شخص منتخب کرنے کی سازش کا الزام

روس یوکرین کشیدگی: برطانیہ کا روسی صدر پر یوکرین میں ماسکو نواز شخص منتخب کرنے کی سازش کا الزام

یوکرین فوجی

،تصویر کا ذریعہGetty Images

برطانیہ نے روس کے صدر ولادیمیر پیوتن پر الزام لگایا ہے کہ وہ یوکرین حکومت کی قیادت کے لیے ماسکو نواز شخصیت کو تعینات کرنے کی سازش کر رہے ہیں۔

برطانوی دفتر خارجہ نے اس ضمن میں غیر معمولی قدم اٹھاتے ہوئے یوکرین کے سابق رکن پارلیمنٹ یوہین مورائیف کو کریملن کے ممکنہ امیدوار کے طور پر نامزد کیا ہے۔

یوکرینی سیاستدان یوہین مورائیف ملک میں میڈیا ادارے کے مالک بھی ہیں اور وہ یوکراینی پارلیمنٹ میں اپنی نشست اس وقت کھو بیٹھے تھے جب ان کی پارٹی 2019 کے انتخابات میں پانچ فیصد ووٹ حاصل کرنے میں ناکام رہی تھی۔

یاد رہے کہ روس کے یوکرین کے سرحد کے قریب اپنے ایک لاکھ فوجی تعینات کر دیے ہیں لیکن وہ یوکرین پر حملہ کرنے کے ارادے کی تردید کر رہا ہے۔

برطانوی وزرا نے روس کو خبردار کیا ہے کہ اگر اس کی حکومت نے یوکرین کے خلاف کوئی جارحانہ قدم اٹھایا تو اس کو سنگین نتائج بھگتنا ہوں گے۔ برطانوی سیکرٹری خارجہ لز ٹروز نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ ‘آج جو معلومات جاری کی جا رہی ہیں وہ یوکرین کو تباہ کرنے کے لیے ڈیزائن کی گئی روسی سرگرمیوں کے منصوبے پر روشنی ڈالتی ہیں، اور یہ کریملن کی سوچ کی عکاس ہیں۔’

ان کا مزید کہنا تھا کہ ‘روس کشیدگی کو کم کرے اور اپنی جارحیت اور غلط معلومات کی مہم جوئی کو ختم کرے اور سفارتکاری کی راہ اختیار کرے۔’ بیان میں مزید کہا گیا کہ ‘جیسا کہ برطانیہ اور ہمارے شراکت داروں نے بارہا کہا ہے کہ یوکرین میں روسی فوجی مداخلت ایک بہت بڑی سٹریٹجک غلطی ہو گی جس کی بھاری قیمت چکانا پڑے گی۔’

برطانوی دفتر خارجہ نے چار دیگر یوکرینی سیاست دانوں کا نام بھی لیا جن کے بارے میں کہا گیا کہ وہ روسی انٹیلی جنس سروسز کے ساتھ روابط برقرار رکھے ہوئے ہیں۔

دفتر خارجہ کا کہنا ہے کہ چند افراد روس کے یوکرین کے حملے کے منصوبے میں اس کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں۔

ان میں میکولا آزاروف بھی شامل ہیں، جنھوں نے 2014 میں معزول ہونے والے روس نواز صدر وکٹر یانوکووچ کے دور میں وزیر اعظم کے طور پر خدمات انجام دیں تھی۔

میکولا آزاروف اس کے بعد روس فرار ہو گئے تھے جہاں انھوں نے جلاوطنی میں کٹھ پتلی حکومت قائم کی تھی۔ بعدازاں ان پر بین الاقوامی پابندیاں بھی عائد کی گئی اور یوکرین حکومت کی جانب سے کرپشن اور خرد برد کے الزامات کے تحت انٹرپول نے ان کا ریڈ وارنٹ بھی جاری کیا تھا۔

یوکرین فوجی

،تصویر کا ذریعہGetty Images

اس کے علاوہ برطانوی دفتر خارجہ نے یوکرین کی قومی سلامتی اور دفاعی کونسل کے سابق نائب سربراہ ولادیمیر سیوکووچ کا بھی نام لیا ہے، جنھیں اس ہفتے مبینہ طور پر روسی انٹیلی جنس کے ساتھ کام کرنے پر امریکی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

ان کے علاوہ سرہی اربوزوف اور اینڈری کلوئیف ہیں، ان دونوں نے یانوکووچ کے دور میں نائب وزیر اعظم کے طور پر خدمات انجام دیں ہیں۔

اس سے قبل برطانیہ کے ہاؤس آف کامنز کی دفاعی کمیٹی کے سربراہ کا کہنا ہے کہ روس کی جانب سے ‘لڑائی کے لیے تیار’ فوجیوں کی یوکرین ی سرحد پر تعیناتی کی صورتحال میں برطانیہ یوکرین کی مزید مدد کرے۔

ٹوبیاس ایلوڈ کا کہنا تھا کہ روسی صدر ولادیمیر پوتن ‘مغرب کی کمزوری کا مکمل فائدہ اٹھا رہے ہیں۔’

انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ‘ ہم (مغربی ممالک) کچھ کمزور اور خوفزدہ نظر آ رہے ہیں اور مجھے شبہ ہے کہ اب روس حملہ کرنے کے قریب ہے۔’

انھوں نے خبردار کرتے ہوئے کہا کہ ‘ روسی صدر پوتن مشرقی یورپ کا نقشہ تبدیل کرنا چاہتے ہیں’ ان کا مزید کہنا تھا کہ اس خطرے کے پیش نظر ہمیں اب آگے آنا ہو گا۔ یوکرین اور مغربی ممالک کی خفیہ ایجنسیوں کی اطلاعات کے مطابق سنہ 2022 کے اوائل میں کسی وقت روس کی جانب سے ممکنہ حملہ ہو سکتا ہے۔

دوسری جانب روس کی جانب سے یوکرین کی سرحد پر فوجوں میں اضافے کے باعث بڑھتے تناؤ کے دوران امریکہ کی جانب سے یوکرین کے لیے 90 ٹن کی فوجی امداد بھیجی گئی ہے۔

یہ فوجی امداد امریکہ کی جانب سے یوکرین کے لیے منظور شدہ پیکج کا حصہ ہے جس میں ‘اگلی صفوں میں موجود فوجیوں’ کے لیے گولہ بارود شامل ہے۔ یہ امداد ایک ایسے موقع پر بھیجی گئی جب امریکی وزیر خارجہ اینٹونی بلنکن نے رواں ہفتے یوکرین کے دارالحکومت کائیو کا دورہ کیا ہے جہاں انھوں نے خبردار کیا کہ روس کی جانب سے حملے کی صورت میں بھرپور ردِعمل دیا جائے گا۔

عسکری امداد

،تصویر کا ذریعہUS EMBASSY KYIV

ماسکو نے یوکرین پر حملہ کرنے کے منصوبوں کی خبروں کی تردید کی ہے۔

امریکی صدر جو بائیڈن نے دسمبر کے مہینے میں 20 کروڑ ڈالر کا سکیورٹی امداد پیکج منظور کیا تھا۔ کائیو میں امریکی سفارت خانے کی جانب سے کہا گیا ہے کہ یہ امداد ‘یہ امداد یوکرین کے خود کو محفوظ رکھنے کے حق کا اظہار ہے۔’

سفارت خانے نے فیس بک پر ایک بیان میں لکھا کہ ‘امریکہ یوکرین کی مسلح افواج کو ایسی امداد فراہم کرتا رہے گا تاکہ وہ اپنی سرحدی خود مختاری اور سالمیت کا روس کی جارحیت کے خلاف دفاع کر سکے۔’

یوکرین کے وزیرِ دفاع اولیکسی ریزنیکوو نے امریکی امداد پر شکریہ ادا کیا۔

یہ امداد روسی اور امریکی وزرا خارجہ کی ‘بے تکلف’ ملاقات کے چند گھنٹوں بعد یوکرین میں پہنچی ہے۔ اس ملاقات کا مقصد یوکرین میں بڑے تنازع کو محدود کرنے کی کوشش کرنا ہے۔ سنہ 2015 میں دونوں ممالک کے درمیان ایک کمزور امن معاہدہ کیا گیا تھا۔

تاہم فوجی اتحاد نیٹو کے سربراہ نے خبردار کیا ہے کہ یورپ میں ایک نئے تنازع کا خطرہ موجود ہے کیونکہ روس نے یوکرین کی سرحد پر ایک لاکھ فوجی تعینات کر دیے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

پوتن

،تصویر کا ذریعہReuters

روسی صدر پوتن کیا چاہتے ہیں؟

ماسکو نے اس بات سے انکار کیا ہے کہ وہ حملہ کرنے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے لیکن صدر ولادیمیر پوتن نے مغرب کے لیے کچھ مطالبات رکھے ہیں جو ان کے نزدیک روس کی سالمیت کے لیے اہم ہیں۔ ان میں یوکرین کو نیٹو کا حصہ بننے سے روکنا بھی شامل ہے۔

وہ یہ بھی چاہتے ہیں کہ نیٹو اپنی فوجی مشقیں ترک کر دے اور مشرقی یورپ میں اسلحہ بھیجنا بند کر دے کیونکہ ان کے نزدیک یہ روسی سکیورٹی کے لے لیے براہ راست خطرہ بن چکا ہے۔

روسی صدر ولادیمیر پوتن کا بہت عرصے سے یہ دعویٰ ہے کہ امریکہ نے سنہ 1990 میں کیے گئے اپنے وعدہ کی خلاف ورزی کی ہے کہ نیٹو اتحاد کو مزید مشرقی یورپ تک نہیں بڑھایا جائے گا۔ انھوں نے گذشتہ ماہ ایک نیوز کانفرنس کے دوران کہا تھا کہ ‘ انھوں (امریکہ) نے ہمیں دھوکا دیا ہے۔’

اس وقت کے سوویت رہنما میخائل گورباچوف سے امریکہ نے کیا وعدہ کیا تھا اس پر تشریحات مختلف ہیں۔ لیکن یہ واضح ہے کہ صدر پوتن کا خیال ہے کہ اس بارے میں ضمانت دی گئی تھی۔ تب سے مشرقی یورپ کی وہ ریاستیں جو کبھی سویت یونین کا حصہ تھی یا اس کے زیر اثر تھیں اب نیٹو اتحاد میں شامل ہو چکی ہیں۔ ان میں سے چار ممالک پولینڈ، لیتھونیا، لیٹویا اور اسٹونیا ہیں اور ان کی سرحدیں روس سے ملتی ہیں۔

روس نے اس بات پر زور دیا ہے کہ نیٹو اتحاد میں یہ وسعت اور اس کی سرحدوں کے قریب نیٹو افواج اور عسکری ہتھیاروں کی موجودگی اس کی سالمیت کے لیے براہ راست خطرہ ہیں۔

روس نے یوکرین کی زمین پر پہلے بھی قبضہ کیا ہے، یعنی سنہ 2015 میں جزیرہ نما کرائمیا پر قبضہ کیا تھا۔ اس کے بعد سے یوکرین کی فوج اور روس کے حمایت یافتہ باغیوں کے درمیان جھڑپوں کے نتیجے میں تقریباً 14 ہزار افراد ہلاک ہو چکے ہیں اور کم از کم 20 لاکھ افراد نقل مکانی پر مجبور ہوئے۔ اب بھی یہ خطرہ ہے کہ یہ تنازع ایک بار پھر جنم لے سکتا ہے۔

BBCUrdu.com بشکریہ
You might also like

Comments are closed.