کیا انڈیا نے آزادی کے بعد ریاستی حکمرانوں کو دھوکہ دیا؟

انڈیا کے مہاراجہ

،تصویر کا ذریعہKEYSTONE-FRANCE

،تصویر کا کیپشن

انڈیا کے 562 مہاراجاؤں کا ملک کے تقریباً نصف رقبے پر قبضہ تھا اور اس کی ایک تہائی آبادی پر حکومت کی۔

  • مصنف, جان زوبرزیکی
  • عہدہ, مصنف

وہ افسانوی محلات میں رہتے تھے۔ ان کے پاس ہیروں اور قیمتی پتھروں کے ذخیرے تھے، رولز رائس گاڑیوں کے بیڑے ہوتے تھے اور وہ خصوصی ریل گاڑیوں میں سفر کرتے تھے۔ وہ اپنی رعایا پر زندگی اور موت کا اختیار رکھتے تھے اور ہزاروں منشی ان کی ہر ضرورت پوری کرنے کے لیے موجود ہوتے تھے۔

1947 میں جب انڈیا آزاد ہوا تو اس وقت 562 مہاراجاؤں کا ملک کے تقریباً نصف رقبے پر قبضہ تھا اور وہ انڈیا کی ایک تہائی آبادی پر حکومت کر رہے تھے۔ برطانیہ کے سب سے زیادہ وفادار اتحادیوں کے طور پر انھیں کوئی ہاتھ بھی نہیں لگا سکتا تھا۔

صرف ان مہاراجاؤں کی مذمت کی جاتی تھی جنھوں نے انتہائی گھناؤنا جرم کیا ہوتا تھا۔ یہ بہت کم ہوتا تھا کہ انھیں ان کے منصب سے ہٹا دیا گیا ہو۔ لیکن سلطنت برطانیہ کے اختتامی کھیل میں انھیں سب سے زیادہ نقصان ہوا تھا اور ایک صدی کے تین چوتھائی حصے کے بعد سب سے امیر ترین اور سیاسی طور پر سب سے زیادہ فعال افراد عام اور معمولی زندگی گزار رہے تھے۔

میں نے اپنی نئی کتاب کے لیے کی گئی تحقیق میں انڈیا کی آزادی اور اس کے بعد کے ہنگامہ خیز واقعات کو قریب سے دیکھا۔ میری تحقیق میں یہ بات واضح ہے کہ انڈیا کے مہاراجاؤں کو تقسیم اور فریب نے شدید نقصان پہنچایا لیکن انھیں اس طاقت نے بھی مایوس کیا جس پر وہ سب سے زیادہ بھروسہ کرتے تھے۔

ان مہاراجاؤں کو معلوم تھا کہ اگر وہ ایک خودمختار اور جمہوری انڈیا کے ساتھ رہتے ہوئے اپنی سلطنت کو محفوظ رکھنا چاہتے ہیں تو انھیں خود بھی مزید جمہوری ہونا پڑے گا۔ برطانیہ ایسی اصلاحات کے لیے بہت نرمی سے دباؤ ڈال رہا تھا جس کی وجہ سے مہاراجاؤں میں خوش فہمی پیدا ہوئی۔

مادھو راؤ سندھیا کی تصویر

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

مادھو راؤ سندھیا گوالیار کے مہاراجہ کے فرزند تھے وہ کانگریس پارٹی کے راہنماؤں میں سے تھے۔

جب لارڈ لوئس ماؤنٹ بیٹن آخری وائسرائے بنے تو مہاراجاؤں کو یہ لگا کہ ان کا مسیحا آ گیا ہے۔ انھیں یقین تھا کہ ان جیسا اشرافیہ سے تعلق رکھنے والا انسان انھیں قوم پرست بھیڑیوں کے سامنے نہیں پھینکے گا لیکن ماؤنٹ بیٹن کو برصغیر کے بارے میں زیادہ معلومات نہیں تھی اور شاہی ریاستوں کے بارے میں کیا کرنا ہے انھوں نے اس مسئلے کو آخر کے لیے چھوڑ دیا۔

انھوں نے پیغامات بھی بھیجے جن میں تضاد تھا۔ ایک طرف انھوں نے اس بات پر اصرار کیا کہ برطانیہ ان ریاستوں کے ساتھ اپنے معاہدوں کو کبھی نہیں توڑے گا یا انھیں انڈیا اور پاکستان میں سے ایک میں شامل ہونے پر مجبور نہیں کرے گا۔ دوسری طرف وہ لندن میں انڈیا دفتر کے اہلکاروں کو لاعلم رکھتے ہوئے مہاراجاؤں کو گھٹنوں پر لانے کے لیے سب کچھ کر رہے تھے۔

قوم پرستوں کو کبھی بھی یہ لوگ پسند نہیں تھے۔ خاص طور پر جواہر لال نہرو کو جو آزاد انڈیا کے پہلے وزیر اعظم بنے۔ انھوں نے ایک مرتبہ ان مہاراجاؤں کے بارے میں کہا کہ یہ ‘نااہلی اور بے لگام مطلق العنان طاقت’ کا دل ہیں اور ان میں سے بعض اوقات افراد ‘شیطانی اور ذلیل’ ہوتے ہیں۔

کانگریس پارٹی کے رہنما ولبھ بھائی پٹیل نے بحیثیت ریاستی وزیر بالآخر شہزادوں کے ساتھ معاملات کو طے کیا۔ انھیں یقین تھا کہ اگر انڈیا کو علاقائی اور سیاسی طور پر قائم رہنا ہے تو شاہی ریاستوں کو اس کا حصہ ہونا ہو گا۔ اس نصب العین سے کسی بھی قسم کا انحراف سے ‘انڈیا کے دل میں خنجر’ اترنے کا خطرہ ہے۔

اصولی طور پر مہاراجاؤں کے پاس دو راستے تھے۔ ایک یہ کہ وہ انڈیا یا پاکستان کے ساتھ الحاق کر لیں۔ دوسرا راستہ یہ تھا کہ وہ اقتدار کی منتقلی کے وقت برطانوی ولی عہد سے منسلک ہونے والے معاہدوں کے ختم ہونے کے بعد اپنی خودمختاری اور آزادی کا اعلان کر دیں۔

اڈار کے مہاراجہ بھاگیرتھ سنگھ

،تصویر کا ذریعہAFP

،تصویر کا کیپشن

اڈار کے مہاراجہ بھاگیرتھ سنگھ سن 2002 میں ونٹیج کاروں کی نمائش کے دوران اپنی 1948 بوئک گاڑی کے ساتھ کھڑے ہوئے ہیں

یہ بھی پڑھیے

مواد پر جائیں

ڈرامہ کوئین

ڈرامہ کوئین

’ڈرامہ کوئین‘ پوڈکاسٹ میں سنیے وہ باتیں جنہیں کسی کے ساتھ بانٹنے نہیں دیا جاتا

قسطیں

مواد پر جائیں

لیکن ماؤنٹ بیٹن، پٹیل، اور ان کے نائب ایک بیوروکریٹ اور ماہر حکمت عملی وی پی مینن کا سامنا کرتے ہوئے انھیں اپنے اردگرد زمین تنگ ہوتی محسوس ہوئی۔ ان سے کہا گیا کہ انڈیا کے ساتھ الحاق کریں اور آپ کو دفاع، خارجہ امور اور مواصلات کے علاوہ تمام امور پر کنٹرول حاصل ہوگا۔ آپ کی ریاستوں کے اندرونی معاملات میں کوئی دخل اندازی نہیں ہو گی۔ اور اگر انکار کریں گے تو آپ یہ خطرہ مول لے رہیں ہوں گے کہ آپ کی اپنی رعایا آپ کا تختہ الٹ دے گی اور کوئی آپ کی امداد کو بھی نہیں آئے گا۔

خطرناک انجام کی پیشگوئی اور بےبسی کے احساس کے ساتھ زیادہ تر نے الحاق کے معاہدوں پر دستخط کر دیے۔ مزاحمت کرنے والی چند ریاستیں خاص طور پر جوناگڑھ، کشمیر اور حیدر آباد کو بالآخر بندوق کی نوک پر ضم کر لیا گیا۔ حیدرآباد میں ایک نام نہاد ‘پولیس ایکشن’ میں 25 ہزار جانیں ضائع ہوئیں۔

جلد ہی مہاراجاؤں سے کیے گئے وعدے توڑ دیے گئے۔ چھوٹی ریاستوں کو پہلے سے قائم صوبوں جیسے اڑیسہ یا راجستھان جیسی نئی یونینوں کے اتحاد میں ضم ہونے پر مجبور کیا گیا۔ یہاں تک گوالیار، میسور، جودھ پور اور جے پور جیسی بڑی اور بہتر چلائی جانے والی ریاستوں کو، جن کے بارے میں پٹیل اور مینن نے وعدہ کیا تھا کہ وہ خود مختار رہیں گی، اپنے سے بڑی ریاستوں میں ملا دیا گیا جس کی وجہ سے انڈیا کا نقشہ آج جیسے نظر آتا ہے ویسا ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ جیتنے والوں کے لیے یہ انضمام ایک منافع بخش عمل تھا۔ انڈیا نے تقریباً وہی علاقہ اور آبادی حاصل کی جو اس نے پاکستان کے قیام کی وجہ سے کھو دی تھی۔ اس کے ساتھ ہی تقریباً ایک ارب روپے نقد رقم اور سرمایہ بھی حاصل کیا ۔ بدلے میں آدھے سابق حکمرانوں کو ٹیکس فری نجی تنخواہ دی گئی۔ اس میں سب سے زیادہ قیمت میسور کے مہاراجہ کو سالانہ 20,000 پاؤنڈ سے لے کر کٹودیا کے عاجز تعلقدار کے لیے تقریباً 40 پاؤنڈ تک تھی جو کلرک کے طور پر کام کرتے تھے اور ہر جگہ پیسے بچانے کے لیے سائیکل پر سفر کرتے تھے۔

وی پی مینن اور ڈگ وجے سنگھ جی رنجیت سنگھ جی جدیجہ

،تصویر کا ذریعہCOURTESY NARAYANI BASU

،تصویر کا کیپشن

شکار کے بعد وی پی مینن (دائیں) جام نگر کے شاہی حکمران ڈگ وجے سنگھ جی رنجیت سنگھ جی جدیجہ کے ساتھ

یہ نظام صرف دو دہائیوں تک چل سکا۔ شاہی خاندانوں کے مرد اور خواتین سیاست میں شامل ہو گئے۔ کچھ کانگریس جماعت کے لیے کھڑے ہوئے جس کی سربراہی اب نہرو کی بیٹی اندرا کر رہی تھیں لیکن زیادہ تر اپوزیشن جماعتوں میں ہی گئے تھے۔ اپنے والد کی طرح اندرا بھی مہاراجاؤں سے نفرت کرتی تھیں اور کانگریس کے امیدواروں کو ہٹانے میں مہاراجاؤں کی کامیابی ان کی پارلیمانی اکثریت کو ختم کر رہی تھی۔

اندرا گاندھی نے مہاراجاؤں کے تسلیم کردہ منصب کو واپس لینے کے لیے ایک فرمانبردار صدر لگانے کی کوشش کی۔ انھیں اس بات کا یقین تھا کہ اس طرح کا قدم ان کے عوامی ایجنڈے میں مدد کرے گا۔ لیکن انڈیا کی سپریم کورٹ نے ایسا نہیں ہونے دیا انھوں نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ ایسا حکم دینا صدر کا اختیار نہیں۔

1971 کے انتخابات میں دو تہائی پارلیمانی اکثریت حاصل کرنے کے بعد بےخوف اور بے چین اندرا گاندھی نے آئین میں ترمیم کرنے اور مہاراجاؤں سے ان کے القاب، مراعات اور تنخواہوں کو چھیننے کے لیے کامیابی کے ساتھ لوک سبھا میں ایک بل پیش کیا۔ ان کے مطابق وقت آ گیا تھا کہ ‘ایسا نظام جس کا ہمارے معاشرکے ساتھ کوئی مطابقت نہیں ہے’ خاتمہ ہو۔

بہت کم انڈینز شاہی نظام کے ختم ہونے پر رنجیدہ ہوئے۔ برطانیہ کے برعکس انڈیا کی جمہوریت میں بادشاہت کی کوئی جگہ نہیں ہے پھر بھی اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے استعمال کیے گئے طریقے خوشگوار نہیں تھے اور مہاراجاؤں سے روا رکھا گیا سلوک غیر منصفانہ تھا۔

BBCUrdu.com بشکریہ