کم جونگ ان کا شمالی کوریا: منشیات، اسلحے، جاسوسی اور دہشت کی داستان
- لارا بکر
- بی بی سی نیوز سیول
اپنے 30 سالہ کیریئر میں کم کک سونگ شمالی کوریا کے طاقتور خفیہ اداروں کے اعلیٰ عہدوں پر فائز رہے
رازداری سے متعلق کِم کک سونگ کی پرانی عادتیں برقرار ہیں۔
اُن کا انٹرویو کرنے کے لیے کئی ہفتوں تک بات چیت کا سلسلہ جاری رہا۔ وہ اب بھی پریشان ہیں کہ پتہ نہیں کون یہ باتیں سُن رہا ہو گا۔ کیمرے کے سامنے وہ سیاہ عینک پہن لیتے ہیں۔ ہماری ٹیم میں صرف دو افراد کو شاید ان کا اصل نام معلوم تھا۔
شمالی کوریا کے طاقتور خفیہ اداروں کی اعلیٰ قیادت تک پہنچنے میں کِم کو 30 برس لگے۔ وہ کہتے ہیں شمالی کوریا کے یہ خفیہ ادارے ’سپریم لیڈر کی آنکھیں، کان اور دماغ تھے۔‘
کم کک سونگ کا دعویٰ ہے کہ انھوں نے اُن کی معلومات کو خفیہ رکھا، ناقدین کے قتل کے لیے قاتل بھیجے اور حتی کہ ’انقلابی‘ فنڈز جمع کرنے کے لیے غیر قانونی منشیات کی لیب تعمیر کروائی۔
اب اس سابق کرنل نے اپنی کہانی بی بی سی کو بتانے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ پہلی بار ہے کہ شمالی کوریا کی اعلیٰ فوجی قیادت کے کسی افسر نے بڑے نشریاتی ادارے کو انٹرویو دیا ہے۔
اس خصوصی انٹرویو میں وہ بتاتے ہیں کہ وہ ’سرخوں میں بھی سب سے سرخ تھے‘ یعنی وہ ایک وفادار کمیونسٹ افسر تھے۔
لیکن شمالی کوریا میں آپ کا بڑا رینک یا وفاداری آپ کو تحفظ کی ضمانت نہیں دے سکتے۔ سنہ 2015 میں اپنی زندگی بچانے کے لیے انھیں وہاں سے نکلنا پڑا۔ تب سے وہ سیول میں رہائش پذیر ہیں اور جنوبی کوریا کی انٹیلیجنس کے لیے کام کر رہے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ شمالی کوریا کی قیادت پیسے بنانے کے لیے کوئی بھی حد پار کرنے کو تیار ہے، چاہے بات مشرق وسطیٰ اور افریقہ میں منشیات اور اسلحے کی فروخت ہی کی کیوں نہ ہو۔ انھوں نے شمالی کوریا میں ہونے والے فیصلوں کے پس پردہ حکمت عملی اور جنوبی کوریا پر حملوں کے بارے میں بتایا اور دعویٰ کیا کہ شمالی کوریا کے خفیہ ادارے اور سائبر نیٹ ورک پورے دنیا تک رسائی رکھتے ہیں۔
بی بی سی آزادنہ طور پر ان کے دعوؤں کی تصدیق نہیں کر سکتا۔ مگر ہم نے ان کی شناخت کی تصدیق کی ہے اور جہاں تک ممکن ہوا ان کی جانب سے عائد کردہ الزامات سے متعلق شواہد اکٹھے کیے ہیں۔
ہم نے لندن میں شمالی کوریا کے سفارتخانے سے رابطہ کیا اور نیویارک میں شمالی کوریا کے مشن سے بھی ردعمل جاننے کی کوشش کی۔ مگر اب تک کہیں سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔
’دہشت پھیلانے والی ٹاسک فورس‘
شمالی کوریا کے سابق سپریم لیڈر کم جونگ ایل اپنے بیٹے کم جونگ ان کے ساتھ
شمالی کوریا کے خفیہ اداروں کی اعلیٰ قیادت میں مسٹر کِم کے اختتامی برسوں کے احوال سے ملک کے سپریم لیڈر کم جونگ اُن کے ابتدائی کیریئر سے متعلق معلومات ملتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ کم جونگ اُن ایک ایسے پُرجوش نوجوان تھے جو خود کو بطور ’جنگجو‘ ثابت کرنا چاہتے تھے۔
سنہ 2009 میں شمالی کوریا نے ایک نیا خفیہ ادارہ ’ریکانیسنس جنرل بیورو‘ یا آر جی بی تشکیل دیا تھا۔ یہ وہ وقت تھا جب کم جونگ اُن کو اپنے والد کا جانشین بنانے کے لیے تیار کیا جا رہا تھا۔ ان کے والد فالج سے متاثر ہوئے تھے۔ اس بیورو کے سربراہ کم یونگ کول تھے جنھیں آج بھی شمالی کوریا کے سپریم لیڈر کے سب سے وفادار معاون کے طور دیکھا جاتا ہے۔
مسٹر کِم کہتے ہیں کہ مئی 2009 میں اعلیٰ قیادت سے حکم آیا کہ ’دہشت پھیلانے والی ٹاسک فورس‘ تشکیل دی جائے جس کے ذریعے جنوبی کوریا جانے والے شمالی کوریا کے ایک سابق اہلکار کا قتل کیا جانا تھا۔
مسٹر کم کے مطابق ’کم جونگ اُن کے لیے یہ اقدام سپریم لیڈر (ان کے والد) کو مطمئن کرنے کے لیے کیا گیا۔‘
’وانگ جانگ یوپ کے خفیہ قتل کے لیے دہشت کی فورس بنائی گئی۔ میں نے ذاتی طور پر اس کا حکم دیا اور اسے پایہ تکمیل تک پہنچایا۔‘
وانگ جانگ یوپ ایک وقت میں ملک کے سب سے طاقتور اہلکاروں میں سے ایک تھے۔ انھیں شمالی کوریا کی پالیسی کا اہم تخلیق کار سمجھا جاتا ہے۔ سنہ 1997 میں ان کے شمالی کوریا جانے کو کبھی معاف نہیں کیا گیا تھا۔ سیول میں شمالی کوریا کے سخت ناقد بن چکے تھے اور کم خاندان کو انتقام کی تلاش تھی۔
یہ بھی پڑھیے
لیکن یہ قتل کی کوشش ناکام رہی۔ سیول میں شمالی کوریا کی فوج کے دو میجر آج بھی اس جرم میں 10 سال قید کی سزا کاٹ رہے ہیں۔ شمالی کوریا نے ہمیشہ اس واقعے میں ملوث ہونے کی تردید کی ہے اور دعویٰ کیا ہے کہ جنوبی کوریا نے ایک ڈرامہ رچایا تھا۔
مگر اب مسٹر کِم کا بیان اس کی نفی کرتا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’شمالی کوریا میں دہشتگردی ایک سیاسی حربہ ہے جس سے کم جونگ ایل اور کم جونگ اُن کے اعلیٰ وقار کی حفاظت کی جاتی ہے۔ یہ ایک جانشین کا اپنے عظیم رہنما سے وفاداری کے اظہار کا تحفہ تھا۔‘
لیکن اس کے بعد بھی یہ سلسلہ جاری رہا۔ ایک سال بعد 2010 میں جنوبی کوریا کی بحریہ کا ایک جہاز شیونن ٹارپیڈو سے ٹکر کے بعد ڈوب گیا تھا اور 46 لوگ ہلاک ہو گئے تھے۔ شمالی کوریا نے اس میں ملوث ہونے کی تردید کی تھی۔
پھر اسی سال نومبر میں شمالی کوریا کی فوج کی توپوں سے نکلے درجنوں شیل جنوبی کوریا کے ساحل یونگ پیونگ پر گرائے گئے تھے جس میں دو فوجی اور دو شہری ہلاک ہوئے تھے۔
اس کے ایک برس بعد سنہ 2010 میں ایک چیونان نامی جنوبی کوریا کا بحری جہاز ٹارپیڈو میزائل لگنے کے بعد ڈوب گیا ہے۔ اس حادثے میں 46 جانیں ضائع ہوئی تھی۔ شمالی کوریا نے ہمیشہ اس میں ملوث ہونے کی تردید کی ہے۔
پھر اسی برس نومبر میں شمالی کوریا کے درجنوں گولے جنوبی کوریا کے جزیرہ یونگ پیناگ پر داغے گئے جس کے نتیجہ میں دو فوجوں اور دو شہری ہلاک ہوئے تھے۔
اس بارے میں بہت بحث ہوئی کہ اس حملے کا حکم کس نے دیا تھا، مسٹر کم کا کہنا ہے کہ وہ ’براہ راست جنوبی کوریا کے بحری جہاز چیونان یا جزیرہ یونپیانگ پر حملہ کرنے میں شامل نہیں تھے۔‘ لیکن یہ آر جی بی کے افسران سے چھپا ہوا نہیں ہے اور وہ اس پر فخر کرتے اور شیخی بگھارتے ہیں۔’
ان کا کہنا ہے کہ یہ آپریشنز اوپر سے حکم آئے بغیر نہیں ہو سکتے۔
وہ کہتے ہیں کہ ‘شمالی کوریا میں ایک سڑک بھی رہبر اعلیٰ کے براہ راست حکم کے بنا نہیں بن سکتی۔ لہذا جنوبی کوریا کے بحری جہاز کو نشانہ بنانا یا جزیرہ پر گولے داغنا ایسا فیصلہ نہیں ہے جو عملے نے خود لے لیا ہو۔’
‘اس طرح کی عسکری کارروائیاں صرف کم جونگ ان کے خاص حکم کے تحت کی جاتی ہیں اور یہ ہی ایک کامیابی ہے۔’
‘جنوبی کوریا کے صدر کے دفتر میں جاسوس’
مسٹر کم کا کہنا ہے کہ شمالی کوریا کی تمام دولت شمالی کوریا کے رہبر اعلیٰ کم جونگ ان کی ہے
کم کک سونگ کا کہنا ہے کہ شمالی کوریا میں ان کی ایک ذمہ داری جنوبی کوریا سے نمٹنے کے لیے حکمت عملی تیار کرنا تھی۔ جس کا مقصد ‘سیاسی اطاعت’ حاصل کرنا تھا۔
اس میں کان اور آنکھیں کھلی رکھنی پڑتی تھیں۔
ان کا دعویٰ ہے کہ ‘ایسے بہت سے واقعات ہیں جب انھوں نے جاسوس کو یہ احکامات جاری کیے کہ وہ جنوبی کوریا جائیں اور ان کے ذریعے بہت سے خفیہ مشن کروائے گئے۔’
انھوں نے اس بارے میں زیادہ وضاحت نہیں دی لیکن انھوں نے ہمیں ایک دلچسپ مثال ضرور بتائی ہے۔
وہ بتاتے ہیں کہ ‘ایک واقعے میں انھوں نے ایک شمالی کوریائی جاسوس کو جنوبی کوریا کے صدر کے دفتر میں جاسوسی کے لیے بھیجا تھا جو اپنا کام مکمل کر کے بحفاظت شمالی کوریا واپس آ گیا تھا۔ یہ 1990 کی دہائی کے شروع کا واقعہ ہے۔ اس جاسوس نے پانچ چھ برس جنوبی کوریا کے صدر کے دفتر ’بلیو ہاؤس‘ میں کام کیا اور بعدازاں بحفاظت واپس شمالی کوریا آ کر لیبر پارٹی کے لائزن دفتر کے لیے کام کیا تھا۔‘
’میں آپ کو بتا سکتا ہوں کے شمالی کوریا کے خفیہ جاسوس جنوبی کوریا کے مختلف اہم اداروں اور سول سوسائٹی کے اداروں میں متحرک اور اہم خدمات انجام دے رہے ہیں۔‘
بی بی سی اس دعویٰ کی بھی آزادانہ تصدیق نہیں کر سکا۔
شمالی کوریا کے متعلق خبریں دینے والے ادارے کے بانی چاڈ و کیرول نے حالیہ مضمون میں لکھا ہے کہ ’میں نے جنوبی کوریا میں بہت سے سزا یافتہ شمالی کوریا کے جاسوسوں سے ملاقات کی ہے۔ ایک وقت میں جنوبی کوریا کی جیلیں درجنوں شمالی کوریا کے جاسوسوں سے بھری ہوتی تھیں جو دہائیوں سے مختلف قسم کی جاسوسی کی کارروائیوں کے دوران گرفتار کیے گئے تھے۔‘
اب بھی دونوں ممالک کے درمیان جاسوسی سے متعلق اِکا دُکا واقعات ہوتے رہتے ہیں اور شمالی کوریا سے براہ راست بھیجا گیا کم از کم ایک جاسوس ملوث ہے۔ مگر این کے نیوز کے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ جنوبی کوریا میں 2017 سے جاسوسی سے متعلق جرائم کے لیے بہت کم لوگوں کو گرفتار کیا گیا ہے، کیونکہ شمالی کوریا اب انٹیلیجنس اکٹھا کرنے کے لیے پرانے زمانے کے جاسوسوں کے بجائے نئی ٹیکنالوجیز کو استعمال کر رہا ہے۔
شمالی کوریا دنیا کے غریب ترین اور سب سے الگ تھلگ ممالک میں سے ایک ہو سکتا ہے، لیکن سابقہ ہائی پروفائل ڈیفیکٹرز نے خبردار کیا ہے کہ پیانگ یانگ نے 6000 قابل اور ہنر مند ہیکرز کی فوج تیار کی ہے۔
مسٹر کم کے مطابق شمالی کوریا کے سابق رہنما کم جونگ نے 1980 کی دہائی میں نئی افراد کی تربیت سازی کا حکم دیا تھا تاکہ سائبر وار فیئر کی تیاری کی جائے۔
ان کا کہنا ہے کہ ‘شمالی کوریا کی مورانبونگ یونیورسٹی ملک بھر سے سب سے ہونہار طلبہ کا انتخاب کرتی ہے اور انھیں چھ سال کی ایک خصوصی تعلیم دی جاتی ہے۔’
برطانوی حکام کا ماننا ہے کہ سنہ 2017 میں نیشنل ہیلتھ سروسز اور دنیا بھر کے دیگر اداروں پر ہونے والے سائبر حملوں کے پیچھے لازارس نامی شمالی کوریا کے سائبر ہائیکرز کے یونٹ کا ہاتھ ہے۔
سنہ 2014 میں سونی پیکچرز پر حملہ آور ہونے والا گروپ بھی یہ ہی تصور کیا جاتا ہے۔
مسٹر کم کا کہا ہے کہ یہ دفتر ریکوناسائنس جنرل بیورو کے ساتھ ملحقہ ہے جسے 414 لائزن دفتر بھی کہا جاتا ہے۔
‘آپس میں ہم اسے کم جونگ اُن کی اطلاعات کا مرکز کہتے ہیں۔’
ان کا دعویٰ ہے کہ یہ شمالی کوریا کا واحد دفتر ہے جہاں سے شمالی کوریا کے سربراہ سے براہ راست رابطہ کرنے کے لیے ٹیلیفون لائن موجود ہے۔
‘لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ ایجنٹس چین، روس اور جنوب مشرقی ممالک میں موجود ہیں لیکن وہ شمالی کوریا میں بھی خدمات انجام دیتے ہیں۔ یہ دفتر شمالی کوریا کے خفیہ جاسوسوں کے درمیان رابطے کو بھی محفوظ بناتا ہے۔
ڈالرز کے لیے منشیات کی تیاری
شمالی کوریا کے سربراہ کم جونگ اُن نے حال ہی میں اعلان کیا ہے کہ ملک کو ایک مرتبہ پھر ‘بحران’ کا سامنا ہے اور اپریل میں انھوں نے اپنے لوگوں سے کہا تھا کہ ایک اور ’مشکل مارچ‘ کے لیے تیار رہیں۔ یہ وہ فقرہ ہے جو سابقہ سربراہ کم جونگ ال کے دور اقتدار کے دوران 1990 کی دہائی میں آنے والے تباہ کن قحط کو بیان کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
اس وقت مسٹر کم محکمہ آپریشن میں تھے اور انھیں رہبر اعلیٰ کے لیے ‘انقلابی فنڈز’ اکٹھا کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔ ان کا کہنا ہے اس کا مطلب تھا کہ غیر قانونی منشیات کا کاروبار کرنا۔
ان کا کہنا ہے کہ ‘کم جونگ ال کے دور حکومت میں اس مشکل مارچ کے دوران شمالی کوریا میں منشیات کی تیاری اور کاروبار عروج پر پہبنچ گیا تھا۔’
ان کا کہنا ہے کہ ‘اس وقت آپریشنل ڈیپارٹمنٹ کے پاس رہبر اعلیٰ کے لیے انقلابی فنڈز ختم ہو چکے تھے۔’
وہ کہتے ہیں کہ ‘اس کام کا حکم ملنے کے بعد میں تین غیر ملکیوں کو بیرون ملک سے شمالی کوریا لے کر آیا گیا تھا تاکہ منشیات بنانے کے لیے کارخانہ بنایا جا سکے اور منشیات کی تیاری کی جا سکے۔’
‘یہ منشیات آئس (کرسمل میتھ) تھی تاکہ ہم اسے بیچ کر کم جونگ ال کے لیے ڈالرز اکٹھے کر سکیں۔’
اس وقت میں شمالی کوریا کی جانب سے منشیات کے کاروبار کے بارے میں مسٹر کم کا بیان قابل یقین ہے کیونکہ شمالی کوریا کی منشیات کی پیداوار کی ایک طویل تاریخ ہے۔ شمالی کوریا زیادہ تر ہیروئن اور افیون تیار کرتا ہے۔ برطانیہ میں شمالی کوریا کے ایک سابق سفارت کار، تھائی یونگ ہو، جو خود بھی مفرور ہیں، نے 2019 میں اوسلو فریڈم فورم کو بتایا کہ ملک ریاستی سرپرستی میں منشیات کی سمگلنگ میں مصروف ہے اور داخلی سطح پر منشیات کی لت کی وبا کو قابو کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
مئی 2010 کی اس تصویر میں ایک شمالی کوریائی خاتون شمالی ہیمیانگ صوبے میں کھانے کے لیے گھاس اکٹھی کر رہی ہے
میں نے مسٹر کم سے پوچھا کہ منشیات سے حاصل ہونے والا پیسہ کہاں گیا کیا اسے عوام کے لیے استعمال کیا گیا؟
ان کا کہنا تھا کہ ‘میں آپ کو یہ سمجھنے میں آسانی کر دوں کہ شمالی کوریا میں تمام پیسہ صرف شمالی کوریا کے سربراہ کی ملکیت ہے۔ اس پیسے سے انھوں نے ولاز تعمیر کیے، گاڑیاں خریدی، خوراک خریدی، کپڑے اور آسائشیں خریدیں۔’
شمالی کوریا کے 1990 کی دہائی میں آنے والے طویل قحط میں ایک اندازے کے مطابق ہزاروں افراد سے لے کر 30 لاکھ تک افراد ہلاک ہوئے تھے۔
مسٹر کم کے مطابق آمدن کا ایک اور ذریعے ایران کو غیر قانونی ہتھیاروں کی فروخت ہے جسے شمالی کوریا کا محکمہ آپریشن دیکھتا ہے۔
‘ان کا کہنا ہے کہ اس زمرے میں سپیشل مڈجیٹ آبدوزیں اور نیم آبدوزیں تھیں، شمالی کوریا اس قسم کے جدید ہتھیار بنانے میں بہت اچھا تھا۔’
کم کک سونگ کا دعویٰ ہے کہ یہ معاہدے اتنے کامیاب رہے کہ ایران میں شمالی کوریا کے ڈپٹی ڈائریکٹر ایرانیوں کو اپنے سوئمنگ پول میں بلانے پر فخر کرتے تھے۔
شمالی کوریا سے متعلق امور پر دنیا کے معروف حکام میں سے ایک پروفیسر آندرے لنکوف کے مطابق شمالی کوریا کے ایران کے ساتھ ہتھیاروں کے سودے 1980 کی دہائی سے ایک کھلا راز ہے اور اس میں بلیسٹک میزائل بھی شامل ہیں۔
سخت عالمی پابندیوں کے باوجود شمالی کوریا نے بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کی تیاری و ترقی کے منصوبے کو جاری رکھا ہوا ہے۔
ستمبر میں شمالی کوریا نے چار نئے میزائلوں کا تجربہ کیا ہے جن میں ایک نیا طویل فاصلے تک مار کرنے والا کروز میزائل، بلیسٹک میزائل کے لیے ایک ٹرین لانچنگ نظام کا تجربہ، ایک ہائپرسونک میزائل اور ایک اینٹی ایئرکرافٹ میزائل شامل ہیں۔
اس ٹیکنالوجی میں مزید جدت آ رہی ہے۔
مسٹر کم کے مطابق شمالی کوریا نے ان ممالک کو بھی ہتھیار اور ٹیکنالوجی فروخت کی ہے جو طویل عرصے سے خانہ جنگی میں ہے۔ حالیہ برسوں میں اقوام متحدہ نے شمالی کوریا پر شام، میانمار، لبیا اور سوڈان کو ہتھیار دینے کا الزام عائد کیا ہے۔
اقوام متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ پیانگ یانگ میں تیار کردہ ہتھیار دنیا کے بہت سے شورش زدہ خطوں میں پائے جا سکتے ہیں۔
‘ایک وفادار ملازم کی غداری’
کم کک سونگ نے شمالی کوریا میں ایک شاہانہ زندگی گزاری۔ ان کا دعویٰ ہے کہ انھیں کم جونگ اُن کی خالہ نے مرسڈیز بینز کار دے رکھی تھی اور انھیں شمالی کوریا کے رہنما کے لیے پیسے اکٹھے کرنے کے لیے آزادانہ طور پر بیرون ملک سفر کی اجازت تھی۔
ان کا کہنا ہے کہ وہ نایاب دھاتیں اور کوئلہ بیچ کر لاکھوں روپے اکٹھے کرتے تھے جو ملک میں سوٹ کیسوں میں بھر کر واپس لایا جاتا تھا۔
ایک غریب ملک میں جہاں لاکھوں افراد کو خوراک کی قلت کا سامنا ہے، یہ ایک ایسی زندگی ہے جس کو جینے کا تصور کچھ لوگ ہی کر سکتے ہیں۔
کم کک سونگ کہتے ہیں کہ ان کی شادی کے باعث طاقتور سیاسی رابطوں نے انھیں مختلف خفیہ ایجنسیوں کے درمیان منتقل ہونے دیا۔ لیکن انہی رابطوں نے انھیں اور ان کے خاندان کو بھی خطرے میں ڈال دیا۔
سنہ 2011 میں سیاسی تخت پر بیٹھنے کے کچھ ہی عرصے بعد کم جونگ ان نے اپنے چچا جنگ سونگ تھیک سمیت ان لوگوں کو جنھیں وہ خطرہ سمجھتے تھے کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا۔
طویل عرصے سے یہ گمان تھا کہ مسٹر جانگ شمالی کوریا کے غیر اعلانیہ لیڈر ہیں، کیونکہ کم جونگ ال کی صحت مسلسل خراب ہو رہی تھی۔
کم کک سونگ کے مطابق جانگ سونگ تھیک کا نام کم جونگ ان سے زیادہ مقبول تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ ‘اس وقت مجھے احساس ہوا کہ جانگ سانگ تھیک زیادہ دیر تک نہیں رہیں گے۔ میں نے محسوس کیا کہ انھیں دیہی علاقے میں جلا وطن کر دیا جائے گا۔’
لیکن شمالی کوریا کے ریاستی میڈیا نے دسمبر 2013 میں اعلان کیا کہ جانگ سونگ تھیک کو سزائے موت دے دی گئی ہے۔
کم کک سونگ کہتے ہیں کہ ‘میں انتہائی حیران تھا، یہ ایک مہلک دھچکا تھا۔ مجھے فوراً اپنی جان خطرے میں لگی۔ مجھے معلوم تھا کہ میں شمالی کوریا میں اب نہیں رہ سکتا۔‘
جب کم کک سونگ نے جانگ سونگ تھیک کی ہلاکت کا پڑھا تو وہ ملک سے باہر تھے۔ انھوں نے اپنی فیملی کے ساتھ جنوبی کوریا قرار ہونے کا منصوبہ بنایا۔
وہ کہتے ہیں کہ ‘اپنے ملک کو چھوڑنا جہاں میرے آبا و اجداد دفن ہیں، اور جنوبی کوریا جانا جو اس وقت میرے لیے ایک انجان ملک تھا، میرے زندگی کا سب سے زیادہ غمگین فیصلہ تھا۔‘
ان کی سیاہ عینک کے پیچھے بھی میں دیکھ سکتا ہوں کہ یہ یادیں ان کے لیے کتنی مشکل ہیں۔
ایک سوال جو میں ان سے اپنی ملاقاتوں میں بار بار پوچھتا رہا، وہ یہ تھا کہ انھوں نے منظرِ عام پر آ کر بات کرنے کا فیصلہ اب کیوں کیا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’یہ وہ واحد ڈیوٹی ہے جو میں کر سکتا ہوں۔ میں اب اپنے شمالی بھائیوں کو آمریت کے شکنجے سے آزاد کروانے کے لیے زیادہ کام کروں گا تاکہ وہ حقیق آزادی چکھ سکیں۔‘
جنوبی کوریا میں شمالی کوریا سے بھاگ کر آنے والوں کی تعداد 30000 کے لگ بھگ ہے۔ ان میں کچھ ہی بات کرنے کو تیار ہوتے ہیں۔ آپ جتنے اعلیٰ سطحی یا معروف ہیں، آپ کی فیملی کو اتنا ہی زیادہ خطرہ ہوتا ہے۔
جنوبی کوریا میں بہت سے ایسے لوگ بھی ہیں جو شمالی کوریا سے بھاگ کر آنے والوں کی کہانیوں پر شک کرتے ہیں۔ ان کی کہانیوں کی آزادانہ تصدیق کا کوئی طریقہ جو نہیں ہے۔
کم کک سونگ نے ایک انتہائی عجیب زندگی ازاری ہے۔ ان کی کہانی کو شمالی کوریا کی کہانی کے حصے کے طور پر دیکھاجانا چاہیے نہ کہ ایک تنہا اکیلے کہانی کے طور پر۔ مگر ان کی کہانی ہمیں ایک ایسی حکومت کے بارے میں بتاتی ہے جس سے بچ کر بہت کم لوگ نکل پاتے ہیں اور ہمیں یہ بتاتی ہے کہ اس حکومت کے طول کا راز کیا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’شمالی کوریا کی سیاسی سوسائٹی، ان کے فیصلے، ان کی سوچ، یہ سب سپریم لیڈر کی مکمل تابعداری پر یقین رکھتے ہیں۔ نسل در نسل چلنے سے یہ ایک وفادار دل پیدا کر دیتا ہے۔
اس انٹرویو کا وقت بھی دلچسپ ہے۔ کم جونگ ان نے اس بات کے اشارے دیے ہیں کہ وہ مستقبل قریب میں جنوبی کوریا سے بات کرنے کو راضی ہو سکتے ہیں اگر کچھ شرائط منظور ہو جائیں۔
مگر یہاں بھی کم کک سونگ ایک تنبیہ پیش کرتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ’مجھے یہاں آئے کئی سال ہو چکے ہیں مگر شمالی کوریا بالکل بدلہ نہیں ہے۔ ہم نے جو نظام بنایا تھا وہ آج بھی چل رہا ہے۔ آپ کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ شمالی کوریا 0.01 فیصد بھی بدلہ نہیں ہے۔ ‘
Comments are closed.