سنگاپور: کووڈ وبا کے دوران دنیا کی محفوظ ترین جگہ میں رہنا کیسا ہے؟
- تیسا سونگ
- بی بی سی نیوز، سنگاپور
دنیا کے متعدد ممالک اگرچہ کووڈ وبا کی حالیہ لہر کے تباہ کن اثرات کے زیر اثر ہیں وہیں ایشیا کا ایک چھوٹا سا جزیرہ اس وبائی امراض سے دور ایک بہترین جگہ بن کر ابھرا ہے۔
کووڈ کے خلاف مدافعت کے معاملے میں رواں ہفتے سنگاپور بلومبرگ کووڈ ریزیليئنس رینکنگ سرفہرست رہا اور اس نے کئی مہینوں تک سرفہرست رہنے والے ملک نیوزی لینڈ کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔
اس درجہ بندی کی تیاری میں کئی چیزوں پر نظر رکھی جاتی ہے جن میں کووڈ کیس کی تعداد سے لے کر نقل و حرکت کی آزادی تک شامل ہیں۔
بلومبرگ نے نیوزی لینڈ کے اس درجہ بندی میں پیچھے جانے اور سنگاپور کے آگے آنے کی وجہ ویکسینیشن پروگرام بتایا ہے کیونکہ سنگاپور کے موثر ویکسینیشن پروگرام کے مقابلے نیوزی لینڈ میں یہ سست روی کا شکار رہا۔
تو اس کووڈ کے غیر یقینی زمانے میں دنیا کی بہترین جگہ پر رہنا کیسا ہے؟ اور کیا واقعتاً وہاں وہ سب کچھ ہے جیسا ہونا چاہیے؟
یہ بھی پڑھیے
زندگی تقریباً معمول پر آ گئی ہے
یہ تقریباً درست ہے۔ سنگاپور میں زندگی بہت اچھی ہو سکتی ہے اگرچہ میں یہ بات کچھ پس و پیش کے ساتھ ہی کہہ سکتی ہوں۔
حالیہ مہینوں میں کووڈ کے کیسز میں چھوٹے موٹے اضافے، جن پر تیزی سے قابو پا لیا گیا، یہاں روزانہ تقریباً نئے متاثرین کی تعداد صفر ہے۔ بہر حال رواں ہفتے کئی نئے کیسز سامنے آئے اور فوری طور پر اس کے لیے پابندیاں عائد کی گئیں۔
سخت سفری قوانین اور بارڈر سکیورٹی کا مطلب یہ ہے کہ باہر سے آنے والے کیسز کو روکا جا سکے۔ اس کے لیے باہر سے آنے والوں کو فوری طور پر قرنطینہ میں رکھا جاتا ہے۔
پچھلے سال کے اوائل میں دو ماہ کے ‘سرکٹ بریکر’ یعنی سخت لاک ڈاؤن کے علاوہ ہمیں دوبارہ کبھی لاک ڈاؤن سے نہیں گزرنا پڑا ہے۔
زندگی معمول پر آ گئی ہے: میں کسی بھی وقت اپنے اہل خانہ سے مل سکتی ہوں یا کسی ریستوران میں کھانے کے لیے دوستوں کو بلاسکتی ہوں، لیکن پھر بھی ہم آٹھ افراد سے زیادہ نہیں ہو سکتے ہیں۔ بہر حال باہر ہر جگہ ماسک لازمی ہیں اگرچہ ورزش کرتے یا کھاتے ہوئے آپ اسے اتار سکتے ہیں۔‘
’ہم میں سے بہت سے لوگ سماجی فاصلے کی پیروی کرتے ہوئے اپنے دفاتر میں کام پر واپس آچکے ہیں اور ماسک کی پابندی پر عمل کرتے ہوئے اور آپ کو ٹریس کرنے والی ایپ پر چیک ان کرنے کے بعد آپ فلم دیکھ سکتے ہیں، کنسرٹ دیکھ سکتے ہیں یا خریداری کے لیے جا سکتے ہیں۔
سکول اور بچوں کی دیکھ بھال کے مراکز کھل چکے ہیں اور ہفتے کے آخری دنوں یعنی سنیچر اور اتوار کو میں اپنے بچوں کو کہیں بھی لے جا سکتی ہوں تاہم بہت سارے مقامات پر سماجی فاصلے کو یقینی بنانے کے لیے وہاں کی مکمل گنجائش کو کم کر دیا گیا ہے۔ اس لیے ہفتے کے اختتام کے لیے منصوبہ بندی کرنا کسی فوجی مشق کی تیاری جیسا ہے (جس میں، میں بے چاری سپاہی ہوں اور میرے بچے جرنیل ہیں)۔
سال کے آغاز سے ہماری آبادی کے 15 فیصد افراد کو مکمل طور پر ویکسین لگائی جا چکی ہے۔ یہ اعداد و شمار جزوی طور پر ایک چھوٹی سی آبادی کی وجہ سے ہیں کیونکہ ہماری آبادی محض 60 لاکھ ہے اور یہاں ویکسینیشن کے پروگرام کو اچھی طرح چلایا گیا ہے۔ حکومت پر لوگوں کو بھروسہ اور ویکسین کے متعلق ہچکچاہٹ میں کمی آ رہی ہے۔
لہذا ہم محفوظ اور ٹھیک ہیں۔ اور اس کی وجہ لازمی ماسک پہننا، جارحانہ انداز میں متاثرہ افراد کی کنٹیکٹ ٹریسنگ کرنا، اور سفر پر طویل پابندیاں ہیں۔ ان کے علاوہ یہ بھی ایک حقیقت یہ ہے کہ ہمارا جزیرہ آسانی سے کنٹرول کی جانے والی سرحد رکھتا ہے، ہمارے مالی ذخائر بھرے ہیں اور بے رحمی کی حد تک موثر نظام موجود ہے۔
لیکن اس کے ساتھ ہی اس خیال میں شدید ابہام ہے کہ سنگاپور ابھی رہنے کے لیے بہترین جگہ ہے۔
سنگاپور میں بہت سے افراد کو نقل و حرکت کی آزادی ہے لیکن ایسا سینکڑوں ہزاروں تارکین وطن مزدوروں کے لیے نہیں ہے جو پچھلے سال بڑے پیمانے پر وبا پھیلنے کے بعد اب بھی زیادہ تر اپنے کام کے مقامات اور ہاسٹلز تک ہی محدود ہیں۔
اگر وہ اپنی ڈورمیٹری سے باہر جانا چاہیں تو انھیں مالکان کی اجازت لینی ہو گی اور ان میں سے زیادہ تر صرف حکومت سے منظور شدہ تفریحی مراکز میں ہی جا سکتے ہیں۔
حکومت کا کہنا ہے کہ یہ سب ملک کے باقی حصوں کی حفاظت کے لیے ضروری ہے کیونکہ ان کی برادری میں ایک اور وبا پھیلنے کا ‘حقیقی اور اہم’ خطرہ موجود ہے۔ یہ سچ نہیں ہے کیونکہ بہت سے مزدور زیادہ تر سنگاپوریوں کے مقابلے میں زیادہ بھیڑ بھار والی جگہوں پر رہائش پذیر ہیں۔
بہر حال یہ اس تلخ حقیقت کی بھی نشاندہی کرتا ہے کہ مساوات کے اپنے تمام دعوؤں کے باوجود سنگا پور میں اب بھی سماجی سطح پر بڑی خلیج ہے۔
تارکین وطن کے حقوق کے لیے کام کرنے والے کارکن جولوان وھام کا کہنا ہے کہ یہ ’شرمناک اور امتیازی سلوک‘ ہے۔
’چونکہ مہاجر مزدوروں کے پاس سیاسی طاقت کی کمی ہے، لہٰذا اس بات کو معاشرتی طور پر قابل قبول سمجھا جاتا ہے حالانکہ وہ ہماری پالیسی کی ناکامیوں کا خمیازہ بھگت رہے ہیں۔ نیوزی لینڈ بھی کووڈ کے خلاف مدافعت کی فہرست کے اوپری حصے میں ہے لیکن اس نے لوگوں کے حقوق کو پامال نہیں کیا ہے۔ یہ صرف نتائج کے بارے میں نہیں ہے بلکہ ان نتائج تک کیسے پہنچے اس بات کو بھی نظر میں رکھنا ہے۔‘
وبائی مرض کے منفی اثرات غیر مراعات یافتہ طبقات اور کم آمدنی والے خاندانوں پر بھی دیکھے جا رہے ہیں۔
حکومت نے معیشت کو فروغ دینے اور ضرورت مند گھرانوں کی مدد کے لیے لاکھوں ڈالرز اکٹھا کیے اور بظاہر اس کے نتیجے میں بے روزگاری کی شرح کم رہی ہے۔
لیکن اعداد و شمار پوری کہانی نہیں بتاتے ہیں۔ کچھ ملازموں کی تنخواہوں میں کٹوتی ہوئی ہے اور بہت سارے افراد جنھوں نے اپنی ملازمت کھو دی تھی انھیں چلتی پھرتی معیشت میں فوڈ ڈیلیوری مین یا ڈرائیور کی حیثیت سے نئی نوکری ملی ہے۔
سماجی کارکن پیٹریشیا وی کا کہنا ہے کہ ’یہ عجیب صورتحال ہے کیونکہ آج آپ کتنا کمائیں گے اس کے بارے میں لاعلم ہونا تناؤ کا باعث ہو سکتا ہے۔ انھیں آسانی سے ہٹایا بھی جا سکتا ہے۔ لہذا یہاں سماجی تحفظ کی کمی ہے۔‘
وہ مزید کہتی ہیں کہ اس کے بعد یہ تناؤ ’بالواسطہ طریقوں‘ سے خاندانوں پر اثر انداز ہو سکتا ہے۔ مثال کے طور پر لاک ڈاؤن کے بعد بھی گھریلو تشدد کے واقعات میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔
ایک سنہرا پنجرا
یہاں تک کہ ہم جیسے لوگ جو آزادی سے لطف اندوز ہو رہے ہیں اور مستحکم آمدنی بھی ہے ان میں بھی کچھ کمی واقع ہوئی ہے۔
اس انتہائی نگرانی رکھنے والی ریاست میں وبائی مرض سے پہلے جو تھوڑی سی ہماری پرائیویسی تھی وہ بھی کم ہوتی جا رہی ہے۔ ہم یہ قبول کرنے کے لیے تیار ہیں کہ ہم جہاں بھی جائیں ہمیں ایک ایپ استعمال کرنا ہو گی یا ایک ٹوکن لے کر جانا پڑے گا جس سے ہمارے ٹھکانے اور جن لوگوں سے ہم رابطہ کریں ان کا پتہ رہے۔ حالانکہ حکومت کا کہنا ہے کہ یہ ڈیٹا بے نام رکھے جاتے ہیں۔
کووڈ 19 کی وجہ سے عوامی بحث کے بغیر مزید نگرانی کے عمل میں تیزی دیکھی گئی ہے۔
بہت سے لوگ حکومت کی اس دلیل سے اتفاق کرتے ہیں کہ بحران میں یہ ضروری ہے لیکن کچھ لوگوں نے اتنے اعداد و شمار کے امکانی غلط استعمال کے متعلق خبردار کیا ہے۔ جب حالیہ دنوں میں حکومت نے اعتراف کیا کہ اس نے پہلے سے رازداری کی یقین دہانیوں کے باوجود رابطے کا سراغ لگانے کے علاوہ دیگر مقاصد کے لیے پولیس کو یہ اعداد و شمار استعمال کرنے کی اجازت دی تھی تو شفافیت کی اس کمی نے کچھ لوگوں کو مشتعل کر دیا۔
بہت سارے لوگ اس بات کا بھی اظہار کر رہے ہیں کہ یہ سونے کا پنجرا ہے اور اس کا سہرا سنگاپور اور دیگر جگہوں پر عائد سنگین قواعد و ضوابط کو جاتا ہے جس نے سفری آسانیوں کو مسترد کر رکھا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم میں سے بہت سے لوگ اب بھی دوسرے ممالک میں اپنے پیاروں کو ذاتی طور پر جا کر یا بلا کر نہیں دیکھ سکتے ہیں۔
ایک پُرہجوم شہری ریاست میں رہائش پذیر سنگاپوریوں کی بیرون ملک سفر کی عادت ہے، یہاں تک کہ انھیں قریبی انڈونیشی جزیرے یا پڑوسی ملک ملائیشیا کے سرحدی شہروں میں صرف ہفتے کے آخر کی دن ہی گزارنے کے لیے کیوں نہ جانا ہو۔
اب یہ ممکن نہیں ہے، لہذا دسیوں ہزاروں افراد کروز پر کہیں نہیں جا رہے ہیں، جبکہ ہوٹلز ’چھٹیوں کے قیام‘ کے لیے بک ہیں۔ موٹرسائیکل اور کار ریس کے شوقین افراد جو ملائشیا کے راستوں اور شاہراہوں پر دوڑ لگاتے تھے اب وہ جزیرے کے آس پاس لامتناہی پگڈنڈیوں پر گھوم رہے ہیں۔
جب یہ خبر سامنے آئی کہ گذشتہ سال کی ناکام کوشش کے بعد ایک بار پھر سے سنگاپور ہانگ کانگ کے ساتھ ایک ٹریول ببل کھول رہا ہے تو لوگ خوشی سے جھوم اٹھے۔ پھر جب دونوں شہروں میں کیسز میں اضافے کی اطلاع ملی تو لوگوں میں تقدیر پرستی کا احساس دیکھا گیا۔
’زندہ بچ جانے والوں کا احساس جرم‘
بوریت کے بارے میں شکایت کرنا فضول ہے کیونکہ اب بھی دنیا کے کچھ حصوں میں وائرس کا پھیلاؤ تیزی سے جاری ہے۔
ہم میں سے مصنف سدھیر تھامس وڈاکیتھ جیسے کچھ لوگ جن کا خاندان انڈیا میں ایک تباہ کن دوسری لہر کی زد میں ہے وہ ’زندہ بچ جانے والے احساس جرم‘ کے ساتھ دور سے ان کی تکالیف دیکھ رہے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ’یہ عجیب سا احساس ہے کہ اسی کرے پر کچھ ممالک میں صورتحال واقعتاً جہنم بنی ہوئي ہے جبکہ یہاں ہم ٹریول ببل کے منتظر ہیں۔ یہ تقریباً غیراخلاقی ہے کہ ہم بہت اچھے طریقے سے جی رہے ہیں اور اپنی زندگیوں سے لطف اندوز ہو رہے ہیں اور ہم نے خود کو بند کر رکھا ہے جبکہ دوسرے بہت ممالک کے حالات بہت خستہ ہیں۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’سنگاپور ایک ایسا شہر ہے جو گلوبلائزیشن کی پشت پر سوار ہو کر امیر بن گیا ہے۔ ہماری رابطے اور معاشی ترقی کے پیش نظر مجھے لگتا ہے کہ (زیادہ سے زیادہ ممالک کی دیکھ بھال کرنا) ہماری اخلاقی ذمہ داری ہے۔‘
سنگاپور میں بہت سے لوگ کم از کم ابھی کے لیے یہ ہی کہیں گے کہ ہم محض شکر گزار ہیں کہ ہم اس محفوظ چھوٹے سے بلبلے میں خطرناک عالمی وبائی صورتحال سے دور ہیں۔
لیکن یہ بلبلہ آخر کار پھٹ جائے گا۔ سنگاپور کی حکومت بار بار اس بات پر زور دے رہی ہے کہ معاشی بقا کی خاطر اس ملک کو دوبارہ سے کھلنا پڑے گا، اور انھوں نے چین اور آسٹریلیا جیسے کچھ مقامات سے مسافروں کی آمد و رفت کے لیے پابندیوں میں نرمی لانا شروع کر دی ہے۔
سنگاپور ایک دن پوری دنیا کے ساتھ دوبارہ شامل ہو جائے گا اور اس دن ہو گی کووڈ کے خلاف ہماری مدافعت پکی اور مضبوط۔
Comments are closed.