ہفتہ10؍شوال المکرم 1442ھ 22؍ مئی 2021ء

اسرائیل اور فلسطین کو درپیش داخلی چیلنجز کے بیچ سیزفائر کتنا دیرپا ثابت ہو گا؟

اسرائیل فلسطین تنازع کے بعد کا منظرنامہ: اسرائیل اور فلسطین کے داخلی مسائل کے بیچ سیزفائر کتنا دیرپا ثابت ہو گا؟

  • جیریمی بوون
  • بی بی سی مدیر برائے مشرقِ وسطیٰ

جنازہ

،تصویر کا ذریعہReuters

،تصویر کا کیپشن

خان یونس میں ہونے والے جنازوں میں کئی ہزار افراد نے شرکت کی۔ یہ جنازے میدانوں میں پڑھے گئے جس کے بعد ہلاک ہونے والے جنگجوؤں کی لاشوں کو فلسطینی جھنڈوں میں لپیٹ کر قبرستان تک ریلی کی شکل میں لایا گیا

گذشتہ کئی روز سے فلسطینی اپنے گھروں تک محدود رہنے پر مجبور تھے کیونکہ باہر نکلنا بھی ہلاکت کا باعث بن سکتا تھا۔ اب جب جمعہ کو ہونے والے سیزفائر کے بعد وہ باہر نکلے اور انھیں اپنے علاقے میں چہل قدمی کرنے کا موقع ملا تو انھیں اندازہ ہوا کہ اسرائیلی حملوں سے کتنی تباہی ہوئی ہے۔

اکثر افراد ان عمارتوں کے ملبوں کے گرد دکھائی دیے جو اسرائیلی فضائی حملوں کے باعث گرائی گئی تھیں۔ کچھ علاقوں میں تو منہدم ہونے والی عمارتوں کے ملبے کے باعث گلیاں بلاک ہو چکی تھیں۔ بلڈوزر چلانے والے اہلکار گھنٹوں یہ رکاوٹیں ہٹانے میں مصروف رہے۔

ان کے لیے یہ مناظر شاید حیران کن نہ ہوں کیونکہ یہ سب کچھ ٹی وی چینلز پر متعدد مرتبہ دکھایا جا چکا تھا۔ میں غزہ کے ایک قصبے خان یونس میں نو جنگجوؤں کے جنازے پر گیا جنھیں اسرائیل کی جانب سے حماس کی سرنگوں کے نیٹ ورک کو نشانہ بنانے کے دوران ہلاک کیا گیا تھا۔

اسرائیلی سیاست دانوں اور کمانڈرز کا دعویٰ ہے کہ انھوں نے غزہ میں حماس اور دیگر چھوٹی عسکریت پسند تنظیموں کے دہشتگرد انفراسٹرکچر کو بھاری نقصان پہنچایا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

عمارتوں کو ہونے والا نقصان تو دیکھا جا سکتا ہے۔ لیکن مجھے خود زیرِ زمین ملٹری تنصیبات تک جانے کا اتفاق نہیں ہوا لیکن یہاں ہونے والی عام گفتگو سے یہ تاثر ملتا ہے کہ حماس کو اس بات سے دھچکہ لگا ہے کہ اسرائیل زیرِ زمین ‘محفوظ’ سرنگوں کے نیٹ ورک میں موجود ان کے ساتھیوں کو بھی ہلاک کرنے میں کامیاب ہوا ہے۔

تاہم غزہ میں ان مسلح گروہوں کی حمایت میں اس 11 روز تک جاری رہنے والے تنازع کے دوران کمی واقع نہیں ہوئی۔

خواتین

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

حماس کی جانب سے ایک سادہ سا پیغام کہ اس کے جنگجو ‘مرتے دم تک یروشلم کے لیے لڑتے رہیں گے’ فلسطینیوں میں خاصا مقبول ہوتا ہے

خان یونس میں ہونے والے جنازوں میں کئی ہزار افراد نے شرکت کی۔ یہ جنازے میدانوں میں پڑھے گئے جس کے بعد ہلاک ہونے والے جنگجوؤں کی لاشوں کو فلسطینی جھنڈوں میں لپیٹ کر قبرستان تک ریلی کی شکل میں لایا گیا اور اس دوران نعرے بازی بھی کی گئی۔

تاہم اسرائیل اور حماس دونوں ہی فتح کا دعویٰ کرتے ہیں۔

ایک طرف اسرائیلی رہنما ان عمارتوں کی فہرست دکھاتے ہیں جو ان کی جانب سے گرائی گئیں، حماس کے کمانڈرز اور جنگجوؤں کی ہلاکت کے دعوے کرتے ہیں اور اپنے آئرن ڈوم میزائل شکن نظام کی کامیابی کے گن گاتے دکھائی دیتے ہیں۔

دوسری جانب حماس کی لیے فتح کی تعریف دراصل بقا ہے۔ غزہ میں ان کے رہنما یحییٰ سنوار سیزفائر سے اگلے ہی روز اپنے خفیہ مقام سے فاتحانہ انداز میں باہر آئے۔ تاہم حماس اس دوران اپنی سیاسی مقبولیت میں اضافے سے بھی مطمئن دکھائی دیتا ہے۔

غزہ سے 60 میل دور یروشلم میں قائم الاقصیٰ مسجد میں نماز کے بعد حماس کے حق میں نعرے لگائے جاتے رہے ہیں۔ حماس فلسطینیوں تک یہ پیغام پہنچانے میں کامیاب رہا ہے کہ وہ کسی بھی قسم کی لڑائی کے لیے اور یروشلم کے حقوق کے لیے قربانیاں دینے کے لیے تیار ہے۔ اسرائیل اس بات پر زور دے رہا ہے کہ یروشلم کا تمام حصہ اس کا حقیقی اور غیر منقسم دارالحکومت ہے۔ فلسطینی اس بات سے اتفاق نہیں کرتے۔

تباہی

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

اسرائیل میں وزیرِ اعظم بنیامن نیتن یاہو اب اپنی سیاسی بقا کی جنگ دوبارہ سے لڑنے کی کوشش کریں گے جو وہ اس 11 روزہ تنازع سے قبل لڑ رہے تھے

فلسطینی صدر محمود عباس کو بین الاقوامی طور پر فلسطینیوں کا رہنما مانا جاتا ہے کیونکہ وہ فلسطین لبریشن آرگنائزیشن (پی ایل او) اور فلسطینی اتھارٹی کے سربراہ بھی ہیں جو مقبوضہ علاقوں کا انتظام سنبھالتی ہے اور یہی وہ اتھارٹی ہے جسے 1990 کے اوسلو معاہدوں کے تحت ایک آزاد ریاست کی حکومت میں تبدیل ہونا تھا۔

تاہم فلسطینی اپنے صدر کی کارکردگی سے بالکل بھی خوش نہیں ہیں۔ محمود عباس نے اس سال مئی میں ہونے والے انتخابات اس لیے منسوخ کر دیے کیونکہ اس میں انھیں یقینی شکست کا خدشہ تھا۔ فلسطینیوں کو سنہ 2006 سے اپنے صدر یا پارلیمان کو منتخب کرنے کے لیے ووٹ کا حق نہیں دیا گیا۔

اس کے برعکس حماس کی جانب سے ایک سادہ سا پیغام کہ اس کے جنگجو ‘مرتے دم تک یروشلم کے لیے لڑتے رہیں گے’ فلسطینیوں میں خاصا مقبول ہوتا ہے کیونکہ وہ اپنے صدر سے بین الاقوامی قانون میں غیرقانونی سمجھی جانے والی مقبوضہ زمین پر یہودی آبادکاریوں کو روکنا تو درکنار ان کی رفتار میں کمی بھی نہ لانے کے باعث سخت نالاں ہیں۔

اسرائیل میں وزیرِ اعظم بنیامن نیتن یاہو اب اپنی سیاسی بقا کی جنگ دوبارہ سے لڑنے کی کوشش کریں گے جو وہ اس 11 روزہ تنازع سے قبل لڑ رہے تھے۔

نیتن یاہو پر اس وقت بدعنوانی کا مقدمہ چل رہا ہے اور الزامات کی نوعیت اتنی سنگین ہے کہ وہ اپنے پیشرو ایحود المرت کی طرح جیل بھی جا سکتے ہیں۔ 10 مئی کو جب اس تنازع کا آغاز ہوا تو وزیرِ اعظم نتین یاہو اپنی نوکری کھونے کے قریب تھے۔

اسرائیل میں دو سالوں میں چار بے نتیجہ انتخابات ہوئے ہیں لیکن اس دوران نیتن یاہو ہی اقتدار میں موجود رہے ہیں۔ نیتن یاہو ایک اتحادی حکومت بنانے میں بھی ناکام رہے ہیں کیونکہ انھیں پارلیمان سے کل 61 ووٹ نہیں مل سکے جو اکثریتی حکومت بنانے کے لیے ضروری ہوتے ہیں۔

نیتن یاہو

،تصویر کا ذریعہReuters

،تصویر کا کیپشن

اسرائیل میں دو سالوں میں چار بے نتیجہ انتخابات ہوئے ہیں لیکن اس دوران نیتن یاہو ہی اقتدار میں موجود رہے ہیں

ان کے مرکزی حریف یائیر لاپید اتحاد بنانے کے لیے ووٹ اکھٹے کر رہے تھے اور وہ کچھ دنوں یا شاید گھنٹوں میں اس بات کا اعلان کرنے والے تھے کہ ان کے پاس حکومت قائم کرنے کے لیے ووٹ موجود ہیں۔

لاپید کے منصوبے اس تنازع کے باعث پورے نہیں ہو سکے۔ تاہم ان کے پاس اب بھی موقع موجود ہے لیکن شاید اب دو سالوں میں پانچواں الیکشن ہی لڑا جائے گا۔

اسرائیل کو اپنے یہودی اکثریت اور فلسطینی عرب اقلیت کے ساتھ بقائے باہمی کے خاتمے سے بھی نبرد آزما ہونا ہو گا۔ فلسطینی عربوں کی آبادی یہاں 20 فیصد کے قریب ہے۔ نیتن یاہو کے منقسم کرنے والے بیانیے اور شدت پسند یہودی قوم پرستوں کی حمایت کے باعث صورتحال بد سے بدتر ہو گئی ہے۔

اسرائیل اور حماس کے درمیان اس سے قبل ہونے والی لڑائیوں کی طرح یہ سیزفائر بھی صرف ایک توقف ہے۔ یہ تنازع حل بھی نہیں ہو سکا۔ یہ منجمد بھی نہیں ہے۔ سیزفائر تب تک قائم رہے گا جب تک اگلا تنازع اس کی مضبوطی کا امتحان نہیں لے لیتا۔ نیا تنازع اسرائیلی پولیس کی جانب سے یروشلم میں فلسطینیوں پر تشدد کی صورت میں یا غزہ سے راکٹ فائر ہونے کی باعث کھڑا ہو سکتا ہے۔

یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ اس مقدمے کی صورت میں ہو جو مقبوضہ مشرقی یروشلم میں موجود ایک چھوٹے سے ضلع شیخ جراح میں یہودی آبادکاروں کی جانب سے فلسطینیوں کے وہاں سے انخلا کے لیے کیا گیا تھا۔ یاد رہے کہ یہودی آبادکاروں کی جانب سے فلسطینی خاندانوں کو شیخ جراح سے نکالنا ہی اس تنازع میں کشیدگی کی ایک بڑی وجہ بنا تھا۔

اس مقدمے کا فیصلہ ملتوی کر دیا گیا تھا تاکہ معاملات کو ٹھنڈا کیا جا سکے۔ تاہم اس مقدمے کو خارج نہیں کیا گیا اور اس حوالے سے فیصلے ایک نہ ایک دن سامنے آئے گا۔ اسرائیل کا عدالتی ٹائم ٹیبل شاید اس سیز فائر کو برقرار رکھنے کے لیے سب سے بڑا چیلنج ثابت ہو۔

BBCUrdu.com بشکریہ
You might also like

Comments are closed.