ہفتہ10؍شوال المکرم 1442ھ 22؍ مئی 2021ء

زندگی کے آخری دن ہٹلر نے شادی رچائی، جشن منایا اور پھر خود کو گولی مار لی۔۔۔

ایڈولف ہٹلر: زندگی کے آخری دن ہٹلر نے شادی رچائی، جشن منایا اور پھر خود کو گولی مار لی۔۔۔

  • ریحان فضل
  • بی بی سی ہندی، دہلی

ہٹلر

،تصویر کا ذریعہGetty Images

25 اپریل 1945 کے بعد ہٹلر کی زندگی کا واحد مقصد اپنی موت کی تیاری کرنا تھا۔ 25 اپریل کو انھوں نے اپنے باڈی گارڈ ہینز لنج کو فون کیا اور کہا ’میں نے خود کو گولی مار لی ہے۔ تم میری لاش کو چانسلر کے باغ میں لے جاؤ اور اسے آگ لگا دو۔ میری موت کے بعد کوئی مجھے نہ دیکھے اور نہ ہی مجھے پہچان پائے۔‘

باڈی گارڈ کو انھوں نے مزید تاکید کی کہ ’اُس کے بعد تم میرے کمرے میں واپس جاؤ اور میری وردی، میرے کاغذات، ہر وہ چیز جو میں نے استعمال کی ہے اسے اکٹھا کرو اور اس سب کو آگ لگا دو۔ صرف انٹن گراف کی ’فریڈرک دی گریٹ‘ کی آئل پینٹنگ کو ہاتھ مت لگانا۔ یہ میرا ڈرائیور میری موت کے بعد برلن سے بحفاظت باہر لے جائے گا۔‘

اپنی زندگی کے آخری ایام میں ہٹلر 50 فٹ زیر زمین بنائے گئے ایک بنکر میں رہتے تھے۔ وہ چانسلر کے باغ صرف اس وقت جاتے جب انھیں اپنے پیارے کتے ’بلونڈی‘ کو ٹہلانا ہوتا۔

یہ بھی پڑھیے

ہٹلر

،تصویر کا ذریعہGetty Images

ہٹلر کے ساتھ کون تھا؟

آخری ایام میں ہٹلر صبح پانچ، چھ بجے سونے جاتے اور سہ پہر کو اٹھتے تھے۔ ہٹلر کی ذاتی معاون، ٹروڈی جنگا، آخری لمحے تک ہٹلر کے ساتھ اس بنکر میں تھیں۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے ایک بار کہا تھا کہ ’آخری دس دن ہمارے لیے ایک ڈراؤنے خواب کی طرح تھے۔ ہم ایک بنکر میں چھپے ہوئے تھے اور روسی فوج ہمارے قریب آ رہی تھی۔ ہم باآسانی اُن کی فائرنگ، بموں اور بندوقوں کی آوازیں سُن سکتے تھے۔ ہٹلر بنکر میں اس آس میں بیٹھے تھے کہ خدا اُن کی جان بچائے گا۔ لیکن ایک چیز جو انھوں نے پہلے ہی واضح کر دی تھی وہ یہ تھی کہ اگر وہ جنگ نہیں جیت پاتے ہیں تو وہ برلن کو کبھی نہیں چھوڑیں گے اور اپنے ہاتھوں سے خود کو گولی ماریں گے، لہذا ہمیں معلوم تھا کہ کیا ہونے والا ہے۔‘

’جب 22 اپریل 1945 کو ہٹلر نے ہم سب سے کہا کہ تم لوگ چاہو تو برلن چھوڑ کر جا سکتے ہو، اُن کی گرل فرینڈ ایوا براؤن نے سب سے پہلے کہا کہ ’تم جانتے ہوں میں تمھیں چھوڑ کر نہیں جانے والی، میں یہیں رہوں گی۔ اور میرے منھ سے بھی ایسے ہی الفاظ نکلے تھے۔‘

ہٹلر بدل گیا تھا

اس وقت ہٹلر کے وزیر دفاع البرٹ سپیئر بنکر کے پاس اُن سے ملنے اور الوداع کہنے آئے تھے۔ بعد میں سپیئر نے اپنی یادوں کو مجتمع کرتے ہوئے یہ بتایا کہ (آخری ایام میں) ہٹلر کی شخصیت میں بہت تبدیلی آ چکی تھی۔

’اُن کے آخری دنوں میں ہٹلر کی حالت کچھ ایسی تھی کہ اسے صرف بوسہ دیا جا سکتا تھا۔ اُن کا سارا جسم کپکپاتا اور اُن کے کندھے جھکے ہوئے تھے۔ اس کے کپڑے گندے تھے اور سب سے اہم بات اُن کا ردعمل بہت سرد تھا۔ میں انھیں الوداع کہنے آیا تھا، مجھے معلوم تھا کہ یہ ہماری آخری ملاقات تھی لیکن انھوں نے ایسا کچھ نہیں کہا جو میرے دل کو چُھو جائے۔‘

ہٹلر

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

ایوا براؤن اور ہٹلر

ہٹلر کے بارے میں کتاب ’دی لائف اینڈ ڈیتھ آف ایڈولف ہٹلر‘ کے مصنف رابرٹ پائن نے اُس وقت ہٹلر کی حالت کو بیان کیا ہے۔

وہ لکھتے ہیں ’ہٹلر کا پورا چہرہ سوج گیا تھا اور اُس پر بے شمار جھریاں نمودار ہو گئی تھیں۔ اُن کی آنکھوں میں زندگی کا چمک ماند پڑ چکی تھی۔ گویا وہ ایک بوڑھے گدھ کی مانند بیٹھے تھے۔ اُن کی شخصیت کے بارے میں سب سے یادگار بات یہ تھی کہ وہ ایک شرابی کی طرح لڑکھڑا رہے تھے۔ وہ ایک ہی ماہ میں دس برس بوڑھا ہو گیا تھا۔‘

بنکر میں قیام کے آخری دن ہٹلر نے ایوا براؤن سے شادی کرنے کا فیصلہ کیا۔

’دی لائف اینڈ ڈیتھ آف ایڈولف ہٹلر‘ کتاب میں مصنف رابرٹ پائن لکھتے ہیں ’سوال یہ تھا کہ اس شادی کا انتظام کون کرے گا۔ ہٹلر کو یاد آیا کہ گوئبلز نے والٹر ویگنر سے شادی کی تھی۔ اب مسئلہ یہ تھا کہ اسے کہاں ڈھونڈا جائے۔ ایک سپاہی بڑی مشکل سے ان کے آخری خطبے کے ساتھ انھیں ہٹلر کے بنکر پر لایا تھا، لیکن وہ ان کی شادی کا سرٹیفکیٹ اپنے ساتھ لانا بھول گئے تھے۔‘

ہٹلر کی شادی

’وہ سرٹیفکیٹ لینے کے لیے واپس اپنے گھر چلے گئے۔ روسی فوجیوں کی طرف سے شدید گولہ باری جاری تھی۔ سڑکوں پر ملبے کے ڈھیر لگے ہوئے تھے۔ شادی کی تقریب شروع ہونے ہی والی تھی۔ گوئبلز نے بطور ہٹلر کے گواہ کے دستخط کیے جبکہ بورمین ایوا براؤن کا گواہ بن گیا تھا۔ ان کی شادی کے سرٹیفکیٹ پر 29 اپریل کی تاریخ درج تھی۔ لیکن یہ تاریخ غلط تھی کیونکہ رات کے 12 بج کر 25 منٹ کا وقت تھا، لہذا اسے 30 اپریل ہونا چاہیے تھا۔‘

’شادی کی دعوت میں ہٹلر کے دو ذاتی معاونین، اور اُن کا سبزی خور باورچی، بورمن، گوئبلز، میگڈا گوئبلز، جنرل کربس، جنرل برگڈورف نے شرکت کی تھی۔ ایوا ہٹلر کی صحت کے لیے سب نے جام اٹھا کر نیک خواہشات کا اظہار کیا۔ ایوا نے اس دن بہت شراب پی تھی لیکن ہٹلر نے صرف ایک گھونٹ لیا اور پرانی یادوں کو تازہ کرنے لگا۔ اس نے گوئبلز کی شادی بھی یاد کی۔‘

لیکن پھر اچانک اُن کا مزاج بدل گیا اور انھوں سے کہا ’سب ختم ہو گیا، سب نے مجھے دھمکایا ہے۔‘

اپنی زندگی کے آخری دن ہٹلر کچھ گھنٹوں کے لیے سوتے رہے اور تازہ دم ہو کر اٹھے۔ یہ دیکھا گیا ہے کہ سزائے موت کے قیدی اپنی موت سے ایک رات قبل عام طور پر سکون کی نیند سوتے ہیں۔ شیو بنانے کے بعد ہٹلر نے اپنے فوجی جرنیلوں سے ملاقات کی اور کہا کہ انجام قریب ہے۔ سوویت فوج کسی بھی وقت ان کے بنکروں میں گھس سکتی ہے۔

ہٹلر

،تصویر کا ذریعہGetty Images

ہٹلر نے گولی چلا دی

رابرٹ پائن کا کہنا ہے کہ ’ہٹلر نے پروفیسر حسین کو بلایا اور ان سے پوچھا کہ کیا اس کے سائنائڈ (زہر) کے کیپسول قابل اعتماد ہیں۔ ہٹلر نے ان گولیوں کا تجربہ کرنے کے لیے اسے اپنے پیارے کتے کو کھلانے کا بھی کہا۔ اس تجربے کے بعد حسین نے ہٹلر کو اطلاع دی کہ تجربہ کامیاب رہا، بلونڈی کی سکینڈوں میں موت ہو گئی تھی۔‘

’خود ہٹلر نے اپنے پیارے کتے کی موت کا منظر دیکھنے کی ہمت نہیں کی۔ کتے کی موت کے بعد اُس نے بلونڈی اور اس کے چھ پلوں کو ایک ڈبے میں ڈال دیا۔ اس ڈبے کو چانسلر گارڈن لایا گیا۔ اس کے پلے اب بھی اپنی ماں کے سینے سے لگے ہوئے تھے۔‘

دوپہر کے ڈھائی بجے ہٹلر اپنا آخری کھانا کھانے بیٹھ گئے۔ اوٹو گوینچے کو 200 لیٹر پیٹرول لانے کا حکم دیا گیا تھا۔ اسے پیٹرول کے کنستروں میں بھر کر اور اسے بنکر کے بیرونی دروازے کے پاس رکھنے کا کہا گیا۔

کھانے کے بعد ہٹلر آخر میں اپنے ساتھیوں سے ملنے آئے۔ انھوں نے آنکھیں چار کیے بغیر اُن سے مصافحہ کیا۔ اس کے ساتھ اس کی اہلیہ ایوا براؤن بھی تھیں۔

ایوا نے گہرے نیلے رنگ کا لباس اور اطالوی موتیوں والے جوتے پہن رکھے تھے۔ اُن کی کلائی پر پلاٹینم کی گھڑی تھی۔ پھر وہ دونوں اپنے کمرے میں چلے گئے۔ اس وقت جب حالات بہت سنگین ہو گئے، مگڈا گوبلز نے چلا کر کہا کہ ہٹلر کو خودکشی نہیں کرنی چاہیے۔ اس نے کہا کہ اگر اسے ہٹلر سے بات کرنے کی اجازت دے دی جائے تو وہ اسے ایسا نہ کرنے پر آمادہ کر لے گا۔

ہٹلر نے کبھی کسی سے ملاقات نہیں کی

گیرہارڈ بولٹ اپنی کتاب ’ان شیلٹر ود ہٹلر‘ میں لکھتے ہیں کہ ’ہٹلر کے باڈی گارڈ گونچے کا چھ فٹ دو انچ دراز قد تھا اور وہ گوریلے کی مانند دکھتا تھا۔ مگڈا ہٹلر سے ملنے پر اتنا اصرار کر رہے تھے کہ گونچے نے دروازہ کھولنے کا فیصلہ کیا۔‘

باڈی گارڈ نے ہٹلر سے پوچھا ’کیا آپ مگڈا سے ملنا پسند کریں گے؟‘ ہٹلر نے کہا ’میں کسی سے نہیں ملنا چاہتا۔‘

’ایوا وہاں موجود نہیں تھی۔ شاید وہ باتھ روم میں تھی کیونکہ اندر سے پانی کی آواز آ رہی تھی۔ اس کے بعد انھوں نے دروازہ بند کر دیا۔‘

ہینز لنج، جو دروازے کے باہر کھڑا تھا، نہیں جانتا تھا کہ ہٹلر کب خود کو گولی مار سکتا ہے۔ اس نے بارود کی ایک ہلکی سے بو محسوس کی تھی۔

ہٹلر

،تصویر کا ذریعہGetty Images

روکزاس مچ ہٹلر کے بنکر میں ٹیلیفون آپریٹر تھا۔

عرصہ قبل بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا تھا ’اچانک میں نے کسی کو یہ آواز دیتے ہوئے سُنا ’لنج … لنج اب ہٹلر نہیں ہے۔ ہو سکتا ہے کہ انھوں نے گولی چلنے کی آواز سُنی ہو۔ لیکن میں نے کچھ نہیں سُنا تھا۔‘

’سب سرگوشیاں کر رہے تھے اور اسی کے ساتھ ہی ہٹلر کی ذاتی سیکریٹری بورمن نے ہٹلر کے کمرے کا دروازہ کھولنے کا اشارہ کیا۔ میں نے ہٹلر کا سر میز پر دیکھا۔ اس کا رنگ زرد پڑ چکا تھا، ہو سکتا ہے کہ اس نے مرتے وقت اپنا ہاتھ بڑھایا ہو جس سے اس کی طرف کا گلدان نیچے گر گیا اور ٹوٹ گیا تھا۔ ایوا براؤن صوفے پر گری پڑی تھی، اس نے گہرے نیلے اور سفید رنگ کا لباس پہن رکھا تھا۔ میں اس منظر کو کبھی نہیں بھولوں گا۔‘

ہٹلر زندہ باد کے نعرے کی حقیقت

اس کے بعد لنج نے ہٹلر کے لاش کو چادر میں لپیٹا اور اسے ہنگامی دروازے سے لے کر چانسلر کے باغ تک لے گیا۔ بورمن ایوا براؤن کی لاش لے کر آیا۔

’جب وہ ہٹلر کی لاش میرے پاس سے لے کر گزرے تو اس کی ٹانگیں لٹکی ہوئی تھیں۔ کوئی مجھ پر چیخا جلدی سے اوپر آؤ، وہ باس کو جلا رہے ہیں۔ لیکن میں اوپر نہیں گیا۔‘

ہٹلر کے سوانح نگار ایان کرشا لکھتے ہیں ’اس منظر کو ہٹلر کے آخری دنوں کے تمام ساتھیوں نے بنکر کے دروازے کے ذریعے دیکھا تھا۔ جب ان کی لاش کو آگ لگا دی گئی تو سب نے اپنے ہاتھ اٹھائے اور ’ہیل ہٹلر‘ کہا یعنی ہٹلر زندہ باد کا نعرہ لگایا اور بنکر واپس لوٹ گئے۔ اس وقت تیز ہوا چل رہی تھی۔‘

ہٹلر

،تصویر کا ذریعہGetty Images

’جب آگ بھڑک اٹھی تو اس پر پٹرول ڈالا گیا۔ آگ ڈھائی گھنٹے تک جلتی رہی۔ رات گیارہ بجے گوانسچے نے سپیریر سروسز کے اہلکاروں کو جلی ہوئی لاشوں کو دفنانے کے لیے بھیجا۔ کچھ دن بعد جب سویت فوجیوں نے ہٹلر اور اس کی اہلیہ کی قبر کشائی کی تو سب کچھ خاک ہو چکا تھا۔ صرف کچھ دانت ملے تھے اور ایک شخص جو سنہ 1938 کے بعد سے ہٹلر کے دانتوں کے ڈاکٹر کے ساتھ کام کر رہا تھا نے تصدیق کی کہ یہ دانت ہٹلر کے ہیں۔‘

BBCUrdu.com بشکریہ
You might also like

Comments are closed.