سینیٹر نصیب اللّٰہ بازئی نے سینیٹ کے اجلاس میں بتایا کہ کوئٹہ میں لوگوں کو بجلی کے ہاتھ سے لکھے بل بھجوائے جا رہے ہیں، اگلے اجلاس میں ہاتھ سے لکھے گئے بجلی بل لے آؤں گا۔
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کابینہ سیکرٹریٹ کا چیئرپرسن سعدیہ عباسی کی زیرِ صدارت اجلاس ہوا جس میں بجلی کے بھاری بلوں کا معاملہ زیرِ غور رہا۔
سینیٹر سعدیہ عباسی نے کہا کہ لوگوں کے بجلی بل اتنے زیادہ آ رہے ہیں، سیکریٹری خزانہ کو بلائیں۔
سینیٹر مشتاق احمد نے اجلاس میں اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ عوام 400 گنا ٹیکس دے رہے ہیں ایسا لگ رہا ہے کہ نیپرا ایک بے اختیار ادارہ ہے۔
اُنہوں نے کہا کہ اس وقت ترازو کا پلڑا سرمایہ کاروں کی طرف جھکا ہوا ہے، 1997ء سے پہلے یہ مسائل نہیں تھے، نیپرا بننے کے بعد یہ مسائل پیدا ہوئے، آئی پی پیز کے ساتھ معاہدے یک طرفہ ہیں۔
سینیٹر مشتاق احمد نے کہا کہ آئی پی پیز کی موجودگی میں عوام کو ریلیف ملنا ناممکن ہے، ایس ای سی پی میں آئی پی پیز کا ریٹ آف ریٹرن دیکھیں۔
اُنہوں نے سوالیہ انداز میں کہا کہ آئی پی پیز کا پھندا اب پاکستان کے لیے پھندا بننے جارہا ہے، اس سے نکلنے کا کیا کوئی طریقہ کار ہے؟
سینیٹر مشتاق احمد نے کہا کہ اگر پروٹیکٹڈ صارفین کو 300 یونٹ تک لے جائیں تو87 فیصد صارفین کو فائدہ ہو گا، ان صارفین کا بجلی کا یونٹ 16 روپے یونٹ ہو جائے گا۔
اُنہوں نے کہا کہ یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ آئی پی پیز کے ساتھ معاہدے کس نے کیے، آئی پی پیز کے پہلے مالکان کون تھے، اب کون ہیں؟
سینیٹر کامل علی آغا نے اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ نیپرا مان لے کہ اس کا کام صرف آئی پی پیز کا تحفظ کرنا ہے، آئی پی پیز نے قوم کی ہڈیوں کو بھی نچوڑ لیا ہے، ایک سال میں ڈیڑھ کروڑ لوگ خطِ غربت سے نیچے چلے گئے۔
ارکانِ قائمہ کمیٹی نے سوال کیا کہ کیا آئی پی پیز کا پیداواری ٹیرف نیپرا کے مطابق ٹھیک ہے؟
چیئرمین نیپرا نے اس سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ جی پالیسی کے مطابق ٹیرف ٹھیک ہے۔
ارکانِ قائمہ کمیٹی نے اجلاس میں کے الیکٹرک کے ساتھ بجلی کی خرید و فروخت کے معاہدے کی تفصیلات طلب کیں۔
قائمہ کمیٹی کابینہ سیکرٹریٹ نے اس حوالے سے کچھ سوالات اُٹھائے ہیں کہ کے الیکٹرک وفاقی حکومت کا کتنا نادہندہ ہے؟ آئی پی پیز کو فیول کی ادائیگی کی مد میں کتنے ڈالرخرچ کیے جا رہے ہیں؟ کپیسٹی پیمنٹس کی مد میں سالانہ کتنی ادائیگی کی جا رہی ہے؟
چیئرمین نیپرا نے ان سوالات کے جواب میں کہا کہ ڈالر کی قدر 1 روپے بڑھنے سے ساڑھے 18 ارب روپے کا اضافی بوجھ پڑتا ہے، ہم نے پچھلی دفعہ ڈالر کی قدر 185 روپے لگائی تھی، اب 285 روپے سے اوپر جا چکی ہے۔
اُنہوں نے کہا کہ ڈالر کی قدر بڑھنے سے 180 ارب روپے کا اضافی بوجھ پڑ چکا ہے، اقتصادی اشاریے نیپرا اتھارٹی کے ہاتھ میں نہیں ہیں، نئی کیپیسٹی شامل کرنے سے ٹیرف زیادہ ہی ہو گا کم نہیں ہو گا، انرجی کاسٹ کم ہو گئی مگر کپیسٹی پیمنٹ بڑھ گئی ہے۔
Comments are closed.