ڈونلڈ ٹرمپ کو ریپ کے الزام میں مقدمے کا سامنا

کیرول

،تصویر کا ذریعہTHE WASHINGTON POST/GETTY IMAGES

،تصویر کا کیپشن

کیرول نے پہلی بار 2019 میں ٹرمپ پر یہ الزام لگایا تھا

  • مصنف, ہولی ہونڈرچ
  • عہدہ, واشنگٹن

سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو اس الزام میں دیوانی مقدمے کا سامنا ہے کہ انہوں نے تقریباً تین دہائیاں قبل ایک کالم نگار کا ریپ کیا تھا۔ منگل کو نیویارک کی وفاقی عدالت میں جیوری کا انتخاب شروع ہونے والا ہے۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے ای جین کیرول کے اس الزام کی تردید کی ہے کہ انہوں نے مین ہیٹن کے ایک ڈپارٹمنٹ سٹور میں ان پر حملہ کیا تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ یہ سب پبلِسٹی کے لیے کر رہی ہیں۔

حالانکہ یہ معاملہ مجرمانہ نہیں ہے، لیکن مسٹر ٹرمپ کے لیے اس کے نتائج سنگین ہو سکتے ہیں۔

اگر کیرول مقدمہ جیت جاتی ہیں، تو یہ پہلا موقع ہو گا کہ سابق صدرجنہیں اس طرح کے دو درجن سے زیادہ الزامات سامنا رہا ہے جنسی زیادتی کے لیے قانونی طور پر ذمہ دار پائے جائیں گے۔

ڈونلڈ ٹرمپ کو دیگر قانونی دشواریوں کا سامنا ہے، جس میں ایک پورن سٹار کو خاموش رہنے کے لیے رقم کی ادائیگی اور 6 جنوری 2021 کو یو ایس کیپیٹل ہنگامے میں ان کے مبینہ کردار کی تحقیقات کے حوالے سے دو درجن سے زیادہ سنگین معاملات شامل ہیں۔

ٹرمپ اگلے سال وائٹ ہاؤس کے لیے اپنی دعویداری کے لیے بھی جدو جہد کر رہے ہیں۔

الزامات کیا ہیں؟

79 سالہ کیرول کہتی ہیں کہ ان پر یہ حملہ 1995 کے اواخر یا 1996 کے اوائل میں مین ہٹن میں برگڈورف گڈمین سٹور پر ہوا تھا۔

انہوں نے کہا کہ خریداری کے دوران وہ ایک دوسرے سے ٹکرائے تھے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ ٹرمپ نے مبینہ طور پر کسی دوسری خاتون کے لیے لنگری خریدتے وقت ان سے مشورہ مانگا تھا اور مذاق میں ان سے کہا کہ وہ ان کے لیے پہن کر دکھا دیں ۔ لیکن کیرول کا کہنا تھا کہ کپڑے بدلنے والے کمرے میں رئیل سٹیٹ ٹائیکون نے انہیں دبوچ لیا اور انہیں دیوار سے لگا کر ان پر جنسی حملہ کیا۔

ایلے میگزین میں 1993 سے کیرول کا کالم ’ای جین سے پوچھیں‘ شائع ہوتا رہا ہے، ان کا دعویٰ ہے کہ اس حملے کے بعد وہ بڑی مشکل اور جدو جہد کے بعد ٹرمپ کو پیچھے دھکیلنے میں کامیاب ہوئیں۔

ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے پولیس کو اس مبینہ حملےکی اطلاع نہیں دی تھی، کیونکہ وہ ’صدمے میں تھیں اور اپنے آپ کو ریپ کا شکار نہیں سمجھنا چاہتی تھیں‘۔

کیرول کے دو دوستوں، کیرول مارٹن اور لیزا برنباچ نے کہا ہے کہ انہوں نے انہیں چند دنوں بعد مبینہ واقعے کے بارے میں بتایا تھا۔ مارٹن اور برچباچ ان گواہوں کی فہرست میں شامل ہیں جنہیں گواہی کے لیے عدالت میں بلایا جا سکتا ہے۔

ٹرمپ

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

ٹرمپ کو نیویارک میں بھی سنگین مجرمانہ الزامات کا سامنا ہے، جس سے وہ انکار کرتے ہیں

ٹرمپ نے کیا کہا؟

2019 میں کیرول کے الزامات سامنے آنے کے بعد سے ڈونلڈ ٹرمپ نے متعدد بار اس الزام کی تردید کی ہے۔

انہوں نے اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹروتھ سوشل پر کیرول کے دعوؤں اور الزامات کو ’دھوکہ دہی‘ کے طور پر بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ مبینہ زیادتی ’کبھی نہیں ہوئی‘ اور مقدمے کے لیے اکتوبر کے ایک بیان کے دوران، مسٹر ٹرمپ نے اپنی تردید کو دہراتے ہوئے کہا کہ ’وہ میرے ٹائپ کی نہیں ہیں‘۔

ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ آیا ڈونلڈ ٹرمپ مقدمے کی سماعت کے دوران پیش ہوں گے، توقع ہے کہ یہ سماعت دو ہفتوں تک جاری رہے گی۔

کیرول کے وکلاء ججوں کے سامنے ایک ریکارڈنگ چلانے کا ارادہ رکھتے ہیں، جسے ایکسیس ہالی ووڈ ٹیپ کہا جاتا ہے، جس میں مسٹر ٹرمپ کو خواتین کے جنسی اعضاء کو پکڑنے پر فخر کرتے ہوئے سنا جاتا ہے۔

کیرول کے وکلاء دیگر ایسی خواتین کو بطور گواہ پیش کرنے والے ہیں جن کا کہنا ہے کہ ٹرمپ نے ان پر بھی حملہ کیا تھا۔

یہ سول کیس کیوں ہے؟

اس کیس کے لیے حدود کا مجرمانہ قانون طویل عرصے سے ختم ہو چکا ہے۔

اور عام طور پر، نیویارک میں جنسی زیادتی پر دیوانی مقدمے دائر کرنے کے لیے لوگوں کے لیے حدود کا قانون تین سال کا ہے، اس معاملے میں کافی عرصہ گزر چکا ہے۔

لیکن 2022 میں، نیویارک نے ایڈلٹ سروائیورز ایکٹ پاس کیا، جس کے تحت متاثرہ افراد کو ریاست میں ان دعووں پر جنسی زیادتی کے مقدمے دائر کرنے کے لیے ایک سال کی مدت کی اجازت دی گئی جو بصورت دیگر قانونی حدود سے تجاوز کر چکے ہوتے۔

اور کیرول نے قانون کے نافذ ہونے کے تقریباً فوراً بعد مسٹر ٹرمپ کے خلاف اپنا مقدمہ دائر کیا۔

کیرول کی قانونی فیس کون ادا کر رہا ہے؟

لِنکڈ ان کے شریک بانی ریڈ ہوفمین اور ایک ڈیموکریٹک عطیہ دہندہ نے، کیرول کے قانونی بلوں کی ادائیگی میں مدد کی ہے۔

ٹرمپ کے وکلاء نے ہوفمین کے با رے میں جاننے کے بعد یہ کہتے ہوئے مقدمے کی سماعت میں تاخیر کرنے کی کوشش کی، کہ اس سے کیرول کے مقاصد پر سوالات اٹھتے ہیں۔ جج نے اس اعتراض کو مسترد کر دیا، لیکن وکلاء کو کیرول سے مالی اعانت کے بارے میں پوچھنے کی اجازت دی۔

BBCUrdu.com بشکریہ