الیکشن کمیشن آف پاکستان نے قومی اسمبلی کے حلقے این اے 75 ڈسکہ کے ضمنی انتخاب کو کالعدم قرار دے دیا ہے۔
این اے 75 ڈسکہ میں پولنگ بیگز کی گمشدگی کے معاملے پر الیکشن کمیشن میں چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کی سربراہی میں 5 رکنی کمیشن کا اجلاس ہوا جس میں الیکشن کمیشن نے پورے حلقے میں دوبارہ پولنگ کرانے کا حکم دے دیا۔
الیکشن کمیشن کی جانب سے کہا گیا ہے کہ پورے حلقے میں 18 مارچ کو دوبارہ پولنگ ہو گی۔
مسلم لیگ نون کی جانب سے قومی اسمبلی کے حلقے این اے 75 ڈسکہ کے پورے حلقے میں دوبارہ الیکشن کا مطالبہ کیا گیا تھا۔
حکمراں جماعت پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کا کہنا تھا کہ جن 23 پولنگ اسٹیشنز پر نون لیگ نے اعتراض اٹھایا تھا ان پر دوبارہ پولنگ کرائی جائے۔
پی ٹی آئی کے امیدوار اسجد ملہی کے وکیل کا کہنا تھا کہ قانون میں کوئی ٹائم لمٹ نہیں کہ پریزائیڈنگ افسر کب آئے، تاخیر سے آنا کوئی جواز نہیں کہ دھاندلی ہوئی۔
چیف الیکشن کمشنر نے دورانِ سماعت پی ٹی آئی کے امیدوار سے پوچھا کہ اسجد ملہی! آپ نے الیکشن کےدن کوئی شکایت کمیشن کو نہیں کی؟ جبکہ آپ کے مخالفین کی شکایات ہمیں مل رہی تھیں۔
اس سےقبل دورانِ سماعت نون لیگ کی امیدوار نوشین افتخار نے اپنا بیانِ حلفی اور تحریری جواب الیکشن کمیشن میں جمع کرایا جس میں انہوں نے کہا کہ کمیشن کے حکم کے باوجود پولیس آفیسر ذوالفقار ورک کو حلقے میں ڈیوٹی سے نہیں ہٹایا گیا، 20 پریزائیڈنگ افسران کا غائب ہو جانا شرمناک واقعہ ہے۔
نوشین افتخار کا جمع کرائے گئے جواب میں کہنا ہے کہ جمہوری عمل اور حلقے کے عوام سے انتخابی فراڈ کیا گیا، انتخابی عمل کی سازش میں ملوث افراد کو سرکاری عہدوں سے ہٹایا جائے، انتخابی عمل میں گڑبڑ میں ملوث لوگوں کو مثالی سزائیں دی جائیں، فراڈ کے ذمے داران کو سزاؤں سے آئندہ انتخاب میں الیکشن کمیشن کی رٹ قائم رہے گی۔
دوسری جانب تحریکِ انصاف کے امیدوار اسجد ملہی نے اپنے وکیل کو تبدیل کر لیا، اسجد ملہی کی جانب سے پہلی سماعت میں سید محمد علی بخاری بطور وکیل پیش ہوئے تھے جبکہ دوسری سماعت میں بیرسٹر علی ظفر نے ان کی جانب سے وکالت کے فرائض انجام دیئے۔
Comments are closed.