چین کے بٹ کوائن مائنرز امریکی ریاست ٹیکسس کا رخ کیوں کر رہے ہیں؟
چین میں کرپٹو کرنسی کی مائننگ پر پابندی نے بٹ کوائن کے کاروباریوں کو بیرون ملک کی راہ اختیار کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔ بہت سے لوگ ٹیکسس جا رہے ہیں جو تیزی سے مستقبل کا عالمی کرپٹو کرنسی کیپیٹل بن رہا ہے۔
جب چین نے مئی میں بٹ کوائن مائننگ اور ٹریڈنگ کے خلاف کریک ڈاؤن کا اعلان کیا تو چینی کرپٹو کرنسی مائننگ کمپنی ‘پول ان’ کے سی ای او کیون پین اگلے دن ہی ملک سے باہر جانے والی فلائٹ پر سوار ہو گئے۔
مسٹر پین نے بی بی سی کو بتایا: ‘ہم نے ہمیشہ کے لیے باہر جانے کا فیصلہ کرلیا۔ [ہم] پھر کبھی واپس نہیں آئیں گے۔’
ہانگ کانگ میں ہیڈ کوارٹر والی پول ان کمپنی دنیا کا دوسرا سب سے بڑا بٹ کوائن نیٹ ورک ہے، جس کے زیادہ تر کام چینی سرزمین پر ہوتے ہیں۔ یہ ملک ایک وقت تک 70 فیصد عالمی بٹ کوائن مائنگ کا گھر تھا لیکن پھر یہاں اچانک پابندی کے عائد ہونے سے اس کی قیمتی تیزی سے گرگئی اور اس کے کاروبار سے جڑے افراد بے خبری کا شکار ہو گئے۔
اب چین کے ‘بٹ کوائن مہاجرین’ فوری طور پر ایک نئے گھر کی تلاش میں ہیں، چاہے وہ ہمسایہ ملک قازقستان، روس ہو یا پھر شمالی امریکہ کیوں نہ ہو، کیونکہ بٹ کوائن مائنرز کے لیے وقت ہی حقیقی معنوں میں پیسہ ہے۔
پول ان کے نائب صدر الیجینڈرو ڈی لا ٹوریس نے کہا: ‘ہمیں [بٹ کوائن مائننگ] مشینوں کے لیے ایک نئے گھر کی تلاش ہے۔ کیونکہ ہر منٹ جب مشین آن نہیں ہے تو وہ پیسہ نہیں کما رہی ہے۔’
بٹ کوائن مائنرز کی اس ہجرت کو کچھ لوگ ‘گریٹ مائننگ مائیگریشن’ کہہ رہے ہیں کیونکہ پول ان ایگزیکٹوز سمیت بہت سے بٹ کوائن مائٹرز اس ہجرت میں شامل ہیں جنھوں نے حال ہی میں امریکہ کے انتہائی مغربی حصے آسٹن اور ٹیکسس کا رخ کیا ہے۔
بٹ کوائن ایک ڈیجیٹل کرنسی ہے جو مجسم نہیں ہے لیکن وہ موجود ہے اور صرف آن لائن ہی اس کا تبادلہ کیا جاتا ہے۔
یہ اس وقت بنائے جاتے ہیں جب کمپیوٹر ریاضی کے پیچیدہ مجموعہ کو حل کرکے پیسے کو ‘مائن’ کرتا ہے اور اسی طرح کمپیوٹر چلانے والے بٹ کوائن ‘مائنرز’ کرنسی کماتے ہیں۔
اس میں بہت زیادہ توانائی صرف ہوتی ہے۔
کیون پین (دائیں) اور ڈی لا ٹورے (بائیں)
بٹ کوائن کان کنی کے لیے نئی سرحد
مسٹر پین کو فورا ہی ٹیکساس گھر جیسا محسوس ہونے لگا۔ ان کی آمد کے چند دن بعد ہی انھیں تحفے میں ایک اے آر-15 رائفل دی گئی جس کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ وہ ایک دن ‘ہیلی کاپٹر سے ہاگس شکار کرنے’ کے لیے اس کا استعمال کر سکتے ہیں۔
اگرچہ شوٹنگ رینج اور ٹیکسس کے باربیکو وہاں آنے والے کو خوش آمدید کرتے ہیں لیکن بٹ کوائن مائنرز کے لیے کاروبار کو قانونی تحفظ فراہم کیا جانا بڑی کشش کی وجہ ہے۔ مسٹر ڈی لا ٹورے کا کہنا ہے کہ ‘چین میں ہمارے ساتھ جو کچھ ہوا وہ امریکہ میں نہیں ہوگا۔’
ٹیکسس کے گورنر گریگ ایبٹ کرپٹو کرنسی کے ایک پرزور حامی رہے ہیں۔ انھوں نے جون میں ٹویٹ کیا کہ ‘یہ ہیپننگ ہے! ٹیکسس کرپٹو لیڈر ہوگا۔’ اسی وایومنگ کے بعد لون سٹار سٹیٹ یعنی ٹیکسس دوسری امریکی ریاست بن گیا جس نے اپنے تجارتی قانون میں بلوکچین اور کرپٹو کرنسی کو تسلیم کیا اور اس کی وجہ سے ریاست میں کرپٹو کاروبار چلنے کی راہ ہموار ہوئی۔
بہت سی چینی بٹ کوائن کمپنیوں نے استحکام اور مواقع کے لیے ٹیکساس کی طرف دیکھنا شروع کیا ہے۔ شینزین میں قائم بی آئی ٹی مائننگ کمپنی نے ریاست میں ڈیٹا سینٹر بنانے کے لیے 26 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کا منصوبہ بنایا ہے جبکہ بیجنگ میں قائم بٹ مین ٹیکسس کے راک ڈیل میں اپنی سہولیات میں اضافہ کر رہا ہے۔ یہ چھوٹا سا قصبہ جس میں تقریبا 5،600 باشندے رہتے ہیں وہاں کبھی دنیا کے سب سے بڑے ایلومینیم پلانٹس میں سے ایک ہوا کرتا تھا اور اب یہ بٹ کوائن مائنرز کے اگلے عالمی مرکز کے طور پر ابھر رہا ہے۔
صنعت اور ریاست کے مابین ایک اور بنیادی تعلق ہوسکتا ہے جیسا کہ ڈی لا ٹورے کا کہنا ہے کہ بٹ کوائنرز اور ٹیکسس میں ایک قدر مشترک ہے۔ ‘ٹیکسس والے اپنی آزادی اور حقوق کو بہت سنجیدگی سے لیتے ہیں اور اسی طرح ہم بٹ کوائنرز بھی ہیں۔’
یہ بھی پڑھیے
ماہرین کا خیال ہے کہ چین میں بٹ کوائن پر ہونے والا کریک ڈاؤن مالیاتی منڈیوں پر زیادہ کنٹرول رکھنے کے لیے تھا اور چین کا یہ قدم امریکہ کے لیے ایک نعمت ثابت ہو سکتا ہے۔
چین کی ڈیجیٹل کرنسی پالیسی پر تحقیق کرنے والے کوئینز لینڈ یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی کے بزنس پروفیسر کیون ڈیسوزا کا کہنا ہے کہ ‘ہجرت امریکہ کے لیے ٹیلنٹ کے حصول اور انوویشن کے نظام کو آگے بڑھانے میں فائدہ مند ثابت ہو سکتیی ہے۔’
ان کا کہنا ہے کہ اس کے بدلے میں بٹ کوائنرز کو ایک ترقی پزیر اور جدید کمیونٹی کے ساتھ ساتھ سرمایہ کے زیادہ متنوع ذرائع تک رسائی حاصل ہوتی ہے۔
توانائی اور سیاسی خطرات
مستحکم ریگولیٹری ماحول کے علاوہ تونائی کی بھوکی یہ صنعت ٹیکسس میں سستی بجلی کی تلاش میں ہے۔
ٹیکسس اپنے بجلی گرڈ کی وجہ سے دنیا میں سب سے سستی قیمت پر توانائی فراہم کرنے والے ممالک میں ہے۔ صارفین کے پاس مختلف بجلی فراہم کرنے والوں کے درمیان سے انتخاب کی آزادی ہے جس سے بجلی کے فراہم کرنے والے بازار میں کم سے کم قیمتوں پر بجلی فراہم کرنے کے لیے آپس میں مقابلہ کرتے ہیں۔ بجلی کی طلب میں اضافے کے دوران بٹ کوائن فارمز غیر استعمال شدہ بجلی واپس گرڈ کو بھی بیچ سکتے ہیں۔
اگرچہ ال سلواڈور بٹ کوائن کو قومی کرنسی کے طور پر اپنانے والا پہلا ملک بننے کے لیے تیار ہے لیکن مسٹر ڈی لا ٹورے کا کہنا ہے کہ بٹ کوائن مائنرز امریکہ کو ترجیح دیتے ہیں کیونکہ وہاں بجلی اور موصلات کے بہتر ڈھانچے ہیں۔
لیکن کچھ تجزیہ کاروں نے خبردار کیا ہے کہ ‘گریٹ مائننگ مائیگریشن’ سنگین ردعمل کا باعث بن سکتی ہے کیونکہ ایسے میں شہروں اور قصبوں کی توانائی کی بھوک کو پورا کرنے کے لیے جدوجہد کرنا پڑے سکتا ہے۔
فروری میں مہلک برفانی طوفان کے بعد ہونے والے بلیک آؤٹ کے سبب ٹیکسس میں لاکھوں گھر اور کاروبار کئی دنوں تک بجلی کے بغیر تھے۔ 200 سے زائد افراد ہلاک ہوئے۔ بجلی کی بندش کے دوران بٹ کوائن فارمز کو آف لائن رہنے کے لیے معاوضہ دیا گیا۔
ال سلواڈور میں کرپٹو کرنسی کے خلاف مظاہرے ہوئے ہیں
ال سلواڈور میں مزاحمت
بہرحال ال سلواڈور میں شکوک و شبہات بڑھ رہے ہیں کیونکہ ملک سات ستمبر کو بٹ کوائن کو قانونی ٹینڈر کے طور پر تسلیم کرنے والا دنیا کا پہلا ملک بننے کی تیاری کر رہا ہے۔
حکومت نے اس اقدام کو معاشی ترقی اور روزگار کے فروغ کے طور پر پیش کیا ہے۔
سروے سے پتہ چلتا ہے کہ ال سلواڈور کے لوگ اس کے لیے تیار نہیں ہیں اور عالمی بینک نے اسے اپنانے کے خلاف خبردار کیا ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ ایک ‘استبدادی حکومت’ کی طرف سے ‘توجہ حاصل کرنے والا قدم’ ہے۔
اگلے ہفتے کا دن تاریخی دن ہوگا کیونکہ قانون سازوں کی طرف سے کرپٹو کرنسی کو قانونی شکل دینے کے لیے ووٹ جون میں ووٹ ڈالا گیا تھا۔
ملک کے بٹ کوائن قانون کی منظوری کے بعد کاروباری ادارے اسے قبول کرنے کے پابند ہوں گے کہ بطور ادائیگی یا تو وہ یہ قبول کریں یا امریکی ڈالر جو کہ ملک کی دوسری سرکاری کرنسی ہے۔
ال سلواڈور میں 200 سے زائد نئی کیش مشینیں نصب کی جا رہی ہیں تاکہ ڈالر کو بٹ کوائن میں تبدیل کیا جا سکے۔
ال سلواڈور کی حکومت شہریوں کو اس کے قومی بٹوے کے استعمال کی ترغیب دینے کے لیے مفت بٹ کوائنز میں 30 (£ 22) ڈالر کی پیشکش کر رہی ہے جس تک ایک آن لائن ایپ کے ذریعے رسائی حاصل ہوگی۔
Comments are closed.