بدھ14؍شوال المکرم 1442ھ26؍مئی 2021ء

چین کی ہائپرسانک میزائلوں کی پرانی ٹیکنالوجی پر نیا واویلہ

ہائپرسانک میزائل: چین کے پرانی ٹیکنالوجی کے تجربات پر دیگر ممالک کا نیا واویلہ

چین

،تصویر کا ذریعہJUNG YEON-JE

،تصویر کا کیپشن

کوریا نے حال ہی میں ہائپرسانک میزائل کا کامیاب تجربہ کرنے کا دعوی کیا تھا

دنیا میں طویل فاصلے تک مار کرنے والی جدید دور کے ہتھیاروں کی دوڑ میں تیزی کے ماحول میں چین نے اطلاعات کے مطابق اگست میں جوہری ہتھیار لے جانے والا ہائپر سانک ‘گلائڈ وہیکل’ کا جو مدار میں چکر لگا کر زمین کی طرف آتا ہے تجربہ کیا ہے۔

امریکہ اور روس نے حالیہ مہینوں میں ہائپر سانک یا آواز کی رفتار سے کئی گنا زیادہ تیز میزائلوں کے تجربات کیے ہیں اور شمالی کوریا نے گذشتہ ماہ اسی نوعیت کے میزائلوں کا ایک کامیاب تجربہ کرنے کا دعوی کیا تھا۔

ہائپرسانک میزائل آواز کی رفتار سے پانچ گنا زیادہ تیزی سے اپنے ہدف کی طرف جاتے ہیں اور یہ فضا کی آخری حدود کو چھو کر واپس آتے ہیں۔ ان کی رفتار چھ ہزار دو سو کلو میٹر فی گھنٹہ ہوتی ہے جو کہ تین ہزار آٹھ سو پچاس میل فی گھنٹہ بنتی ہے۔

یہ بھی پڑھیے

میزائل کسی طرح کام کرتے ہیں

یہ رفتار بین البراعظم بلاسٹک میزائلوں سے ذرا کم ہوتی ہے لیکن ہائپرسانک گلائڈ وہیکلوں کی ساخت کی وجہ سے یہ ہدف کی طرف بڑھتے ہوئے دفاعی ہتھیاروں سے بچنے کے لیے اپنا راستہ بدل سکتے ہیں۔

‘گلائڈ وہیکل’ کو میزائل سے جوڑنے سے یہ خلا تک جاتا ہے اور ‘فریکشنل آربٹل بمبارڈمنٹ سسٹم’ (ایف او بی ایس) کی وجہ سے عدو مخالف اور اُس کے روایتی دفاعی نظاموں سے بچ کر نکل سکتا ہے۔

خبر رساں ادارہ روئٹرز کے مطابق سرد جنگ کے دنوں میں امریکہ اور سویت یونین دونوں نے ‘ایف او ایس بی’ نظام پر کام کیا تھا اور سویت یونین نے سنہ 1970 کی دہائی میں ایک ایسا نظام نصب بھی کیا تھا۔ لیکن اس کو سنہ 1980 کی دہائی کے وسط میں ہٹا بھی لیا گیا تھا۔ آبدوزوں کے ذریعے بلاسٹ میزائل لانچ کرنے سے بھی کافی دفاعی برتری حاصل ہو سکتی ہے جو ‘ایف او بی ایس’ سے حاصل ہوتی ہے جس سے میزائل کا پتا لگانے کا وقت بہت کم ملتا ہے اور یہ دشمن کے لیے یہ تعین کرنا ناممکن ہو جاتا ہے کہ یہ کہاں سے داغا گیا ہے۔

چین

،تصویر کا ذریعہChina News Service

اس دوڑ میں کس کو سبقت حاصل ہے

فائنینشل ٹائمز نے ہفتے کو اطلاع دی تھی کہ چین نے ایک راکٹ داغا ہے جو ہائپرسانک گلائڈ وہیکل کو خلا تک لے کر گیا جہاں مدار میں اس نے دنیا کے گرد چکر لگایا اور پھر زمین پر اپنے ہدف کی طرف آیا اور جہاں یہ ہدف سے صرف دو درجن میل سے کم فاصلے سے جا کر ٹکرایا۔

اس سال جولائی میں روس نے کامیابی سے ٹسرکون ہائپرسانک کروز میزائل کا تجربہ کیا تھا جس کے بارے میں صدر ولادمیر پوتن نے کہا تھا کہ یہ جدید دور کے میزائل نظام کا حصہ ہے۔ ماسکو نے پہلی مرتبہ آبدوز سے بھی میزائل چلانے کا تجربہ بھی کیا تھا۔

امریکہ نے ستمبر کے آخر میں نے ‘ائیر بریدنگ’ ہائپر سانک ہتھیار کا تجربہ کیا تھا۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ یہ میزائل فضا میں کروز میزائل کی طرح اپنی پرواز کے دوران خود راستے کا تعین کرتا ہے۔ یہ سنہ 2013 کے بعد سے اس نوعیت کے میزائلوں کا پہلا تجربہ تھا۔

اس اعلان کے چند دنوں بعد شمالی کوریا نے ایک نئے ہائپر سانک میزائل کا تجربہ کیا اور اس کو ‘سٹریٹجک ویپن’ کا نام دیا جس سے اس کی دفاعی صلاحیتوں میں کئی گنا اضافہ ہوا گو کہ جنوبی کوریا کے کچھ ماہرین نے اس ناکام قرار دیا۔

اس کی اہمیت کیا ہے؟

یہ حالیہ تجربات ہتھیاروں کی ایک خطرناک دوڑ کا حصہ ہیں جس میں ایشیا کے چھوٹے ملک بڑے ملکوں کی طرح طویل فاصلوں تک مار کرنے والے ہتھیار بنانے کی کوششیں کر رہے ہیں۔

ہائپرسانک ہتھیار اور ایف او بی ایس اس لیے تشویش کا باعث ہیں کیوں کہ اس کے خلاف میزائلوں کے دفاعی نظام یا شیلڈ اور قبل از وقت خطرے سے آگاہ کر دینے والے نظام غیر موثر ہو جاتے ہیں۔

کچھ ماہرین نے کہا ہے کہ جس طرح کے میزائلوں کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ چین نے مئی میں تجربہ کیا تھا اس طرح کے میزائلوں کے بارے میں بڑھا چڑہا کر بات ہو رہی ہے۔

امریکہ میں میزائلوں کے ایک ماہر جیفری لیوس نے فائنینشل ٹائمز کی خبر پر ٹوئٹر پیغام میں کہا کہ چین کے پاس سو سے زیادہ آئی سی بی ایم یا بین البراعظم بلاسٹک میزائل ہیں جو امریکہ کو نشانہ بنا سکتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ گلائیڈر ایک اچھا اضافہ ہے لیکن یہ پرانے نظریہ ہے لیکن میزائل دفاعی نظاموں کو غیر موثر کر دینے کی صلاحیت رکھنے کی وجہ ایک مرتبہ پھر نظروں میں آ گیا ہے۔

BBCUrdu.com بشکریہ
You might also like

Comments are closed.