چین کی ثالثی میں ایران اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات بحالی کا معاہدہ انڈیا کے لیے فائدہ مند یا نقصان دہ؟
چین کی ثالثی میں ایران اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات بحالی کا معاہدہ انڈیا کے لیے فائدہ مند یا نقصان دہ؟
کئی اہم شعبوں میں خلیجی ممالک کے ساتھ انڈیا کا تعاون مسلسل بڑھ رہا ہے
- مصنف, کملیش مٹھینی
- عہدہ, نامہ نگار بی بی سی
گذشتہ دس برسوں میں انڈیا کی خارجہ پالیسی میں جو بڑی تبدیلیاں آئی ہیں ان میں سے ایک بڑی تبدیلی خلیجی ممالک کے ساتھ انڈیا کے بدلتے ہوئے تعلقات بھی ہیں۔ جب سے انڈیا میں نریندر مودی برسراقتدار آئے ہیں اس وقت سے اِس خطے کو زیادہ گہرائی اور سٹریٹیجک نقطہ نظر سے دیکھا جاتا ہے۔
یہ بات انڈیا کے وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے اُس وقت کہی جب اُن سے متحدہ عرب امارات، سعودی عرب اور دیگر خلیجی ممالک کے ساتھ انڈیا کے بدلتے ہوئے تعلقات کے بارے میں سوال پوچھا گیا۔
کئی اہم شعبوں میں خلیجی ممالک کے ساتھ انڈیا کا تعاون مسلسل بڑھ رہا ہے۔ انڈیا ان خلیجی ممالک کے ساتھ توانائی اور سلامتی کے شعبوں میں کام کر رہا ہے اور بیشتر خلیجی ممالک کے ساتھ انڈیا کے اچھے تعلقات ہیں۔
اس تعلق میں سب سے اہم تیل اور گیس کا کاروبار ہے۔ اس کے علاوہ خلیجی ممالک انڈین شہری بڑی تعداد میں کام کرتے ہیں اور زرمبادلہ اپنے وطن واپس بھیجتے ہیں جو اس رشتے کا اہم پہلو ہے۔
گذشتہ سال انڈیا اور متحدہ عرب امارات کے درمیان ایک ’جامع اقتصادی شراکت داری معاہدہ‘ (سی ای پی اے) ہوا تھا۔ اس معاہدے کے تحت تجارت بڑھانے کے ساتھ ساتھ سروسز اور سرمایہ کاری بڑھانے پر بھی زور دیا گیا ہے۔
انڈیا سب سے زیادہ خام تیل عراق سے خریدتا ہے، اس کے بعد سعودی عرب کا نمبر آتا ہے۔ تاہم، اس ماضی قریب میں انڈیا کی جانب سے روس سے خام تیل کی درآمد میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔
اس صورتحال میں سعودی عرب اور ایران کے بدلتے تعلقات اور اس کے پس منظر میں انڈیا کے کردار پر بھی ملک میں بحث چھڑ گئی ہے۔
چین بھی اس بحث کا ایک اہم حصہ ہے جس کی ثالثی میں سعودی عرب اور ایران سفارتی تعلقات بحال کرنے پر راضی ہوئے ہیں۔
کیا سعودی عرب اور ایران میں ہونے والا معاہدہ انڈیا کے لیے فائدہ مند ہے یا نقصاندہ، اس پر آگے چل کر بات، پہلے سرسری نظر اس معاہدے پر ڈال لیتے ہیں۔
سعودی اور ایران کے درمیان کیا معاہدہ ہوا ہے؟
مشرق وسطیٰ میں کئی دہائیوں سے دشمنی رکھنے والے سعودی عرب اور ایران کے تعلقات اب تبدیل ہوتے نظر آ رہے ہیں۔
دونوں ممالک نے سفارتی تعلقات کی بحالی کا اعلان کیا ہے۔ دونوں نے دو ماہ کے اندر سفارت خانہ کھولنے اور ایک دوسرے کی خودمختاری کا احترام کرنے اور اندرونی معاملات میں مداخلت نہ کرنے پراتفاق کیا ہے۔
اس فیصلے کا اعلان چین میں دونوں ممالک کے نمائندوں کے درمیان چار روزہ مذاکرات کے بعد کیا گیا ہے۔
جمعہ کے روز ایران کے اعلیٰ سکیورٹی اہلکار علی شمخانی اور سعودی عرب کے سکیورٹی مشیر موسید بن محمد العبان نے اس معاہدے پر دستخط کیے۔ اس موقع پر چین کے اعلیٰ سفارتکار وانگ یی بھی موجود تھے۔
انھوں نے معاہدے کو مذاکرات اور امن کی فتح قرار دیا۔ یہ بھی کہا کہ چین مشکل عالمی مسائل کے حل میں تعمیری کردار ادا کرتا رہے گا۔
ایسے میں انڈیا کے تناظر میں یہ دیکھنا ضروری ہو جاتا ہے کہ خلیجی ممالک میں انڈیا کے مفادات، امریکہ کی کم ہوتی ہوئی دلچسپی اور چین کی جانب سے اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کی کوششوں میں کیا تبدیلی آئے گی۔
دو ملکوں کی دشمنی میں توازن رکھتا انڈیا
انڈیا کے وزیر خارجہ ایس۔ جے شنکر
اس سوال کا جواب جاننے سے قبل ایران، سعودی عرب، اسرائیل اور امریکہ کے درمیان ٹکراؤ کی صورتحال اور انڈیا کو درپیش مشکلات کو سمجھنا ضروری ہے۔ ایران اور سعودی عرب کے تعلقات کیسے خراب ہوئے؟
سات سال قبل ایران اور سعودی عرب نے ایک بڑے تنازع کے بعد اپنے سفارتی تعلقات منقطع کر لیے تھے۔
سعودی عرب میں ایک معروف شیعہ عالم کو پھانسی دیے جانے کے بعد 2016 میں ایرانی مظاہرین تہران میں سعودی سفارت خانے میں گھس گئے تھے۔
اس کے بعد سے سنی اکثریتی سعودی عرب اور شیعہ اکثریتی ایران کے درمیان کافی کشیدگی پائی جاتی ہے۔
سعودی عرب اور ایران کے درمیان دشمنی کا آغاز 1979 میں ایرانی انقلاب کے فوراً بعد ہوا تھا۔ تب ایران نے تمام مسلم ممالک میں بادشاہت ختم کر کے مذہب کی حکمرانی کے نفاذ کی دعوت دی تھی۔
سنہ 1981 میں عراق نے ایران پر حملہ کیا جس میں سعودی عرب نے عراق کا ساتھ دیا۔ فی الحال سعودی عرب اور ایران شام، یمن، لبنان اور لیبیا میں جاری تنازعات میں آپس میں الجھے ہوئے ہیں۔
ان ممالک کی الجھن اور ٹکراؤ میں امریکہ اور اسرائیل کے مفادات نے صورتحال کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔
کیونکہ انڈیا کے مفادات دونوں ممالک سے جڑے ہوئے ہیں، اس لیے انڈیا کو اپنی خارجہ پالیسی میں توازن برقرار رکھنا ہوتا ہے۔ لیکن اگر ماہرین کی بات مانی جائے تو اس وقت صورتحال انڈیا کے لیے قدرے سازگار نظر آ رہی ہے کیونکہ انڈیا کے دو دوست جو پہلے ایک دوسرے کے دشمن تھے اب دوست بن رہے ہیں۔
جواہر لال نہرو یونیورسٹی میں مغربی ایشیا کے ماہر پروفیسر اے کے پاشا کہتے ہیں کہ ’ایران اور سعودی عرب کے باہمی تعلقات کا خلیجی ممالک اور پوری دنیا پر اثر پڑا۔ دونوں ممالک کے باہمی مسائل عالمی مسائل بن چکے ہیں۔ دوسرے ممالک بھی اس میں شامل ہو گئے جیسے مصر، ترکی، روس اور چین بھی بالواسطہ طور پر اس میں شامل ہو گئے۔
انڈیا نے متحدہ عرب امارات، سعودی عرب اور بحرین کے ساتھ گہرے تعلقات استوار کرنے شروع کردیے
’جہاں تک انڈیا کا تعلق ہے تو ایران کے ایٹمی پروگرام کے سبب امریکی دباؤ کی وجہ سے انڈیا کو ایران کے ساتھ اپنی تجارت کم کرنا پڑی۔ دھیرے دھیرے جب یہ معاملہ مزید پیچیدہ ہو گیا تو انڈیا نے خلیجی ممالک جیسے متحدہ عرب امارات، سعودی عرب اور بحرین کے ساتھ گہرے تعلقات استوار کرنے شروع کر دیے۔ ساتھ ہی ایران انڈیا سے دور ہوتا چلا گیا اور چین سے اس کی قربت بڑھتی گئی۔‘
اے کے پاشا کہتے ہیں کہ ’انڈیا کے لیے یہ مشکل تو رہا ہے، لیکن اس سے ابھی تک اسے زیادہ نقصان نہیں پہنچا ہے۔‘
چین کا کردار
کیا سعودی عرب اور ایران کے درمیان مذاکرات میں چین کا اہم کردار ہے
تاہم اے کے پاشا ایران اور سعودی عرب کے حالیہ فیصلے پر فوری طور پر کوئی نتیجہ اخذ کرنا درست نہیں سمجھتے۔ ان کا کہنا ہے کہ ایران اور سعودی عرب کے درمیان ان سفارتی تعلقات کو کچھ عرصے کے لیے دیکھنا پڑے گا۔ انڈیا پر اس کے فوری اثرات نظر نہیں آتے۔ یہ ایک اچھا قدم ہے۔ لیکن انڈیا کو سوچنا چاہیے کہ چین نے اس کا فائدہ اٹھایا ہے۔
جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے سینٹر فار ساؤتھ ایشین سٹڈیز کے پروفیسر سنجے بھاردواج عرب ممالک میں چین کے بڑھتے ہوئے کردار کو انڈیا کے لیے توجہ کا موضوع سمجھتے ہیں لیکن ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ موجودہ تبدیلی میں چین کے کردار کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جا رہا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’یہ کہنا مکمل طور پر درست نہیں ہے کہ سعودی عرب اور ایران کے درمیان مذاکرات میں چین کا اہم کردار ہے۔ سعودی عرب اور ایران گذشتہ تین چار سالوں سے اپنے تعلقات کو بہتر بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ غیر رسمی بات چیت جاری تھی۔ لیکن، اب اسے رسمی شکل دی جانی تھی، اس لیے معاملہ آگے بڑھایا گیا ہے۔‘
پروفیسر بھاردواج کہتے ہیں کہ ’انڈیا ایشیا کا ایک بہت اہم ملک ہے۔ انڈیا تیل اور قدرتی گیس کے لیے سعودی عرب اور ایران کے لیے اتنا ہی بڑا بازار ہے جتنا چین کے لیے۔ انڈیا کی معیشت بھی 6-7 فیصد کی شرح سے ترقی کر رہی ہے۔‘
’انڈیا وسطی ایشیائی ممالک سے رابطے کے سلسلے میں ایران کے ساتھ بھی تعلقات کو مضبوط بنا رہا ہے۔ وہ چابہار بندرگاہ کو بھی ترقی دے رہا ہے۔ ایران اور سعودی عرب دونوں انڈیا کو ایک دوست ملک کے طور پر دیکھتے ہیں اور کشمیر پر نرم رویہ اپناتے ہیں۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’یہاں چین اور انڈیا دونوں کے اپنے اپنے سٹریٹجک، اقتصادی اور سیاسی مفادات ہیں۔ ان میں ایسا کوئی ٹکراؤ نہیں ہے جو انڈیا کے پڑوسی ممالک میں چین اور انڈیا کے درمیان نظر آتا ہے۔‘
پڑوسی ممالک کے معاملے میں انڈیا کو علاقائی سلامتی کے حوالے سے براہ راست چیلنج درپیش ہے۔ لیکن، خلیجی ممالک کے سلامتی کے حوالے سے اپنے اپنے نظریے ہیں۔ اگر چین مشرق وسطیٰ میں اپنا اثر و رسوخ بڑھا رہا ہے تو توانائی کے شعبے میں مسابقت بڑھے گی لیکن سرمایہ کاری کے باقی مواقع دونوں ممالک کے لیے برابر رہیں گے۔
انڈیا کے لیے چیلنج کیا ہے؟
ماہرین کا خیال ہے کہ انڈیا اور خلیجی ممالک کے درمیان انڈیا کے انتظامی مسائل اور سیاسی حساب کتاب بھی اہم ہو جاتا ہے اور یہاں کسی حد انڈیا کے ہاتھ تک بندھ جاتے ہیں۔
اے کے پاشا کہتے ہیں ’چین بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو کے ذریعے اپنا اثر و رسوخ اور تجارت بڑھا رہا ہے، جو انڈیا کو بھی کرنا چاہیے، لیکن انڈیا کے پاس اتنا سرمایہ نہیں ہے جتنا چین کے پاس ہے۔‘
’چین براہ راست سیاسی اثرورسوخ بھی استعمال کر سکتا ہے جو انڈیا نہیں کرنا چاہتا۔ انڈیا امریکہ اور اسرائیل کو ناراض نہیں کرنا چاہتا۔ چین ایسا کر سکتا ہے کیونکہ امریکہ کے ساتھ اس کی براہ راست کشیدگی ہے۔‘
دوسری جانب سنجے کے بھاردواج کا کہنا ہے کہ انڈیا کو ڈیلیور کرنے میں تھوڑا وقت لگتا ہے کیونکہ یہ ایک جمہوری ملک ہے، چین کی طرح فیصلے نہیں لے سکتا۔ اسی لیے کسی بھی فیصلے پر عمل درآمد میں تاخیر ہوتی ہے۔ چین اس میں تھوڑا فائدہ اٹھا لیتا ہے۔
Comments are closed.