بدھ14؍شوال المکرم 1442ھ26؍مئی 2021ء

چین کو عالمی منظرنامے پر لانے والے صدر شی پر ملک کے ماضی کا کتنا اثر ہے؟

شی جن پنگ: چینی کو عالمی منظر نامے پر لانے والے رہنما کی سوچ پر چین کے ماضی کا کتنا اثر ہے؟

چین کے صدر شی جن پنگ

،تصویر کا ذریعہGetty Images

تائیوان کے ساتھ حالیہ کشیدگی کی وجہ سے دنیا کی توجہ چین کی جانب ہے جبکہ یہ بھی تجزیے کیے جا رہے ہیں کہ چینی صدر شی جن پنگ اپنے ملک کو عالمی سٹیج پر کہاں کھڑا دیکھنا چاہتے ہیں۔

آکسفورڈ یونیورسٹی میں تاریخ کی پروفیسر رانا مِٹر لکھتی ہیں کہ اس معاملے کے کچھ سرے شاید ماضی سے مل سکتے ہیں۔

چین اس وقت ایک عالمی طاقت ہے مگر کچھ دہائیوں قبل اس کا تصور کرنا بھی مشکل تھا۔ باقی دنیا کے ساتھ چین کا تعاون کبھی کبھی اس کی طاقت کو ابھارتا ہے، موسمیاتی تبدیلی سے متعلق پیرس معاہدے پر دستخط کرنا اس کی ایک مثال ہے۔

مگر کبھی کبھی اس کا مطلب باقی دنیا کے ساتھ مقابلہ بھی ہوتا ہے جیسے ’بیلٹ اینڈ روڈ منصوبہ‘ جو 60 سے زیادہ ممالک میں تعمیرات کا ایک بڑا نیٹ ورک ہے۔ اس کی وجہ سے دنیا کے ایسے حصوں میں بھی سرمایہ کاری ہوئی ہے جو مغربی ممالک کے قرضوں سے محروم تھے۔

تاہم عالمی معاملات پر چین کے بیانات کافی سخت بھی ہیں۔ چین نے آسٹریلیا، برطانیہ اور امریکہ کے درمیان آبدوزوں کے معاہدے کی مذمت کرتے ہوئے اسے ’چین کو محدود کرنے کی امریکی کوشش‘ قرار دیا ہے۔

اس کے علاوہ چین نے برطانیہ کو متنبہ کیا ہے کہ ہانگ کانگ کے ان شہریوں کو پناہ دینے کے سنگین نتائج ہوں گے جو وہاں نافذ کیے جانے والے سخت نیشنل سکیورٹی قانون کی وجہ سے ہانگ کانگ سے بھاگ رہے ہیں۔ چین نے تائیوان سے بھی کہہ دیا ہے کہ وہ واپس چین کا حصہ بننے کے لیے تیار ہو جائے۔

چین کے موجودہ صدر شی جن پنگ عالمی منظر نامے پر اپنے ملک کو جس زور دار طریقے سے سامنے لائے ہیں ایسا سرد جنگ کے زمانے میں ملک کے عظیم رہنما ماؤ زے تنگ کے بعد سے کسی چینی رہنما نے نہیں کیا۔

چینی صدر شی جن پنگ کے موجودہ بیانیے کی جڑیں ملک کے قدیم اور نسبتاً جدید ماضی میں موجود ہیں۔ یہ وہ پانچ خیالات ہیں جن کا اظہار ان کی پالیسیوں اور بیانات میں بار بار نظر آتا ہے۔

کنفیوشس کے نظریات

گذشتہ دو ہزار سال سے زیادہ عرصے سے کنفیوشس کے نظریات نے چینی معاشرے کی تشکیل میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ کنفیوشس ایک فلسفی تھے جو 479 عیسوی میں پیدا ہوئے اور ان کی وفات 551 عیسوی میں ہوئی۔

انھوں نے مختلف سطحوں اور درجات پر مشتمل ایک اخلاقی اور معاشرتی نظام کا نظریہ پیش کیا۔ اس نظام میں لوگوں کے لیے معاشرے میں اپنی اپنی جگہ متعین کی گئی۔ ہر شخص کو اپنے درجے کے بارے میں معلوم تھا۔ یہ نظام رحم دلی کے جذبے اور اس توقع پر قائم کیا گیا تھا کہ بلند درجے کے لوگ نچلے درجات کے لوگوں کا خیال رکھیں گے۔

چین کے فلسفی کنفیوشس کا مجسمہ

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

گزشتہ دو ہزار سال سے زیادہ عرصے سے کنفیوشس کے نظریات نے چینی معاشرے کی تشکیل میں اہم کردار ادا کیا ہے

چین میں شاہی خاندانوں کی حکومتوں نے کنفیوشس کے ان ہی نظریات کو بڑی حد تک اپنایا اور صدیوں تک ان کے سہارے قائم رہیں۔

تاہم سنہ 1911 کے انقلاب کے نتیجے میں آخری بادشاہ کا تختہ الٹ دیا گیا اور انقلابیوں اور نئی کمیونسٹ پارٹی کی جانب کنفیوشس کے نظریات کے خلاف بڑے پیمانے پر درعمل سامنے آیا۔

ان ہی انقلابیوں میں ماؤ ژے تنگ بھی شامل تھے جو سنہ 1949 سے سنہ 1976 تک اپنے دورِ اقتدار میں روایتی چینی فلسفے کے شدید مخالف تھے۔

تاہم سنہ 80 کی دہائی میں چینی معاشرے میں کنفیوشس کے نظریات واپس آ گئے اور کمیونسٹ پارٹی نے ان کی تعریف کرتے ہوئے انھیں شاندار شخصیت قرار دیا اور کہا کہ جدید چین میں ان کے فلسفے سے بہت کچھ سیکھنے کی ضرورت ہے۔

آج چین میں ’ہم آہنگی‘ کو سوشلسٹ اقدار میں سے ایک سمجھا جاتا ہے حالانکہ اس اصطلاح سے کنفیوشس کے فلسفے کے طرف ذہن جاتا ہے۔

یہ سوال بھی کیا جاتا ہے کہ کنفیوشس کے فلسفے کی ایک دوسری اہم اصطلاح ’رحم دلی‘ دیگر ممالک کے ساتھ چین کے تعلقات کو کیا شکل دے سکتی ہے۔

سنگجوا یونیورسٹی کے پروفیسر یان زیوٹونگ نے لکھا ہے کہ چین کو کس طرح ایک رحم دل طاقت بننے کی کوشش کرنی چاہیے نہ کہ غلبہ حاصل کرنے والی طاقت جو امریکہ کی طرح کم رحم دلی کا مظاہرہ نہ کرتی ہو۔

موجودہ چینی صدر شی جن پنگ کا یہ خیال کہ ’عالمی برادری جس کی ایک ہی منزل ہو‘ میں بھی قدیم فلسفے کی جھلک نظر آتی ہے۔ صدر شی جن پنگ کنفیوشس کی جائے پیدائش قوفو کا دورہ کر چکے ہیں اور کنفیوشس کے اقوال عوام کے سامنے بیان کر چکے ہیں۔

ذلت کی صدی

19ویں اور 20ویں صدی کے تاریخی تنازعات آج بھی دنیا کے بارے میں چین کی سوچ پر گہرائی سے اثرانداز ہوتے ہیں۔ 19ویں صدی کے وسط میں افیون پر ہونے والی جنگیں آج بھی ذہنوں میں ہیں جب مغربی تاجروں نے چین میں گھسنے کے لیے طاقت کا استعمال کیا تھا۔

سنہ 1840 سے سنہ 1940 تک کا زیادہ تر زمانہ ’ذلت کی صدی‘ کے طور پر یاد رکھا جاتا ہے۔ یہ چین کے لیے ایک شرمناک دور تھا جس میں وہ یورپی اور جاپانی جارحیت کے سامنے بے بس نظر آیا۔

اسی دور میں چین کو ہانگ کانگ برطانیہ کو دینا پڑا، شمال مشرقی خطے منچوریا کا حصہ جاپان کے حوالے کرنا پڑا اور کئی مغربی ممالک کو قانونی اور تجارتی مراعات دینی پڑیں۔

جنگ کے بعد کے زمانے میں سوویت یونین نے چین کی سرحدوں کے پاس اپنا اثر بڑھانے کی کوشش کی۔ ان علاقوں میں منچوریا اور شنجیانگ شامل ہیں۔

ان تجربات کی وجہ سے چین کو بیرونی دنیا کے بارے میں شکوک و شبہات رہتے ہیں۔ صدر شی جن پنگ اس بات کو بالکل بھی قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں کہ بیرونی دنیا ان کے ملک کی تذلیل کرے اور اس کا کوئی جواب نہ دیا جائے۔

چین جاپان جنگ کی سالگرہ

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

دوسری جنگِ عظیم میں جاپان کے خلاف چین کی فتح پر تقریبات منعقد کی جاتی ہیں

بھولا ہوا اتحادی

بہرحال خوفناک واقعات سے بھی مثبت سبق لیے جا سکتے ہیں۔ ایسے ہی ایک سبق کا تعلق دوسری جنگ عظیم کے اس حصے سے ہے جب چین نے جاپان کا اکیلے ہی مقابلہ کیا۔ جاپان نے چین پر سنہ 1937 میں حملہ کر دیا تھا جبکہ مغربی اتحادی سنہ 1941 میں امریکہ کے علاقے پرل ہاربر پر جاپانی حملے کے بعد ایشیا میں جنگ کا حصہ بنے۔

ان برسوں میں چین میں ایک کروڑ لوگ ہلاک ہوئے اور چین نے پانچ لاکھ سے زیادہ جاپانی فوج کو روکے رکھا۔ اس کارنامے کو آج بھی چین میں یاد رکھا جاتا ہے اور اس پر کتابیں لکھی گئی ہیں اور فلمیں بنائی جاتی ہیں۔ چینی کمیونسٹ پارٹی جس طرح اپنی قانونی اور سیاسی حیثیت کا تعین کرتی ہے ماضی قریب میں ہونے والے واقعات آج بھی اس میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

تاہم سنہ 1952 سے سنہ 1962 تک کمیونسٹ پارٹی کی پالیسیوں کے نتیجے میں ہونے والے خوفناک قحط کے بارے میں آج چین میں تذکرہ نہیں کیا جاتا۔ تاریخ کا یہ حصہ خاموشی کی نذر کر دیا گیا ہے۔

اس کے علاوہ ماضی میں ہونے والی کچھ جنگوں کو جدید تنازعوں کے لیے استعمال بھی کیا جاتا ہے۔ مثلاً گذشتہ برس چین اور امریکہ کے درمیان کشیدگی کا برس تھا۔ اس دوران چین میں سنہ 1950 سے 1953 تک جاری رہنے والی کوریائی جنگ پر فلمیں بنائی گئی ہیں۔ چین میں اس تنازع کو امریکہ کے خلاف مزاحمت کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔

مارکسزم کا اثر

چین کی سیاسی سوچ میں مارکسزم لینن ازم کے تاریخی نظریات کا گہرا اثر ہے اور صدر شی جن پنگ کی قیادت میں انھیں تیزی سے بحال کیا گیا ہے۔

20 صدی کے دوران ماؤ ژے تنگ اور دیگر اہم کمیونسٹ سیاسی رہنما مارکسزم پر نظریاتی بحث و مباحثے کرتے رہے جس کے بہت بڑے پیمانے پر نتائج سامنے آئے۔ ماؤ ژے تنگ کے اقتدار کے ابتدائی دور میں طبقاتی جنگ کے نام پر 10 لاکھ کے قریب زمین مالکان کو ہلاک کر دیا گیا۔

یہ بھی پڑھیے

حالانکہ اب چین میں طبقات کی بنیاد پر سماج کو پرکھا نہیں جاتا لیکن سیاسی بحث میں اب بھی سرمایہ دارانہ نظام کے مقابلے میں جدوجہد، مخالفت اور سوشل ازم کے تصورات غالب رہتے ہیں۔

کمیونسٹ پارٹی کے نظریاتی اخبار ’کوئشی‘ میں اکثر چینی معاشرے کے تضادات پر مارکسٹ فلسفے کی روشنی میں بحث ہوتی رہتی ہے۔ آج کے چین میں امریکہ اور چین کے درمیان مقابلے کو ایک ایسی جدوجہد کے طور پر بتایا جاتا ہے جسے مارکسزم کی روشنی میں سمجھا جا سکتا ہے۔

ماؤ ژے تنگ کے پورٹریٹ کے سامنے چینی سیاح تصاویر بنواتے ہوئے

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

سنہ 1895 میں جاپان کے ساتھ ایک تباہ کن جنگ کے نتیجے میں چین نے مجبوراً تائیوان کو جاپان کے حوالے کر دیا تھا

اسی طرح معاشرے میں موجود مختلف معاشی قوتوں اور ان کے درمیان تعلقات کو بھی اسی تناظر میں دیکھا جاتا ہے۔ معاشی ترقی اور اس ترقی کو ماحول کے لیے صاف ستھرا رکھنے جیسے معاملات کو تضادات کی مارکسی تشریح کی روشنی میں دیکھا جاتا ہے۔

تائیوان

چین کا اصرار ہے کہ تائیوان اس کا اٹوٹ انگ ہے اور یہ اس جزیرے کی ایک ایسی منزل ہے جسے بدلا نہیں جا سکتا۔

چین کا کہنا ہے کہ تائیوان کو واپس چین کا حصہ بننا ہی ہے۔ تاہم ماضی ہمیں یہ دکھاتا ہے کہ چین کی سیاست میں تائیوان کے معاملے کا اثر کم یا زیادہ ہوتا رہتا ہے۔

سنہ 1895 میں جاپان کے ساتھ ایک تباہ کن جنگ کے نتیجے میں چین نے مجبوراً تائیوان کو جاپان کے حوالے کر دیا تھا اور اگلے تقریباً پچاس برس تک تائیوان جاپان کی کالونی بنا رہا۔

تائیوان

،تصویر کا ذریعہReuters

اس کے بعد سنہ 1945 سے سنہ 1949 تک کے ایک مختصر عرصے کے لیے تائیوان میں موجود چینی قوم پرستوں کی وجہ سے یہ واپس چین کا حصہ بن گیا۔

ماؤ زے تنگ کے دور میں چین نے اسے حاصل کرنے کا موقع کھو دیا کیونکہ اس زمانے کے امریکی صدر ٹرومین کی انتظامیہ شاید ماؤ کو تائیوان واپس لینے دیتی لیکن سنہ 1950 میں جب شمالی کوریا نے جنوبی کوریا پر حملہ کیا تو چین نے شمالی کوریا کا ساتھ دیا۔

جس کے نتیجے میں کوریائی جنگ شروع ہو گئی اور تائیوان سرد جنگ میں ایک اہم مغربی اتحادی بن گیا۔ جب سنہ 1979 میں امریکہ اور چین کے تعلقات بحال ہوئے تو ایک مشکل معاہدہ کیا گیا جس کے تحت چین ایک ہی ملک ہو گا لیکن اس بات پر اتفاق نہیں ہوا کہ چین اور تائیوان میں موجود حکومتوں میں سے اصل میں کس کی قانونی حیثیت ہے۔

اب 40 برس بعد صدر شی جن پنگ کا اصرار ہے کہ تائیوان کو فوراً چین میں واپس شامل ہو جانا چاہیے۔ تاہم تائیوان کے عوام ہانگ کانگ کے چین کو واپس ملنے کے بعد وہاں پر چینی اقدامات اور قانون سازی کی وجہ سے پریشان ہیں۔

تائیوان کے لوگ اب ایک لبرل جمہوریت کے عادی ہیں اور واپس چین کا حصہ بننے کے لیے تیار نظر نہیں آتے۔

BBCUrdu.com بشکریہ
You might also like

Comments are closed.