بدھ14؍شوال المکرم 1442ھ26؍مئی 2021ء

چچڑ کے کاٹنے سے ہونے والی بیماری لائم: ’لوگ کہتے ہیں کہ میں بیمار نہیں لگتی‘

چچڑ کے کاٹنے سے ہونے والی بیماری لائم: ’لوگ کہتے ہیں کہ میں بیمار نہیں لگتی‘

ئعن لاًسہ

،تصویر کا ذریعہYeh Lau

ین لاؤ چار برس پہلے لاؤچ لومانڈ کے دورے کے دوران چچڑ کے کاٹنے سے بیمار ہو گئیں۔

وہ کہتی ہیں کہ انھیں ایک ایسا مرض تھا جو دکھائی نہیں دیتا اور آج بھی انھیں دن بھر بیماری کا احساس ہوتا ہے جس میں متلی، چکر آنا اور دائمی تھکاوٹ کا احساس شامل ہے۔

لیکن وہ اس بات کا عزم رکھتی ہیں کہ وہ اپنے اچھے دنوں کو انجوائے کریں گی۔ ساتھ ہی وہ اس چھوٹے سے کیڑے کے کاٹنے سے پیدا ہونے والے خطرات کے بارے میں بھی آگاہی پھیلانا چاہتی ہیں۔

ین کی عمر 35 برس ہے اور وہ گلاسکو میں رہتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ لوگوں کو میں بیمار نہیں دکھائی دیتی۔

وہ کہتی ہیں کہ لوگ میرے ان دنوں کو دیکھتے ہیں جب میں ٹھیک ہوتی ہیں وہ مجھے ان دنوں میں نہیں دیکھتے جب میں قے کر رہی ہوتی ہوں، چکرا رہی ہوتی ہوں یا جب مجھے تھکاوٹ ہوتی ہے۔

چچڑ کے کاٹنے سے ایک انفیکشن ہوتا ہے جس سے ہونے والی بیماری کو لائم کہا جاتا ہے۔ یہ بیماری انسانوں میں پھیل سکتی ہے اور ان کیڑوں میں بوریلیا برگڈورفیری بیکٹیریا ہوتا ہے۔

سکاٹ لینڈ میں لائم ریسکیو سینٹر کا کہنا ہے کہ یہ مرض اب جی پی ایس پر بھی دیکھا جا سکتا ہے اور اس سے مبینہ طور پر متاثر ہونے والوں کی تعداد لیبارٹری میں ریکارڈز سے کہیں زیادہ ہے۔

چچڑ کے رجحان کا آغاز مارچ میں ہوتا ہے اور یہ کیڑے لمبی گھاس یا پھر جس جگہ لکڑی میں ہوتے ہیں۔ برطانیہ میں ان کی افزائش کے بہترین علاقے سکاٹ لینڈ ہائی لینڈ کے کچھ علاقے اور مغربی جزائر ہیں۔ ان علاقوں میں مقامی ہیلتھ بورڈز نے گرم موسم کی وجہ سے چچڑی کی آمد سے خبردار کیا ہے۔

لیکن ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ یہ کیڑے شہر کے پارکس حتیٰ کہ پالتو جانوروں کے ساتھ آپ کے گھر میں بھی داخل ہو سکتے ہیں۔

سنہ 2019 میں بھی یِن نے بی بی سی سے بات کی تھی اور بتایا تھا کہ کیسے اس بیماری نے ان کی زندگی کے ہہترین سال تباہ کر دیے تھے۔

،تصویر کا ذریعہYen Lau

،تصویر کا کیپشن

سنہ 2019 میں بھی یِن نے بی بی سی سے بات کی تھی اور بتایا تھا کہ کیسے اس بیماری نے ان کی زندگی کے ہہترین سال تباہ کر دیے تھے۔

ین ایک میک اپ آرٹسٹ اور بزنس مینیجر ہیں۔ ان کی عمر جب 30 برس تھی تو وہ اپنے دوستوں کے ہمراہ پانچ دن کے لیے لاک لمونڈ گئیں۔

جب وہ انچ مورن نامی جزیرے پر گئیں تو انھیں پوست کے بیج جتنا کیڑا اپنی جلد پر دکھائی دیا۔

انھوں نے اسے بے ضرر سمجھ کر نظر انداز کر دیا اور ہاتھ سے پرے کر دیا۔ لیکن اس کیڑے کا ایک چھوٹا سا حصہ اس کی جلد کے اندر رہ گیا۔

وہ کہتی ہیں کہ میں نے بغیر سوچے اسے جھٹک دیا۔ ’میں نے چچڑ کے بارے میں کبھی نہیں سنا تھا اور نہ ہی میں اس سے پھیلنے والے مرض سے آگاہ تھی۔‘

لائن

طویل المدتی لائم بیماری

زیادہ تر لوگ تین ہفتے تک دوا کا مکمل کورس کر لیں تو اس بیماری سے ٹھیک ہو جاتے ہیں لیکن کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جن میں اس مرض کے اثرات برسوں تک دکھائی دیتے ہیں۔

یہ واصح نہیں کہ ایسا کیوں ہوتا ہے۔ اس حوالے سے کوئی بھی متفقہ علاج موجود نہیں ہے۔ لیکن اگر کسی بھی شخص کو لگے کے کیڑے کے کاٹنے سے اس کو ایسی علامات ظاہر ہوئی ہیں تو اسے ڈاکٹر سے رابطہ کرنا چاہیے۔

این ایچ ایس کے مطابق جن افراد کو زیادہ عرصے تک یہ علامات برقرار رہتی ہیں انھیں ماہر ڈاکٹر کے پاس بھجوایا جاتا ہے اور اس کے خون کے مزید نمونے لیے جاتے ہیں۔

سنہ 2019 میں وبائی امراض کے ڈاکٹرز نے خبردار کیا تھا کہ چچڑ کے دائمی مرض کے بہت سے مریضوں کی بیرونی ممالک میں مہنگے ٹیٹس کے ذریعے زیادہ تر غلط تشخیص کی گئی تھی۔

ان کی رائے میں بہت سے لوگ جو یہ سمجھتے ہیں کہ انھیں کوئی دائمی مرض ہے انھیں دراصل دائمی تھکاوٹ کا مسئلہ ہوتا ہے۔

لائن

کچھ دن بعد ین کو لگا کہ ان کے ہاتھوں کی جلد پر بڑے بڑے دھبے پڑ رہے ہیں۔ لیکن انھوں نے اسے میک اپ سے چھپا لیا۔ وہ نہیں جانتی تھی کہ وہ چیچڑ کے کاٹنے سے بیماری میں مبتلا ہو چکی ہیں۔ اس کے بعد انھیں بخار کی کیفیت ہوئی اور پھر چکر آنے لگے اور شدید تھکاوٹ کا احساس ہوا۔ ڈاکٹروں کو لگا کہ نوکری میں ذہنی دباؤ کی وجہ سے ان کی طبیعت ایسی ہو رہی ہے۔

ین کہتی ہیں کہ مجھے ہلکا ہلکا یاد ہے کہ 11ستمبر 2017 کے بعد سے میری زندگی پھر کبھی ویسی نہیں ہوئی۔

وہ کہتی ہیں اس روز جب میں اٹھی تو میں اپنی گردن کو نیچے کرنے کے قابل نہیں رہی تھی اور میں چار گھنٹوں تک بستر پر ایک حالت میں تھی۔

وہ اس قدر بیمار ہو گئیں کہ انھیں وہیل چیئر استعمال کرنی پڑی کیونکہ وہ ادھر ادھر نہیں جا سکتی تھیں۔

یہ ین کی بیماری کی تشخیص کے 18 ماہ پہلے کی بات تھی اور تب تک سپیشلسٹ اس کی بیماری کو دیگر اسباب سے جوڑ رہے تھے۔

وہ کہتی ہیں کہ جرمن لیبارٹری میں ٹیسٹ میں ان کے مرض کی تشخیص ہوئی۔

پروفیسر جیک لامبرٹ لائم ریسورس سینٹر سے وابستہ ہیں اور وہ میسیکورڈیا یونیورسٹی ہسپتال میں وبائی امراض کے پروفیسر ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ چچڑ سے پھیلنے والا یہ مرض طبی ماہرین کے لیے ایک چیلینج بن جاتا ہے کیونکہ اس مرض کی علامات دیگر امراض سے ملتی جلتی ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ضروری نہیں کہ ہر کسی کو بڑے بڑے داغ دھبے پڑ جائیں یا اسے معلوم ہو کہ کسی کیڑے نے انھیں کاٹا ہے مطب یہ کہ ہو سکتا ہے کہ ان کی بیماری کی بظاہر وجہ زکام ہو۔

چچڑ کے کاٹنے سے آپ کے جسم پر سوزش ہو جاتی ہے اور اس قسم کے داغ دھبے دکھائی دے سکتے ہیں

،تصویر کا ذریعہYen Lau

،تصویر کا کیپشن

ین کہتی ہیں کہ اس مرض سے پہلے تک وہ ایک بھرپور زندگی جی رہی تھیں

اعداد و شمار کے مطابق برطانیہ میں 25 فیصد کیسز سکاٹ لینڈ میں ہیں۔

پروفیسر لمبرٹ کہتے ہیں کہ اس مرض کے خطرات کو کم کرنے کے لیے اہم چیز احتیاط ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ جب آپ باہر جائیں تو اپنے آپ کو ڈھانپ جائیں اور دھوپ سے بچنے کی کریم لگائیں اور جب آپ باہر گھوم کر آئیں تو اپنے جسم کا جائزہ لیں۔

مشرقی یورپ میںبسنے والے لوگ کسی بھی دورے سے واپسی پر اہنے بچوں کا اور اپنا معائنہ کرتے ہیں کہ کہیں انھیں اس دوران چیچڑ نے تو نہیں کاٹ لیا۔

اگر کسی کو اپنے جسم پر چچڑ دکھائی دیں تو اسے بہت احتیاط سے اس کیڑے کو اپنے جسم سے الگ کرنا چاہیے تاکہ اس کا کوئی حصہ انسانی جلد میں نہ چلا جائے۔

پروفیسر لمبورٹ کہتے ہں کہ لوگوں کو چاہیے کہ اپنے جسم پر کسی بھی داغ دھبے اور سوزش کو چیک کریں اور اگر کچھ ماہ بعد بھی زکام کی علامات ہوں تو فوری طور پر طبی امداد حاصل کریں۔

ین کہتی ہیں کہ انھوں نے `گینیا پگ` کی ریسرچ کے لیے اپنی شمولیت کی پیشکش کی ہے اور اس کے علاوہ انھوں نے اپنی بیماری کے علاج کے لیے ریسرچ میں اپنے آپ کو وقف کیا ہے۔

وہ لوگوں سے اپیل کرتی ہیں کہ وہ چیچڑ کے کاٹنے کے ممکنہ خطرات سے خبردار رہیں اور اگر کوئی بھی مسئلہ ہو تو فوراً طبی امداد حاصل کریں۔

بیکٹریا جسے لچڑ منتقل کرتے ہیں اور وہ لیمے نامی مرض اور اس سے ملتے جلتے انفیکشنز کی وجہ بنتا ہے۔

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

بیکٹریا جسے لچڑ منتقل کرتے ہیں اور وہ لیمے نامی مرض اور اس سے ملتے جلتے انفیکشنز کی وجہ بنتا ہے۔

ین کہتی ہیں کہ ان کی زندگی اس بیماری سے پہلے ایک بھرپور زندگی تھی۔

وہ کہتی ہیں میر 11 سالہ کرئیر تھا اور میں نے ایک بھرپور اور متحرک زندگی گزاری۔

وہ کہتی ہیں کہ غیر معمولی طور پر میری زندگی میں کچھ برے دن بھی تھے لیکن میں نے ہمیشہ اچھے لمحات پر توجہ دی ہے۔

BBCUrdu.com بشکریہ
You might also like

Comments are closed.