پاکستان ایگریکلچرل ریسرچ کونسل (PARC) کے چیئرمین ڈاکٹر غلام محمد علی نے کہا ہے کہ پاکستان کے پاس چائے پیدا کرنے کیلئے ڈیڑھ لاکھ ایکڑ سے زیادہ موزوں رقبہ موجود ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر یہاں ایک قومی وژن اور مشترکہ پالیسی کے تحت چائے کے باغات لگا دیے جائیں تو پاکستان چائے کی مد میں سالانہ 60 کروڑ ڈالر بچا سکتا ہے۔
ان خیالات کا اظہار انہوں نے نیشنل ٹی اینڈ ہائی ویلیو کراپس ریسرچ انسٹیٹیوٹ (این ٹی ایچ آر آئی) شنکیاری میں پاکستان میں پیدا ہونے والی چائے کا قومی دن منانے کی تقریب میں بطور مہمان خصوصی خطاب کرتے ہوئے کیا۔
این ٹی ایچ آر آئی شنکیاری میں منعقد ہونے والی یہ تقریب ایگری ٹورازم ڈیولپمنٹ کارپوریشن آف پاکستان (اے ٹی ڈی سی) کی ان کوششوں کا حصہ تھی جس کے تحت پاکستان میں پیدا ہونے والی قدرتی اشیاء کا قومی دن منا کر ان کو ملک کی ثقافتی تاریخ کا حصہ بنانا ہے۔
اپنی گفتگو جاری رکھتے ہوئے ڈاکٹر محمد علی نے کہا کہ پاکستان میں ریسرچ کے اداروں نے اپنا کردار ادا کرنے میں کوئی کمی نہیں کی لیکن ادارہ جاتی سطح پر پالیسی اور عملی کام کی تقسیم میں کمزوری کے باعث مطلوبہ بھرپور نتائج حاصل نہیں ہو پاتے۔
انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان آج بھی قدرتی ذرائع سے حاصل ہونے والا اپنا 30 ملین ہیکٹر فٹ میٹھا پانی سالانہ جمع کرنے سے قاصر ہے حالانکہ اس کے پاس ابھی بھی 85 لاکھ ہیکٹر رقبہ ایسا موجود ہے جسے قابل کاشت بنایا جا سکتا ہے۔
انہوں نے تقریب کے شرکاء پر زور دیا کہ سب کو ملکر پاکستان میں چائے کی کاشت اور اس کی مارکیٹنگ کو باقاعدہ بنانے کیلئے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔
تقریب سے خطاب کرتے ہوئے اے ٹی ڈی سی کے بانی طارق تنویر نے کہا کہ ان کی تنظیم کی کوششوں سے پاکستان میں پیدا ہونے والی یا بنائی جانے والی 100 مختلف اشیاء کے قومی دن منائے جا رہے ہیں تاکہ قوم کے اندر اپنی مصنوعات کے بارے میں آگاہی پیدا کرکے اسے قومی میلوں کی فہرست میں اضافے اور اس کے ساتھ اندرون ملک سیاحت کے نئے مواقع کا ذریعہ بنا دیا جائے۔
طارق تنویر نے مزید وضاحت کی کہ پاکستان میں مختلف پیشوں کے حامل افراد کے بچے اپنے والدین کا پیشہ اختیار کر رہے ہیں لیکن کسان کا بچہ کسان بننے سے گریز کر رہا ہے، اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اس کیلئے زراعت کی پریکٹس میں محنت کے بالمقابل معاشی ترقی کے زیادہ امکانات موجود نہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اس لیے ضروری ہے کہ روایتی زراعت کے ساتھ اس کیلئے ایگری ٹورازم سے آمدنی میں اضافے کا موقع فراہم کرنے کیلئے اقدامات اٹھائے جائیں تاکہ پاکستان سے تعلق رکھنے والے اندرونی سیاح بھی صرف مخصوص علاقوں تک ہی محدود نہ رہیں بلکہ وہ زراعت سے وابستہ ٹورازم کی سہولتوں کو بھی اپنے سیاحتی وقت کا حصہ بنائیں۔
علاوہ ازیں اس تقریب میں یورپین دارالحکومت برسلز میں قائم پاک-بینیلکس اوورسیز چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدر نے بھی شرکت کی جو ان دنوں پاکستان میں بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کیلئے کاروباری مواقع میں سرمایہ کاری کے عملی اور حقیقی مواقع کے جائزے کیلئے موجود ہیں۔
Comments are closed.