پی ٹی وی اور اے آر وائی کی متنازعہ اور مبینہ طور پر غیر قانونی شراکت داری کی اندرونی کہانی جیو نیوز نےحاصل کرلی، ہوشربا انکشاف سامنے آئے ہیں۔
پی ٹی وی نے اے آر وائی کنسورشم کو اس وقت براڈکاسٹنگ میں حصہ دار بنایا جب اس کے پاس کوئی اسپورٹس چینل تھا ہی نہیں، پی ٹی وی کا بورڈ آف ڈائریکٹرز سارے معاملے سے لاعلم تھا، پیپرا قوانین کی خلاف ورزی کی گئی، پی ٹی وی نے معاہدے کی ٹرمز اینڈ کنڈيشنز عدالت میں بھی پیش نہیں کیں۔
عوامی ٹیکس اور شہریوں سے بجلی کے بل کی مد میں ملنے والی لائسنس فیس سے چلنے والے سرکاری نشریاتی ادارے پی ٹی وی کو، ایک نجی نشریاتی ادارے اے آر وائی کو ناجائز فائدہ پہنچانے کیلئے تباہ کیا جارہا ہے۔ جیو کو موصول ہوشربا تفصیلات میں معلوم ہوتا ہے کہ کس طرح ایک منظور نظر نجی ادارے، اے آر وائی کو فائدہ پہنچانے کیلئے ملکی خزانے تک کو نقصان پہنچایا جارہا ہے۔
جیو کو موصول تفصیلات کے مطابق یہ سارا کھیل اس وقت شروع ہوا جب اگست 2021 میں پی ٹی وی نے آئی سی سی براڈکاسٹنگ رائٹس میں شراکت داری کیلئے ٹینڈر جاری کیا جس میں میں پی ایس ایل کا ذکر نہ تھا۔ یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ اس موقع پر اے آر وائی کنسورشم کو آئی سی سی براڈ کاسٹنگ میں حصہ بنایا گیا جب اس کے پاس نہ کوئی اسپورٹس چینل تھا اور نہ ہی اس کا کوئی لائسنس، اس وقت اے اسپورٹس کا بھی کوئی وجود نہ تھا، جبکہ اس سارے معاملے سے پی ٹی وی کا بورڈ آف ڈائریکٹرز بھی لاعلم رہا۔
براڈکاسٹنگ رائٹس میں شراکت داری کے موقع پر پی ٹی وی اسپورٹس نے اپنے ڈائریکٹرز کو کہیں اے اسپورٹس کے بارے میں نہیں آگاہ کیا بلکہ صرف ٹین اسپورٹس کے ساتھ دکھانے کے منظوری لی گئی، بعد میں خاموشی سے اے اسپورٹس کو بھی شراکت دار بنالیا گیا جو سارا عمل بدنیتی پر مبنی نظر آتا ہے اور اس نے کئی سوالات کو جنم دیا ہے۔
سب سے اہم سوال یہ کہ پی ٹی وی اسپورٹس نے کیوں ایک ایسے ادارے کو اس وقت اپنا شراکت دار اور آمدن میں حصہ دار بنایا جب اسکا وجود ہی نہ تھا۔
پی ٹی وی، جس کی فطری طور پر زیادہ ویورشپ، ریٹنگ اور آمدن ہے، کسی نا تجربہ کار اور نومولود ادارے کے ساتھ ایسی شراکت کیوں کرے؟ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ پی ٹی وی اسپورٹس کا ویورشپ شیئر 47 فیصد ہے۔
اس سارے عمل سے پاکستان کے ریاستی ادارے پی ٹی وی اور قومی خزانے کو اربوں کا نقصان ہوا ہے۔
بات یہاں ختم نہیں ہوتی۔ 23 دسبر 2021 کو پی ایس ایل براڈکاسٹنگ رائٹس کی بولی ہوتی ہے اور اس میں بھی پی ٹی وی، اے آر وائی کو نوازنے کیلئے مزید بے ضابطگیاں اور نقصان برداشت کرنے کی راہ ہموار کرتا ہے۔ اس بار پی ٹی وی اگست 2021 میں جاری کیے گئے اسی خلاف ضابطہ ایکسپریشن آف انٹرسٹ کا سہارا لیتا ہے جس میں پی ایس ایل کا کہیں کوئی تذکرہ ہی نہ تھا۔
اس بار پی ٹی وی نہ صرف خلاف پیپرا قوانین کیخلاف کام کرتا ہے بلکہ غلط بیانی بھی کرتا ہے۔ پی ٹی وی نے اگست 2021 کے جس ایکسپریشن آف انٹریسٹ کا سہارا لے کر اے آر وائی کو نوازی کی کوشش کی اس کے تحت پی ٹی وی کا معاہدہ گروپ ایم اور اے آر وائی کے کنسورشم سے تھا، مگر پی ایس ایل کے موقع پر پارٹی بدل گئی اور صرف اے آر وائی سے کنسورشم کیا گیا۔
اور اس حقیقت نے ہی سارے معاملہ سے پردا اٹھا دیا ہے، پہلی حقیقت یہ کہ اگست 2021 کا ٹینڈر صرف ورلڈ کپ کیلئے تھا۔ دوسری یہ کہ پی ایس ایل کیلئے پی ٹی وی اور اے آر وائی کی شراکت پیپرا قوانین کے خلاف تھی۔
قابل ذکر بات یہ ہے کہ عوامی ٹیکس پر چلنے والے پی ٹی وی نے اگست 2021 کے معاہدے کی تفصیلات بھی پیش نہیں کی کہ آیا اس معاہدے میں اے اسپورٹس کا ذکر موجود ہے یا نہیں۔ سرکاری ادارے نے اس کی ٹرمز اینڈ کنڈیشنز عدالت میں بھی پیش نہیں کی۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پی ٹی وی نے یہ معاہدہ کیوں چُھپا رکھا ہے۔ جیو کے پاس موجود دستاویزات سے معلوم ہوتا ہے کہ اگست کے اس ایکسپریشن آف انٹریسٹ میں پاکستان سپر لیگ کے ساتویں اور آٹھویں ایڈیشن کے نشریاتی حققق شامل نہیں تھے۔
اب سوال یہ ہی ہے کہ پی ٹی وی نے کس کی ایما پر ایک متنازعہ اور مبینہ طور پر غیر قانونی شراکت داری کرکے نجی ادارے اے آر وائی کو کروڑوں کا فائدہ اور ملکی خزانے کو بھاری نقصان پہنچایا۔
Comments are closed.