اسلام آباد: عدالت عالیہ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف اپنی نیک ثابت کرے، پارلیمنٹ میں جائے، ملک میں سیاسی استحکام ختم کرے۔
پی ٹی آئی کے 10 ارکان قومی اسمبلی کی جانب سے استعفے منظور کیے جانے کے طریقہ کار کے خلاف درخواست پر سماعت کرتے ہوئے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ عدالت پارلیمنٹ کی بالادستی کو نیچا دکھانے والے کسی پٹیشن کی سماعت نہیں کرے گی۔ ایسا کس ملک میں ہوتا ہے کہ کوئی کہے میری مرضی کے مطابق جاؤ تو آئین مانتے ہیں ورنہ نہیں مانتے۔
پی ٹی آئی کے درخواست گزار ارکان قومی اسمبلی کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے دلائل دیتے ہوئے عدالت کو بتایا کہ آرٹیکل 64 کے تحت استعفے منظور کرنے کے پراسس کو مکمل نہیں کیا گیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہمارے استعفے مشروط تھے اور اگر وہ اجتماعی طور پر تسلیم نہیں کیے گئے تو پھر ہم قومی اسمبلی کے ارکان ہیں۔
عدالت نے استفسار کیا کہ پہلے یہ بتائیں کہ پارٹی کی پالیسی کے خلاف ہیں، کیا پارٹی نے ان کے خلاف ایکشن لیا۔ اس پٹیشن کا مقصد کیا ہے ؟ کیایہ پارٹی پالیسی ہے ؟ ۔پہلےیہ پٹیشنرز اپنی نیک نیتی ثابت کریں۔ پارلیمنٹ کے معاملات میں عدالت مداخلت نہیں کرتی۔ وکیل علی ظفر نے عدالت کو بتایا کہ پٹیشنرز پارٹی پالیسی کے ساتھ ہیں، اس کے خلاف نہیں۔ عدالت نے استفسار کیا تو پھر یہ کیوں وہاں جانا چاہتے ہیں؟ یہ سیاسی معاملات ہیں اور ان کے حل کا فورم پارلیمنٹ ہے۔
چیف جسٹس نریمارکس دیے کہ آپ کو ان مسائل کے حل کے لیے سیاسی جماعتوں سے ڈائیلاگ کرنے چاہییں۔ کیایہ مستعفی ارکان واقعی پارلیمنٹ میں جا کر عوام کی خدمت کرنا چاہتے ہیں؟ جن کے استعفے منظور نہیں ہوئے، ان کو تو پارلیمنٹ میں ہونا چاہیے۔
پی ٹی آئی وکیل بیرسٹر علی ظفر نے عدالت کو بتایا کہ ہمارا مؤقف ہے کہ اسپیکر نے اپنا آئینی فریضہ نہیں نبھایا۔ کُل 123 ارکان نے استعفے دیے تھے، سب کو منظور ہونا چاہیے تھا۔آڈیو لیک میں سامنے آچکا کہ کیسےصرف 11ارکان کے استعفے منظور کیے گئے۔ ہم نے مشروط استعفے دیے تھے۔ ہمارا سیاسی مقصد تمام 123نشستیں خالی کرنا تھا۔ اگر ہمارا وہ مقصد پورا نہیں ہوا تو ہم سمجھتے ہیں ابھی سب ایم این اے ہیں۔
دوران سماعت چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ان 10 اراکین اسمبلی کے بیانات میں تضادات ہیں۔یہ بیان حلفی دے دیں ہم پارٹی پالیسی کو نہیں مانتے تو کیس سن لیتے ہیں۔ آپ کا کیس یہ ہے کہ آپ سپریم کورٹ کا بھی فیصلہ نہیں مانتے ۔ آپ کہتے ہیں اسمبلی توڑ دی تھی تو اب وہ ختم ہے ۔ جو آپ ڈائریکٹ نہیں کر سکتے وہ اس کورٹ کے ذریعے ان ڈائریکٹ کروانا چاہتے ہیں۔سیاسی جماعت کہتی ہے نہ سپریم کورٹ کے فیصلے کو مانتے ہیں نہ پارلیمنٹ کو۔پٹیشنر کے کیس کو دیکھ کر تو لگتا ہے کہ اسپیکر نے ٹھیک کیا ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پارلیمنٹ کی بالادستی کو نیچا دکھانے والی کسی پٹیشن کو نہیں سنیں گے۔123 اراکین اسمبلی نے خود کہا سپریم کورٹ کے فیصلے کو نہیں مانتے، پارلیمنٹ کو نہیں مانتے، استعفا منظور کریں۔ وکیل پی ٹی آئی بیرسٹر علی ظفر نے عدالت کو بتایا کہ بیان حلفی جمع کرانے کے معاملے پر بھی کچھ وقت درکار ہو گا۔عدالت نے بغیر کسی حکم کے کیس غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کردیا۔
Comments are closed.