جمعرات 24؍ربیع الثانی 1445ھ9؍نومبر 2023ء

پی ٹی آئی انٹرا پارٹی انتخابات، انتخابی نشان کیس، فیصلہ محفوظ

پشاور ہائی کورٹ نے پی ٹی آئی انٹرا پارٹی انتخابات، انتخابی نشان کے معاملے اور الیکشن کمیشن کی درخواست پر دلائل مکمل ہونے پر فیصلہ محفوظ کر لیا۔

پشاور ہائی کورٹ کے جسٹس اعجاز خان نے درخواست کی سماعت کی۔

دورانِ سماعت الیکشن کمیشن کے وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہ الیکشن کمیشن کی ہائی کورٹ کے فیصلے پر نظرِ ثانی کی استدعا ہے، الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کو نوٹس جاری کیا، انٹرا پارٹی الیکشن پی ٹی آئی نے صحیح طریقے سے نہیں کرائے، الیکشن کمیشن کے اختیارات پر سوال اٹھائے گئے، کہا گیا کہ الیکشن کمیشن کا فیصلہ غیر آئینی ہے، سنگل بینچ نے انتخابی نشان سے متعلق الیکشن کمیشن کا فیصلہ معطل کیا، الیکشن کمیشن کو سنے بغیر حکمِ امتناعی جاری کیا گیا، الیکشن کمیشن اس میں فریق تھا اس کو نہیں سنا گیا، وفاقی حکومت کیس میں فریق ہی نہیں ہے، الیکشن کمیشن ایک با اختیار ادارہ ہے، اسے اپنے فیصلے کرنے کا اختیار ہے، انہوں نے جو ریلیف دیا وہ پورا فیصلہ ہے اس کے بعد کچھ نہیں بچا، الیکشن کمیشن کو سنے بغیر ایسا فیصلہ نہیں دیا جا سکتا، عدالت نے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل اور ڈپٹی اٹارنی جنرل کو سنا، ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل اور ڈپٹی اٹارنی جنرل صوبائی اور وفاقی حکومت کے نمائندے ہیں، پی ٹی آئی نے لاہور ہائی کورٹ میں بھی درخواست دائر کی، ایک عدالت منتخب کی تو پھر دوسری میں نہیں جا سکتے، اس پر سپریم کورٹ کے فیصلے بھی ہیں۔

بلا پی ٹی آئی کے پاس رہے گا یا نہیں، پشاور ہائیکورٹ میں الیکشن کمیشن کی نظرثانی اپیل پر ڈویژن بینج آج سماعت کرے گا۔

جسٹس اعجاز خان نے سوال کیا کہ اس کیس میں درخواست گزار پارٹی سے کوئی موجود ہے؟

الیکشن کمیشن کے وکیل نے جواب دیا کہ ہمیں کوئی نظر نہیں آ رہا، یہ خبر تو پورا دن نیوز چینلز پر چلی ہے، مجھے نہیں لگتا کہ ان کو یہ پتہ نہیں ہو گا کہ کیس سماعت کے لیے مقرر ہے، ہماری استدعا ہے کہ 26 دسمبر کا آرڈر واپس لیا جائے، ڈویژن بینچ قائم کیا جائے تاکہ کیس کی سماعت صحیح طریقے سے ہو سکے، دونوں پارٹیوں کو سننے کے بعد فیصلہ کیا جائے۔

ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ ہم اس کیس میں فریق نہیں بننا چاہتے، ہماری نگراں صوبائی حکومت ہے، ہمارے لیے تمام سیاسی جماعتیں برابر ہیں، ہمارا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے، ہمیں اس کیس سے نکالا جائے، اگر ہمیں نوٹس جاری کیا جاتا ہے تو پھر عدالت کی معاونت کریں گے۔

جسٹس اعجاز خان نے استفسار کیا کہ وفاقی حکومت کا بھی یہی مؤقف ہے؟

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ جی ہمارا بھی یہی مؤقف ہے۔

الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ آرٹیکل 199 کے تحت ہائی کورٹ صرف صوبے تک فیصلہ کر سکتی ہے، انٹرا پارٹی انتخابات پورے ملک کے لیے ہوئے ہیں۔

دلائل مکمل ہونے پر عدالت نے فیصلہ محفوظ کر لیا۔

بشکریہ جنگ
You might also like

Comments are closed.