پِگ بُچرنگ فراڈ: ’ہم نے لوگوں سے کیسے لاکھوں ڈالر لوُٹے‘
- مصنف, ژوئن فینج اور بی بی سی آئی
- عہدہ, بی بی سی تحقیقی ٹیم
حالیہ برسوں میں دنیا بھر میں لوگ انٹرنیٹ پر ایک فراڈ کا شکار ہو کر ہزاروں لاکھوں ڈالر گنوا چکے ہیں۔ ’پِگ بُچرنگ رومینس سکیم‘ نامی اس آن لائن فراڈ کا شکار بننے والے لوگوں کو سب سے پہلے اچانک کسی خوبرو مرد یا حیسن و جمیل خاتون کی طرف سے دوستی کا پیغام آتا ہے اور وہ ایک چنگل میں پھنس جاتا ہے جہاں لوگوں کو’محبت کا فریب دیکر سؤروں کی طرح ذبح ‘ کر دیا جاتا ہے۔
لیکن سکرین پر نظر آنے والے حسین چہروں کے پیچھے اصل میں ایک تاریک دنیا آباد ہے جہاں سادہ لوح لوگوں کو دھوکہ دینے والے خود انسانی سمگلنگ کا شکار ہو چکے ہوتے ہیں۔ یہ لوگ جنوب مشرقی ایشیا میں کسی جیل نما جگہ پر بیٹھ کر انٹرینیٹ پر نئے شکار کی تلاش میں لگے رہتے ہیں۔
بی بی سی کی عالمی سروس کی ایک تحقیق کی بدولت ہمیں یہ دیکھنے کا موقع ملا ہے کہ ان جیل نما احاطوں میں بیٹھے افراد پر خود کیا گزرتی ہے۔ اس آن لان فراڈ کے پس پردہ تاریک دنیا کی کہانی ہمیں ایک ایسے ہی گروہ کے سابق سرغنہ نے بتائی ہے جس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ انٹرنیٹ پر لوگوں کو ورغلانے کے لیے کیسی کیسی ترکیبیں استعمال کی جاتی ہیں۔
جب ژیاؤزوئی خود اس فراڈ کا حصہ تھے تو انھیں لگتا تھا کہ ان کا سب سے بڑا اثاثہ ان کی بھاری بھرکم اور رعب دار آواز ہے۔ ان کے بقول جب وہ لوگوں سے فون پر بات کرتے تھے تو ان لوگوں سے جو چاہتے کروا لیتے تھے۔
اس دھوکہ دہی کا شکار بننے والے لوگوں کو ژیاؤزوئی اور ان کے ساتھی پیٹھ پیچھے ’سور‘ کہا کرتے تھے جن کو ذبح کیا جانا ہوتا تھا۔ ژیاؤزوئی کا کام ان لوگوں کو ’ذبح‘ کرنے سے پہلے ’کھلا پلا کر موٹا‘ کرنا ہوتا تھا، یعنی ان سے پیار محبت کی باتیں کر کے کرپٹو کرنسی کی جعلی سکیموں میں سرمایہ کاری کروانا۔
ژیاؤزوئی کا کہنا تھا کہ اس فراڈ ’کی کنجی یہ ہے کہ آپ لوگوں کے جذبات سے کھیلنا جانتے ہوں۔‘
20 سالہ ژیاؤزوئی کا تعلق چین سے ہے لیکن جب انھوں نے بی بی سی بات کی اس وقت وہ کمبوڈیا کے درالحکومت پنوم پن میں کسی محفوظ جگہ پر مقیم تھے۔
ژیاؤزوئی نے ڈیزائنر برانڈ ’گوچی‘ کا ایک نقلی پاجامہ پہنا ہوا تھا، ان کے پاؤں میں ہوائی چپل تھی اور ہر وقت ہونٹوں یا انگلیوں میں ایک سگریٹ۔
ژیاؤزوئی کا کہنا تھا کہ وہ کئی برسوں میں لوگوں سے لاکھوں ڈالر بٹور چکے تھے اور اس کام میں انھیں اتنی مہارت حاصل ہو چکی تھی کہ انھوں نے ایک کتابچہ بھی لکھا جس میں انھوں نے بتایا کہ لوگوں کو میٹھی میٹھی باتیں کر کے کیسے پھانسا جاتا ہے۔
’میں نے اپنے کتابچے میں بتایا ہے کہ آپ کے پاس کوئی ایسی کہانی ضرور ہونی چاہیے جسے سن کر دوسرے شخص کا دل خون کے آنسو روئے اور اس میں ’ماں والا پیار‘ جاگ جائے۔
وہ بتاتے ہیں کہ ان کا ایک پسندیدہ ترین پروفائل وہ تھا جس میں وہ خود کو ایک نہایت کامیاب بزنس مین کے طور پر پیش کرتے تھے، ایک ایسی کاروباری شخصیت جس نے سب کچھ اپنے بل بوتے پر حاصل کیا اور پھر ان کی سابقہ بیوی نے کسی دوسرے شخص کے عشق میں ان سے دھوکہ کر دیا تھا۔ ژیاؤزوئی بتاتے ہیں کہ بہت سی خواتین اس کہانی سے متاثر ہو کر ان کے جال میں پھنس جاتی تھیں۔
ژیاؤزوئی چار برس تک انٹرینٹ پر فراڈ کرنے والے گروہوں کے لیے کام کرتے رہے
آن لائن پر کچھ پیغامات کے تبادلے کے بعد اکثر یہ ہوتا تھا کہ ژیاؤزوئی فون اٹھا کر اپنے شکار سے باتیں شروع کر دیتے اور اپنی دلفریب گفتگو سے اسے اپنا گرویدہ بنا لیتے۔
’ہمارے کاروبار میں‘ اس قسم کی دلفریب گفتگو کو ’ورڈ تھراپی‘ یا ’ الفاظ سے ٹکور‘ کرنا کہتے ہیں۔
آن لائن فراڈ کی زبان میں ژیاؤزوئی جیسے دھوکہ بازوں کو ’کتے‘ کہا جاتا ہے۔ ان لوگوں کو اپنا ’شکار‘ زیادہ تر ڈیٹِنگ سائٹس، سوشل میڈیا یا دوسری مسیجِنگ ایپس پر ملتا ہے۔
عموماً ہم لوگ اپنے آن لائن پروفائل میں خود کو ایک خوش شکل، امیر اور ہمدرد شخص کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ ۔۔۔ نے بتایا کہ ان جعلی آن لائن پروفائلز کے لیے جو تصاویر استعمال کی جاتی ہیں وہ تمام یا تو انٹرنیٹ سے خریدی جاتی ہیں یا سوشل میڈیا انفلوئنسرز سے چرائی جاتی ہیں۔
ژیاؤزوئی نے بتایا کہ ان کے کچھ سابقہ ساتھی اپنے شکار سے ویڈیو چیٹ کے دوران ڈیپ فیک کا استعمال بھی کرتے ہیں، جس سے دیکھنے والا زیادہ متاثر ہو جاتا ہے اور اسے لگتا ہے کہ وہ واقعی اسی شخص سے بات کر رہے ہیں جو ویڈیو میں دکھائی دے رہا ہے۔
جوں جوں باتیں آگے بڑھتی ہیں، تو بات کرپٹو کرنسی میں پیسہ لگانے کی ہوتی ہے، یوں لوگوں سے جلعی سکیموں میں سرمایہ کاری کروا لی جاتی ہے۔
ژیاؤزوئی کہتے ہیں کہ آپ اپنی باتوں سے ’ایک جال بنتے ہیں۔ مثلاً اگر میرا شکار بیجنگ میں ہے تو اس خاتون سے کہوں گا کہ میں بھی اس کے ساتھ بیجنگ میں رہنا چاہتا ہوں۔ لیکن بیجنگ میں ایک فلیٹ کی قیمت لاکھوں ڈالر ہے۔ اس لیے ہمیں مل کر بہت زیادہ محنت کرنا ہو گی تاکہ ہم اتنا زیادہ پیسہ بنا سکیں۔‘
یہ سنہ 2022 کی بات ہے جب جوئس تقریباً اسی قسم کی کہانی سن کر دھوکے میں آ گئی تھیں۔ تب 30 سالہ جوئس ایک دفتر میں کام کرتی تھیں۔ انھیں بھی انٹرنیٹ پر کسی سے محبت ہوگئی تھی۔ اس شخص کا کہنا تھا کہ وہ شنگھائی میں رہتا ہے لیکن جوئس کے ساتھ رہنے کے لیے بیجنگ منقتل ہونا چاہتا ہے۔
’لگتا تھا کہ وہ بہت اکیلا ہے، بالکل میری طرح، ایک بڑے شہر میں رہنے والا محنتی شخص۔‘
’میں کبھی سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ وہ دھوکہ باز نکلے گا۔‘
جوئس کہتی ہیں کہ اس فراڈ کا شکار بننے کی ایک بڑی معاشرتی دباؤ تھا جہاں 27 سال سے زیادہ کی غیر شادی شدہ ِخواتین کو ’بچی کھچی‘ عورتیں سمجھا جاتا ہے
جوئس کو قائل کر لیا گیا کہ وہ اپنا پیسہ ایک انویسمنٹ اکاؤنٹ میں لگا دے اور پھر اسے یہ دھوکہ دیا گیا کہ انھیں اس سرمایہ کاری سے بہت منافع ہو رہا ہے۔ جب جوئس نے اپنی تمام جمع پونجی اس اکاؤنٹ میں ڈال دی تو ان سے کہا گیا کہ وہ بینک سے کچھ قرضے لیں تاکہ ان کا پیسہ اپنی جگہ محفوظ پڑا رہے۔ لیکن جب جوئس کو شک ہوا اور انھوں نے ’سرمایہ کاری سکیم‘ سے اپنے پیسے نکلوانے کی کوشش کی تو انھیں ناکامی کا منھ دیکھنا پڑا۔
مجموعی طور پر جوئس کو ایک لاکھ ڈالر کا نقصان ہوا، جس میں زیادہ حصہ اس پیسے کا تھا جو انھوں نے ادھار لیے تھے۔
’یہ وہ پہلا اور آخری موقع تھا جب میں نے اپنے والد کو روتے دیکھا تھا۔ میرے گھر والوں نے مجھے الزام دیا کہ ساری بے وقوفی میری تھی۔ میں بھی آنسوؤں سے رونے لگی۔‘
اگر جوئس اپنے قرضے واپس کرنے میں ناکام ہو جاتی ہیں تو ان کا نام بیلک لِسٹ میں آ جائے گا اور انہیں چین کے سوشل کریڈٹ سسٹم سے مزید پیسے نہیں ملیں گے۔ اس کے برے اثرات ان کی زندگی کے تمام پہلوؤں پر پڑیں گے۔ وہ جب سے اس آن لائن فراڈ کا شکار ہوئیں ہیں، جوئس نے اپنی ملازمت کے ساتھ ساتھ کچھ دوسرے کام بھی پکڑ لیے ہیں تاکہ وہ کچھ اضافی پیسے کما سکیں۔ وہ اب ملازمت کے ساتھ ساتھ کلاسیکی ڈانس بھی کرتی ہیں اور انٹر نیٹ پر لائیو سٹریمِنگ بھی کرتی ہیں۔
جوئس کہتی ہیں کہ اس فراڈ کا شکار بننے کی ایک بڑی وجہ وہ معاشرتی دباؤ تھا جہاں 27 سال سے زیادہ کی غیر شادی شدہ ِخواتین کو ’بچی کھچی‘ عورتیں سمجھا جاتا ہے
پِگ بُچرنگ سکیم‘ میں جن لوگوں کو سنہ 2017 میں سب سے پہلے نشانہ بنایا گیا تھا ان کا تعلق چین سے تھا۔ لیکن اس کے بعد سے یہ طریقہ واردات پوری دنیا میں پھیل چکا ہے اور ایشیا، یورپ اور امریکہ میں کئی لوگ اس جال میں آ چکے ہیں۔
اگرچہ چینی حکام نے ملک کی سرحدوں کے اندر تو اس فراڈ سائبر سکیم کے خلاف بڑی کارروائی کی ہے لیکن اس قسم کے گروہوں نے اپنی کارروائیاں جنوب مشرقی ایشیا کے دوسرے ملکوں میں شروع کر دی ہیں، جن میں خاص طور پر کمبوڈیا، لاؤس، میانمار، تھائی لینڈ اور فلپائن شامل ہیں۔
اور لگتا ہے کہ حال ہی میں یہ کارروائیاں ایشیا سے باہر، متحدہ عرب امارات اور جارجیا تک پھیل چکی ہیں۔
جس گروہ کے لیے ژیاؤزوئی کام کرتے تھے اس کا ٹھکانہ کمبوڈیا کا ساحلی شہر سیہانوکوِل تھا جہاں کے سفید ریتلے ساحل سیاحوں میں بہت مقبول ہوا کرتے تھے۔ لیکن حالیہ برسوں میں اس شہر میں کئی نئے جوا خانے بھی بن گئے ہیں، جو نہ صرف سیاحوں کی دلچسپی کا مرکز ہیں بلکہ ان ہی کسینوز کی آڑ میں آن لائن دھوکہ باز گروہ بھی اپنا کاروبار چلا رہے ہیں۔
کووِڈ کی وبا اور انٹریٹ پر غیرقانوی جوئے کے خلاف حکومتی اقدامات کے بعد بہت سے سرمایہ کار سیہانوکوِل سے نکل گئے ہیں اور اب یہاں ایک ہزار سے زیادہ کاروباری دفاتر اورعمارتیں ویران پڑی ہیں
جب ژیاؤزوئی سیہانوکوِل میں 40 افراد کا ایک گروہ چلا رہے تھے تو ان میں کچھ ایسے بھی تھے جنھیں غیر قانونی طور پر یہاں لا کر زبردستی یہ کام کروایا جا رہا تھا۔
’میں لوگوں کی خرید و فرخت کا کام بھی کرتا تھا۔‘
ژیاؤزوئی کا کہنا تھا کہ اس دھندے میں لوگوں کو ایک ملک سے دوسرے ملک سمگل کرنا معمول کی بات ہے۔
دیدی نامی شخص بھی ان افرد میں شامل ہیں جنھیں سیہانوکوِل میں قائم ایک گروہ نے سمگل کیا تھا۔
ان کے بقول ’یہاں تک کہ مجھے سمگل کرنے والے گروہ نے میرے سامنے دوسرے گروہ سے میری قیمت لگائی۔‘
دیدی کو بعد میں معلوم ہوا کہ انھیں 20 ہزار ڈالر میں فروخت کیا گیا تھا۔
30 سالہ دیدی چین میں ایک انٹرنیٹ کیفے پر ملازمت کرتے تھے اور پھر جب انھیں جنوری 2022 میں آن لائن گیمنگ کی ایک کمپنی میں ملازمت کا جھانسہ دیا گیا تو دیدی کا خیال تھا کہ یہ ایک اچھی ملازمت ثابت ہو گی۔
لیکن انھیں سمگل کر کے سہانوکوِل میں ہوانگ لی نامی کسینو کے پیچھے ایک بلند دیواروں والے کمپاؤنڈ میں پہنچا دیا گیا جہاں انھیں زبردستی انٹرنیٹ پر ایسے لوگوں کو ورغلانے کا کام دیا گیا جن سے یہ گروہ پیسے بٹور سکتا تھا۔
بی بی سی کی ٹیم اس بلند دیواروں والے کمپاؤنڈ میں قید دیدی سے رابطہ قائم کرنے میں کامیاب ہو گئی جہاں سے انھوں نے ویڈیو پیغامات کی شکل میں بتایا کہ ان پہ کیا گزر رہی ہے۔
ایک غسل خانے میں خفیہ طور پر ریکارڈ کی جانے والی ویڈیو میں دیدی نے سرگوشی میں کہا کہ ’انھوں نے مجھے بتا دیا ہے کہ اگر میں نے فرار کی کوشش کی تو وہ مجھے جان سے مار دیں گے۔
جب دیدی قید میں تھے تو باتھ روم میں چھپ کر ویڈیو ریکارڈ کرتے تھے
دیدی کو روزانہ 12 گھنٹے کام کرنا پڑتا تھا جس دوران انھیں انٹرنیٹ پر یورپ اور امریکہ میں کم از کم ایک سو افراد سے رابطہ کرنا ہوتا تھا۔ اگر وہ اپنا کام پورا کرنے میں ناکام رہتے تو انھیں سزا دی جاتی تھی، جس میں بجلی کا کرنٹ لگانا اور جسمانی تشدد بھی شامل تھا۔
ہوانگ لی نامی کسینو اور اس کی عمارت پر سخت پہرہ ہوتا تھا اور ہر کھڑکی پر آہنی سلاخیں لگی ہوئی تھیں
دیدی جیسے ہزاروں ایسے مرد اور خواتین ہیں جنھیں دھوکہ دیکر سائبر فراڈ کے کاروبار میں استعمال کیا جا رہا ہے۔ ماضی میں سائبر سکیم کے دنیا میں کام کرنے والے ایک اور شخص نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ اسے سڑک سے اغوا کر کے ایک جگہ سے دوسری جگہ سمگل کیا گیا اور پھر اس کام پر لگا دیا گیا تھا۔
چینی باشندوں کو اغوا کر کے بھتے کے طور پر سہانوکوِل کے جوا خانوں کی آڑ میں آن لائن فراڈ کا کام کروانا ایسی چیز ہے جو کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔اسی لیے یہاں کچھ لوگ ان چینی باشندوں کو ’چلتے پھرتے ڈالر‘ کہتے ہیں۔
ژیاؤزوئی کا کہنا تھا کہ انھیں بیس ہزار ڈالر کے عوض فروخت کیا گیا تھا
ژیاؤزوئی اپنے گروہ کے نائب سربراہ تھے لیکن انھوں نے بھی جب جرائم ہیشہ گروہوں کی حکم عدولی کی تو انھیں بھی سزا دی گئی اور جب انھوں نے تنخواہ بڑھانے کا مطالبہ کیا تو انھیں بری طری مارا پیٹا گیا۔
وہ بتاتے ہیں کہ جب انھیں ایک دوسرے گروہ کے ہاتھ فروخت کیا جا رہا تھا تو وہ آخر کار فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔ ژیاؤزوئی کہتے ہیں کہ انہوں نے جو کام کیے اس پر انھیں پچھتاوا ہے، لیکن ان کہنا تھا کہ ان کے سابقہ باس کو اگر اب بھی پتا چل جائے کہ وہ کہاں ہیں تو وہ مار دیا جائے گا۔
’اصل بات یہ ہے کہ مجھے اس کاروبار سے ہی نفرت ہے۔ میں اس فراڈ کا شکار بننے والے لوگوں کی چیخیں سن چکا ہوں۔ اب میں صرف ایک معمول کی زندگی گزارنا چاہتا ہوں۔‘
قید میں چار ماہ گزارنے کے بعد دیدی نے بھی ہمیں ایک الوداعی پیغام بھیجا تھا۔ انھوں نے لکھا تھا کہ ’میں اب مزید برداشت نہیں کر سکتا ۔۔ میں بالکل نہیں چاہتا کہ لوگوں کو نقصان پہنچاؤں۔۔۔ خدا حافظ۔‘
دیدی کے بقول ہوانگ لی میں کام کرنے والے ساری رات کام کرتے تھے اور ان کا ہدف یورپ اور امریکہ میں لوگوں کو نشانہ بنانا تھا
یہ پیغام بھیجنے کے بعد دیدی آدھے دن کے لیے انٹرنیٹ سے غائب ہو گئے۔ لیکن آخر کار وہ نمودار ہوگئے اور انھوں نے ایک امید افزا پیغام بھیجا ’ میں وہاں سے بحفاظت باہر نکل آیا ہوں۔‘
بعد میں انہوں نے ہمیں بتایا کہ وہ رات کی تاریکی میں اس کمپاؤنڈ سے فرار ہو گئے تھے۔ انھوں نے بتایا کہ وہ دیوار میں اس تنگ سوراخ سے نکلے جہاں ایک پرانا ایئر کنڈیشنر لٹک رہا تھا، اورتیسری منزل کی کھڑکی سے باہر چھلانگ لگا دی، اور پھر کسی طرح بڑی سڑک تک پہنچ گئے اور وہاں سے ٹیکسی پکڑ لی۔
فرار ہونے کے بعد دیدی پنوم پن میں ہی ایک محفوظ مقام پر رہے
لگتا ہے کہ اس قسم کے زیادہ تر گروہ ایسی محفوظ عمارتوں میں ہی بیٹھ کر کام کر رہے ہیں جن کے مالکان کے رابطے سیاسی اور کارباری اشرافیہ سے ہیں۔
بی بی سی کو یہ انکشاف کرنے میں مسئلہ نہیں کہ ہوانگ لی نامی کمپاؤنڈ کے مالک کمبوڈیا کے بزنس مین کوانگ لی ہیں۔
کوانگ لی سیہانوکوِل کی کسینو ایسوسی ایشن کے صدر بھی رہ چکے ہیں
کوانگ لی کی کاروباری سلطنت جائیداد کی خرید و فروخت، جوا بازی، ہوٹلوں اور تعمیراتی کمپنیوں سمیت کئی شعبوں تک پھیلی ہوئی ہے۔ انھیں ’اوکنہا‘ کے خطاب سے پکارا جاتا ہے اور یہ کمبوڈیا کے بادشاہ کی جانب سے دیا جانے والا سب سے بڑا اعزاز ہے۔ عوامی اور نجی تقریبات کی ایسی کئی تصاویر موجود ہیں جہاں کوانگ لی کو کمبوڈیا کے ممتاز سرکاری عہدیداروں کے ساتھ دیکھا جا سکتا ہے۔
ہوانگ لی کمپاؤنڈ کے اندر مزدوروں کی اسمگلنگ، جسمانی استحصال اور دھوکہ دہی کی کارروائیوں کے زبردست شواہد کے باوجود، کسی کو بھی گرفتار نہیں کیا گیا ہے اور نہ ہی کسی پر کوئی جرم عائد کیا گیا ہے۔ ہم نے مسٹر لی کے سامنے یہ الزامات رکھے تو انھوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔
ہم نے سیہانوکوِل کی پولیس سے بھی رابطہ کیا اور پوچھا کہ ہوانگ لی کمپاؤنڈ کے اندر کام کرنے والوں کے خلاف کوئی کارروائی کیوں نہیں کی گئی۔ انھوں نے بھی کوئی جواب نہیں دیا۔
آخری اطلاعات کے مطابق ژیاؤزوئی اور دیدی دونوں واپس چین پہنچ گئے ہیں، لیکن انٹر نیٹ پر ہزارہا افراد اس وقت بھی لوگوں کو دھوکہ دے کر ان سے پیسہ بٹور رہے اور اپنے اگلے شکار ’سؤر‘ کو ’ذبح‘ کرنے کے لیے چُھریاں تیز کر رہے ہیں۔
(اس رپورٹ کی تیاری میں مدد کرنے والے افراد کی شناخت خفیہ رکھنے کے لیے ان کے اصل نام ظاہر نہیں کیے گئے ہیں)
Comments are closed.