پشاور میں ٹرک آرٹ کا ایک ایسا ماہر بھی ہے جو اس آرٹ کو روایتی برتنوں پر منتقل کررہا ہے، پھول اور بیل بوٹوں سے مزین یہ برتن پسند تو کئے جارہے ہیں، مگر کورونا کے باعث اس کا کام بھی متاثر ہوا ہے۔
ٹرک آرٹ کے ماہر کا کہنا ہے کہ اگر حکومت اس کا ساتھ دے تو وہ اپنے فن کو بین الاقوامی سطح پر بھی منوا سکتا ہے۔
روایتی برتنوں پر شوخ اور گہرے رنگوں سے دلکش ڈیزائن بنانے والا اسماعیل بچپن سے ٹرکوں پر نقش نگار بناکر اپنی زندگی کی بھاگ دوڑ جاری رکھے ہوئے تھا، مگرکورونا وباء سے جہاں کئی کاروبار متاثر ہوئے وہیں ٹرک آرٹ کا کام بھی ماند پڑ گیا، جس کے بعد اسماعیل نے اس ہنر کو برتنوں پر منتقل کرنا شروع کر دیا۔
ٹرک آرٹ کے ہنر میں مہارت رکھنے والا اسماعیل پشاور کا رہائشی اور درجہ چہارم کا ملازم ہے۔ تعلیم کی قدر و قیمت سے بخوبی آشنا اس آرٹسٹ کی خواہش ہے کہ حکومت اسے رہائش کے لئے کوارٹر الاٹ کرے تاکہ یہ نہ صرف اپنے فن پر بھرپور توجہ مرکوز کر سکے بلکہ اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم کے زیور سے آراستہ کر سکے۔
ٹرک آرٹ کوئی باقاعدہ فن نہیں بلکہ ٹرکوں پر بننے والے تمام نقش نگار ٹرک آرٹسٹ کے ذہن کی اپنی تخلیق کردہ ہوتی ہیں۔ جو ڈائزین اس کے ذہن میں آتا ہے اسے وہ ٹرک کی باڈی پر منتقل کر دیتا ہے۔
ٹرک آرٹ کو پشاور کے ثقافتی برتنوں پر اتارنے والا اسماعیل کہتا ہے کہ اگر حکومت اس کے ہنر کو فروغ دے تو وہ نا صرف ملکی بلکہ غیر ملکی نمائشوں میں بھی ملک او قوم کا نام روشن کر سکتا ہے۔
Comments are closed.