پشاور میں پولیس لائنز مسجد کے ملبے سے مزید 9 افراد کی لاشیں نکال لی گئی ہیں جس کے بعد دھماکے میں شہید ہونے والوں کی تعداد 72 ہوگئی جبکہ 157 افراد زخمی ہوئے ہیں۔
شہداء میں ڈی ایس پی عرب نواز، 5 سب انسپکٹرز، مسجد کا پیش امام اور ملحقہ پولیس کوارٹر کی رہائشی خاتون بھی شامل ہے، دھماکے کے بعد ریسکیو کارروائیاں رات میں بھی جاری رہیں۔
ریسکیو اہلکاروں کے مطابق مسجد کے ملبے تلے سے اب بھی متعدد افراد کے دبے ہونے کا خدشہ ہے، بھاری مشینری سے ریسکیو آپریشن جاری ہے، پاک فوج کے ریسکیو دستے بھی امدادی کارروائیوں میں مصروف ہیں۔
سی سی پی او پشاور محمد اعجاز خان کا کہنا ہے کہ دھماکا بظاہر خودکش حملہ لگتا ہے، مبینہ خودکش حملہ آور کا سر بھی مل گیا ہے، ریسکیو آپریشن کے بعد ہی پتا چلے گا کہ دھماکا کس نوعیت کا تھا۔
محمد اعجاز خان کا مزید کہنا تھا کہ ہوسکتا ہے کہ حملہ آور پہلے سے ہی پولیس لائنز میں موجود ہو، یہ بھی امکان ہے کہ حملہ آور کسی سرکاری گاڑی میں بیٹھ کر آگیا ہو۔
آئی جی خیبرپختونخوا معظم جاہ انصاری کا کہنا ہے کہ پشاور پولیس لائن میں 2 ہزار سے زائد پولیس اہلکار اور 8 مختلف محکمے ہیں، عوام اور سائلین کی بڑی تعداد کا روزانہ آنا جانا ہوتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ پولیس لائن میں فیملی کوارٹرز ہیں، یہاں تعمیراتی کام بھی چل رہا تھا، مزدور روزانہ آتے جاتے تھے، سی سی ٹی وی کا جائزہ لیا جا رہا ہے، تحقیقات کے بعد حتمی رائے قائم کی جائے گی۔
رپورٹس کے مطابق کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان نے دھماکے کی ذمہ داری قبول کرلی ہے۔
دوسری جانب پشاور دھماکے کے27 شہداء کی نماز جنازہ ادا کر دی گئی ہے۔نماز جنازہ میں کور کمانڈر پشاور، آئی جی پولیس اور کمانڈنٹ ایف سی نے نماز جنازہ میں شرکت کی، پولیس کے دستے نے شہداء کو سلامی بھی پیش کی۔
Comments are closed.