پیر 8؍ربیع الاول 1445ھ25؍ستمبر 2023ء

پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیخلاف کیس: درخواست گزار کا جواب جمع

پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف کیس میں درخواست گزار راجہ عامر کے وکیل خواجہ طارق رحیم نے سپریم کورٹ میں جواب جمع کرا دیا۔

وکیل خواجہ طارق رحیم کی جانب سے استدعا کی گئی ہے کہ چیف جسٹس کے اختیارات کی تقسیم کا قانون پریکٹس اینڈ پروسیجر کالعدم قرار دیا جائے، عدلیہ کی آزادی کے قانون میں تبدیلی نہیں کی جا سکتی۔

جواب میں کہا گیا ہے کہ پارلیمنٹ کی عدالتی معاملات میں مداخلت اختیارات کی آئینی تقسیم کی خلاف ورزی ہے، پارلیمنٹ عام قانون سازی سے آرٹیکل 184/3 کے اختیار کا طریقہ تبدیل نہیں کر سکتی، پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون سے عدالتی امور کی انجام دہی تبدیل نہیں کی جا سکتی۔

درخواست گزار راجہ عامر کے وکیل خواجہ طارق رحیم نے کہا ہے کہ فل کورٹ 1980ء کے رولز میں ترمیم کر سکتی ہے، بلا شبہ پارلیمنٹ سپریم ہے، پارلیمنٹ سپریم کورٹ کے معاملات کو ریگولیٹ کرنے کی قانون سازی نہیں کر سکتی، درخواست گزاروں کے قانون چیلنج کرنے کے حق پر بھی سوال اٹھایا گیا، درخواست گزاران میں وکلاء اور صحافی ہیں، جو بنیادی حقوق کی خلاف ورزی پر قانون چیلنج کر سکتے ہیں،  ہائی کورٹس سپریم کورٹ سے متعلق قانون سازی دیکھنے کا فورم نہیں۔

دوسری جانب مسلم لیگ ق نے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف درخواستیں مسترد کرنے کی استدعا کر دی۔

ق لیگ کی جانب سے ایڈووکیٹ زاہد ایف ابراہیم نے جواب جمع کرا دیا۔

مسلم لیگ ق نے اپنے جواب میں استدعا کی ہے کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف درخواستوں کو مسترد کیا جائے، اس ایکٹ سے عدلیہ کی آزادی کو فروغ ملا ہے، پارلیمنٹ کا بنا قانون پریکٹس اینڈ پروسیجر آئینی ہے۔

مسلم لیگ ق کا کہنا ہے کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ عدلیہ کے اختیارات کے خلاف نہیں، قانون میں چیف جسٹس کے اختیار کو دو سینئر ججز کے ساتھ شیئر کیا گیا، قانون سے عدلیہ کے اختیار میں کمی نہیں اضافہ ہوا۔

واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے آج تک تمام فریقین کو تحریری جوابات جمع کرانے کا وقت دے رکھا ہے۔

بشکریہ جنگ
You might also like

Comments are closed.