پاکستان کے سابق سفیر ضمیر اکرم نے کہا ہے کہ پاکستان کی جوہری صلاحیت کے حصول کے پیچھے علاقائی یا بین الاقوامی چودھراہٹ کا حصول نہیں بلکہ اس کی بقاء کو درپیش حقیقی خطرہ تھا۔
ان خیالات کا اظہار انہوں نے آج یورپین پریس کلب برسلز میں اپنی کتاب "دی سیکیورٹی امپیریٹیو۔پاکستان کا نیوکلیئر ڈیٹرنس اینڈ ڈپلومیسی” کی تقریب رونمائی سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔
تقریب رونمائی کا میزبان سفارت خانہ پاکستان برسلز تھا۔ جس میں برسلز میں مقیم سفیروں، سفارتکار، دانشور اور تعلیمی اداروں کے نمائندوں نے شرکت کی۔
اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے سابق سفیر ضمیر اکرم نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ پاکستان کی جوہری ڈیٹرنس کے حصول کی پرعزم کوشش کسی وقار اور عظیم طاقت بننے کے عزائم کی وجہ سے نہیں بلکہ اس کے وجود کو درپیش شدید خطرے اور ابھرتے ہوئے سیکیورٹی چیلنجز سے متاثر ہے۔
انہوں نے اپنی کتاب کے تعارف میں اس بات پر زور دیا کہ ‘یہ کتاب نیوکلیئر ڈیٹرنٹ صلاحیت کے حصول کے لیے پاکستان کی قابل سفارت کاری کے ذریعے ادا کیے جانے والے اہم کردار کے بارے میں ایک پریکٹیشنر کی بصیرت فراہم کرتی ہے’۔
اس موقع پر یورپی یونین، بیلجیئم اور لکسمبرگ میں پاکستان کی سفیر آمنہ بلوچ نے اپنی گفتگو میں ضمیر اکرم کے اس بھرپور کردار کا اعتراف کیا جو انہوں نے بطور سفیر پاکستان کی نیوکلیئر ڈپلومیسی کو پیش کرنے اور آگے بڑھانے میں ادا کیا تھا۔
انہوں نے زور دے کر کہا کہ ایک دوسرے سے منسلک دنیا میں عالمی چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے باہمی تعاون کو فروغ دینے کی اشد ضرورت ہے۔
تقریب کے دوسرے حصے میں کتاب کی رونمائی کے بعد سامعین کے ساتھ سوال و جواب کی نشست ہوئی۔ جس میں سابق سفیر نے نیوکلیئر ڈیٹرنس کے مختلف پہلوؤں، اقوام متحدہ کی تخفیف اسلحہ کی مشینری کے مستقبل اور علاقائی اور عالمی سلامتی کے چیلنجوں سے نمٹنے کے راستے اور طریقوں پر اظہار خیال کیا۔
قبل ازیں تقریب کے آغاز میں قونصلر محمد عدیل نے ضمیر اکرم کا تعارف کراتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی فارن سروس میں ایک طویل اور شاندار کیریئر کے ساتھ ضمیر اکرم آرمز کنٹرول اور تخفیف اسلحہ ڈپلومیسی کے شعبے میں ایک قابل احترام اتھارٹی ہیں۔
ان کی آخری ذمہ داری جینیوا میں اقوام متحدہ اور بین الاقوامی تنظیموں میں پاکستان کے مستقل نمائندے بشمول تخفیف اسلحہ کی کانفرنس تھی۔ وہ اس وقت اسٹریٹجک پلانز ڈویژن کے مشیر کے طور پر خدمات انجام دے رہے ہیں۔
Comments are closed.