’پاکستان میں کیا رکھا ہے، اگر یورپ پہنچ گیا تو مستقبل محفوظ ہوجائے گا‘
- مصنف, محمد زبیر
- عہدہ, صحافی
’وہ کہتا تھا کہ پاکستان میں کیا رکھا ہے۔ سارا سارا دن کام کرتا ہوں مگر پھر بھی حالات نہیں بدل رہے ہیں۔ اگر یہاں رہا تو ویسے ہی سسک سسک کر مر جاؤں گا۔ اگر یورپ پہنچ گیا تو نہ صرف میرا مستقبل محفوظ ہوجائے گا بلکہ اپنے خاندان کا مستقبل بھی محفوظ کرلوں گا۔‘
یہ کہنا ہے ضلع راولپنڈی کے علاقے گوجر خان کے رہائشی نوجوان اسد نعیم کے دوست زوہیب رحمان کا۔
اسد نعیم گزشتہ دونوں لیبیا کے راستے یورپ پہنچنے کی کوشش میں کشتی کے حادثے میں ہلاک ہوگئے اور ان کے ہلاک ہونے کی اطلاع لیبیا میں موجود ایک پاکستانی ایجنٹ نے اہل خانہ کو دی تھی۔
لیبیا میں ہونے والے حادثے کی تصدیق پاکستانی وزارت خارجہ کے ترجمان نے بھی کی ہے۔ ترجمان کے مطابق حادثے میں چار پاکستانی ہلاک ہوئے ہیں۔
لیبیا میں حادثے کا شکار ہونے والی کشتی میں شیخوپورہ کے ایک خاندان کے دو کزن بھی سوار تھے، جن میں سے ایک ہلاک ہو گئے اور خاندان کے سربراہ بشارت علی کے مطابق دوسرا نوجوان اس وقت لیبیا کی پولیس کی تحویل میں ہے۔ بشارت علی بتاتے ہیں کہ ان کو ملنے والی اطلاعات کے مطابق ہلاک ہونے والے پاکستانیوں کی تعداد زیادہ ہے۔
لیبیا اور اٹلی میں دو الگ حادثات
واضح رہے کہ لیبیا اور اٹلی میں پیش آنے والے دونوں واقعات الگ الگ ہیں۔ دونوں واقعات میں یورپ جانے کے خواہشمند پاکستانیوں کی ہلاکتیں ہوئی ہیں۔
گھنٹے قبل پاکستان کی وزارت خارجہ کے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر بتایا گیا ہے کہ کچھ دیر پہلے، ایک اور حادثے میں تین پاکستانی لیبیا حادثے میں ہلاک ہوگئے ہیں۔ پاکستان میں لیبیا کا سفارت خانہ میتوں کو پاکستان پہنچانے کے انتظامات کررہا ہے۔
تاہم اسی واقعہ کے حوالے سے جاری کردہ پریس ریلیز میں کہا گیا ہے کہ ہلاکتیں چار ہیں۔
ٹوئٹر پر لیبیا حادثے کی اطلاع دینے کے ایک گھنٹے بعد پاکستانی دفتر خارجہ کے ترجمان کی جانب سے ایک اور ٹویٹ میں اٹلی حادثے کی اپ ڈیٹ دی گئی ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ 26 فروری کو اٹلی میں پیش آنے والے المناک حادثے میں دو پاکستانیوں کے ہلاک ہونے کی تصدیق ہوچکی ہے۔
بظاہر یہ دکھائی دیتا ہے کہ ابتداء میں دونوں حادثات کو ایک ہی سمجھا گیا جس کی وجہ شاید یہ ہے کہ دونوں حادثات تقریباً ایک آدھ دن کے و قفے سے پیش آئے۔ اٹلی میں حادثہ 26 فروری کو پیش آیا تھا جبکہ لیبیا میں حادثے کی درست تاریخ کی تصدیق ممکن نہیں ہوسکی ہے۔ جس کی وجہ یہ ہے کہ متاثرہ خاندانوں کو حادثے کی اطلاع الگ الگ تاریخوں پر ملی۔
بظاہر یہ دکھائی دیتا ہے کہ ابتداء میں دونوں حادثات کو ایک ہی سمجھا گیا جس کی وجہ شاید یہ ہے کہ دونوں حادثات تقریبا ایک آدھ دن کے وقفے سے پیش آئے۔ اٹلی میں حادثہ 26 فروری کو پیش آیا تھا جبکہ لیبیا میں حادثے کی درست تاریخ کی تصدیق ممکن نہیں ہوسکی ہے۔ جس کی وجہ یہ ہے کہ متاثرہ خاندانوں کو حادثے کی اطلاع الگ الگ تاریخوں پر ملی۔
متاثرہ خاندانوں کو جب حادثے کی اطلاع ملی تو انھوں نے پاکستانی حکام کو اس سے آگاہ کیا۔
اسد نعیم کے خاندان نے 26 فروری کو پاکستان کے دفتر خارجہ میں ایک درخواست کے ذریعے واقعہ کی اطلاع دیتے ہوئے درخواست کی تھی کہ اسد نعیم کی میت کو پاکستان لانے میں مدد فراہم کی جائے۔
درخواست میں کہا گیا ہے کہ ’22 فروری کے بعد اسد نعیم سے ہمارا رابطہ نہیں ہے جبکہ 24 فروری کو ایجنٹ نے لیبیا سے پیغام بھیج کر واقعہ کی اطلاع دی۔‘
اس درخواست پر 27 فروری کو پاکستان دفتر خارجہ نے خط لکھ کر اسلام آباد میں لیبیا کے سفارت خانے کو ہدایت کی وہ میت کو پاکستان واپس لانے کے ممکنہ انتظامات کرائے۔
دوسری جانب بشارت علی کو لیبیا واقعہ کی اطلاع 26 فروری کو مل گئی تھی۔
اٹلی حادثے کا شکار ہونے والی کشتی ترکی سے چلی تھی جبکہ لیبیا سے چلنے والی کشتی لیبیا کی سمندری حدود میں ہی حادثے کا شکار ہوگئی تھی۔
بشارت علی کا کہنا تھا کہ کشتی چھوٹی تھی جس میں صرف آٹھ دس لوگوں کی کنجائش تھی جبکہ اس میں تیس کے قریب لوگوں کو سوار کر دیا گیا تھا۔ اس کشتی کے سب مسافر پاکستانی تھے اور یہ سب لیبیا کی سمندری حدود میں ہی حادثے کا شکار ہو گئے۔
’کشتی کو پکڑے رکھا‘
ہاشم بٹر لیبیا کی سمندری حدود میں ڈوبنے والی کشتی میں ہلاک ہو گئے ہیں
بشارت علی کہتے ہیں کہ ’یورپ جانے کی خواہش رکھنے والوں میں میرا بیٹا زوالقدیر بشارت اور میرا بھانجا ہاشم بٹر بھی شامل تھے۔ حادثے میں میرا بھانجا ہلاک ہوگیا ہے جبکہ میرا بیٹا محفوظ رہا ہے اور اس وقت لیبیا پولیس کی تحویل میں ہے۔‘
بشارت علی نے بتایا کہ ’جب میرے بیٹے کو ریسیکو کیا گیا تو اس وقت اس نے لیبیا کے پولیس اسٹیشن سے کسی سے ٹیلی فون لے کر گھر میں بات کی اور سارے واقعے کے بارے میں بتایا تھا۔ اس نے بتایا کہ ہمیں ایک ایسی کشتی میں سوار کروایا گیا جس میں صرف آٹھ دس افرا کی گنجائش تھی، جبکہ اس پر تیس کے قریب لوگوں کو سوار کروایا گیا۔‘
اسد نعیم یورپ پہنچنے کی کوشش میں زندگی کی بازی ہار گئے ہیں
بشارت علی کہتے ہیں کہ ان کے بیٹے نے بتایا کہ اس وقت سب نے شور شرابہ کیا مگر ایجنٹ نے اپنے ساتھیوں کے ہمراہ سب کو مجبور کیا کہ وہ کشتی میں سوار ہوجائیں۔ جس پر مجبوری کے عالم میں سب لوگ کشتی پر سوار ہوگئے۔
بشارت علی کا کہنا تھا کہ ان کے بیٹے کے مطابق کشتی تھوڑی دیر چلی ہوگی، کوئی ڈیڑھ کلو میٹر چلی تو الٹ گئی۔ بیٹے کے مطابق زیادہ تر لوگ دیکھتے دیکھتے ہی سمندر میں ڈوب گئے اور چند ہی لمحوں میں نظروں سے اوجھل ہوگئے۔
’بیٹے نے بتایا کہ وہ اور سات دیگر لوگوں نے اس موقع پر کشتی کو پکڑے رکھا جس وجہ سے وہ محفوظ رہے اور سمندر میں نہیں ڈوبے اور جب حادثہ ہوا تو اسے اپنے کزن ہاشم بٹر کے بارے میں کچھ پتا نہیں چل سکا کہ اس کے ساتھ کیا ہوا۔‘
بشارت علی کا مزید کہنا تھا کہ کافی دیر تک وہ کشتی پکڑے رہے جس کے بعد پولیس پہنچی اور ان کو ریسیکو کیا گیا۔ بیٹے نے بتایا کہ ابتدائی طبی امداد کے بعد وہ آٹھ لوگ پولیس کی تحویل میں ہیں
’لاش کی تصویر ایجنٹ نے بھیجی‘
دوسری جانب اسد نعیم کے چچا محمد وسیم کہنا تھا کہ حادثے کی اطلاع ایجنٹ نے اسد نعیم کے بڑے بھائی کو دی جو کہ دبئی میں کام کررہے ہیں۔ ایجنٹ نے اپنے پیغام کے ہمراہ میت کے تصویر بھی بھیجی، جس کے بعد ہم لوگوں نے پاکستان میں موجود ایجنٹ کے ساتھ رابطہ قائم کرنا چاہا مگر رابطہ قائم نہیں ہو رہا ہے۔
محمد وسیم کہتے ہیں کہ اسد نعیم گوجر خان میں ہول سیل کا کاروبار کرتا تھا۔ اس کے پاس اپنی سوزوکی تھی جس پر وہ مال سپلائی کرتا تھا۔ اس کا پاکستان میں کام اچھا تھا مگر وہ اکثر اپنے دوستوں سے کہتا تھا کہ اتنی محنت کرتا ہوں ملتا کچھ نہیں ہے اگر اتنی محنت یورپ میں کروں تو اچھے پیسے کما سکتا ہوں۔
ان کا کہنا تھا کہ اسد نعیم نے ایجنٹ کو پندرہ لاکھ روپے اپنے بینک اکاؤنٹ سے ٹرانسفر کیے تھے جبکہ آٹھ لاکھ نقد دیے تھے مجموعی طور پر ایجنٹ نے 23 لاکھ روپے لیے اور اس نے کہا تھا کہ یہ ہوائی سفر ہوگا اور سب کچھ قانونی ہوگا۔ یہ ایجنٹ پاکستانی باپ بیٹا ہیں۔ والد پنجاب کے شہر گجرات میں رہتا ہے جبکہ بیٹا یہی کام لیبیا میں کرتا ہے۔
شیخوپورہ کے بشارت علی کا کہنا تھا کہ انھیں بھی ہلاکت کی اطلاع اور تصویر ان کے ایجنٹ نے دی تھی۔
بشارت علی کا بھی کہنا تھا کہ یہ ایجنٹ باپ بیٹا ہیں۔ باپ پنجاب کے شہر گجرات میں ہوتا ہے جبکہ بیٹا لیبیا ہوتا ہے۔ انھوں نے دونوں کو یورپ پہچانے کے لیے 46 لاکھ روپیہ لیا تھا۔ اس وقت انھوں نے کہا تھا کہ سمندر کے راستے کوئی سفر نہیں ہوگا اور سارا سفر ہوائی ہوگا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’میرے بیٹا اور بھانجا دونوں پہلے تاجکستان میں تھے۔ باپ بیٹا ایجنٹ نے ان سے تاجکستان میں رابطہ قائم کیا اور انھیں کہا کہ وہ ان کو یورپ پہچاتے ہیں۔ جس کے بعد دونوں نے تاجکستان سے لیبیا کا سفر کیا تھا۔‘
بشارت علی کے مطابق جب یہ دونوں لیبیا پہنچے تو ان دونوں کے علاوہ باقی تمام لوگوں پر تشدد کرنے کے علاوہ ویڈیو بھی بنائی گئی تھی۔
خطرناک سفر کے ’اقرار کی ویڈیو‘
سوشل میڈیا پر ایک وڈیو وائرل ہوچکی ہے جس میں چند نوجوانوں کو یہ کہتے دیکھا جا سکتا ہے کہ وہ یہ سفر اپنی مرضی سے سفرکر رہے ہیں اور ان پر کوئی زور زبردستی نہیں ہے۔
بشارت علی اور محمد وسیم کہتے ہیں کہ اس وڈیو میں وہ اپنے بچوں کو پہچان سکتے ہیں۔
بشارت علی کہتے ہیں کہ ان تک بھی ایک ویڈیو پہنچی ہے جس میں ان کا گرفتار بیٹا اور ہلاک بھانجا موجود ہے۔ ’اس ویڈیو میں باقی لوگوں کی طرح میرا گرفتار بیٹا اور بھانجا یہ اقرار کررہے ہیں کہ وہ یہ خطرناک سفر اپنی مرضی سے کررہے ہیں اور اس میں کوئی زور زبردستی نہیں ہے‘۔
لیکن بشارت علی کا دعویٰ ہے کہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ ’یہ ویڈیو زبردستی بنائی گئی تھی۔ اس ویڈیو میں شریک نہ ہونے والوں پر تشدد کیا گیا تھا۔ سب کو مجبور کیا گیا تھا کہ وہ ویڈیو میں آئیں اور یہ اقرار کریں کہ وہ یہ سفر اپنی مرضی سے کر رہے ہیں حالانکہ جب باپ بیٹا ایجنٹوں نے پیسے لیے تھے تو اس وقت انھوں نے دو ٹوک کہا تھا کہ سمندری اور زمینی سفر نہیں ہوگا‘۔
محمد وسیم بھی کہتے ہیں کہ جب ’باپ بیٹے نے پیسے لیے تھے تو اس وقت ایسی کوئی بات نہیں تھی کہ سفر سمندر کے راستے سے کرنا ہوگا بلکہ یہ کہا گیا تھا کہ تمام کام قانونی اور محفوظ ہوگا۔ اسد نعیم نے بھی مجھے کہا تھا کہ سارا سفر ہوائی راستے ہی سے ہوگا۔‘
محمد وسیم کے مطابق ’ کچھ دن قبل اس نے فون کیا تو کچھ پریشان تھا کوئی بات بتا نہیں رہا تھا۔ اس موقع پر اس کی والدہ کے ساتھ بات ہوئی تو والدہ نے کہا کہ واپس آجاؤ مگر اس نے کہا کہ اب واپسی کا راستہ نہیں رہا بس اب آگے ہی بڑھنا ہے۔ پھر اس کے بعد ایک اور روز فون کیا اور بتایا کہ اب وہ کشتی کے ذریعے سفر کر رہا ہے۔‘
’ویڈیو ملزماں کو قانون سے نہیں بچا سکتی`
سپریم کورٹ کے وکیل صابر حسین تنولی ایڈووکیٹ کہتے ہیں کہ بظاہر یہ لگتا ہے کہ یہ ویڈیو لڑکوں کو سمگل کرنے کی کوشش کرنے والے ایجنٹوں نے بنائی ہے۔ بظاہر اس وڈیو کا مقصد یہ لگتا ہے کہ کسی حادثے کی صورت میں وہ اس ویڈیو کو اپنے دفاع میں استعمال کرسکیں۔
صابر حسین تنولی کہتے ہیں کہ’ یہ ویڈیو ایجنٹوں کا دفاع نہیں کرسکتی ہے بلکہ یہ ان کے خلاف بحثیت ثبوت استعمال ہونی چاہیے۔ انسانی سمگلنگ جرم ہے اس جرم کا نشانہ بننے والے اور بنانے والے اس کو اپنی مرضی یا رضا مندی کا کہہ کر اس کی سزا نہیں بچ سکتے ہیں۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ بھلے متاثرہ لوگوں نے ویڈیو میں اقرار کیا ہوا کہ وہ اپنی مرضی سے خطرناک سفر پر جا رہے ہیں مگر یہ دیکھا جائے گا کہ ویڈیو ریکارڈ کرواتے ہوئے کیا وہ آزاد تھے یا نہیں اور ساتھ میں یہ بھی دیکھا جائے گا کہ ویڈیو کن حالات میں ریکارڈ ہوئی ہے۔
ان کے بقول یہ ویڈیو ملزماں کو قانون کے کٹہرے سے نہیں بچا سکتی ہے
’دفنا دیں توکچھ سکون مل جائے گا‘
محمد وسیم کہتے ہیں کہ اسد نعیم کے بوڑھے والدین رو رو کر ہلکان ہوچکے ہیں۔ ’ ہم میڈیا سے کہتے ہیں کہ وہ ہمارے گھر آئے اور ان بوڑھے والدین کی حالت زار دیکھے۔ ہم لوگوں نے وزارت خارجہ میں لاش پاکستان لانے کی درخواست دی ہے۔ وزارت خارجہ نے تسلی دی ہے کہ وہ ہر ممکنہ مدد کریں گے۔ ہم کہتے ہیں کہ جلد جلد لاش منگوا دی، اس کو دفن کردیں گے تو کچھ سکون مل جائے گا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ وہ ایجنٹوں کے خلاف بھرپور کارروائی کریں گے۔ ’ اس وقت پاکستان میں موجود ایجنٹ کے گھر کو تالے لگ چکے ہیں۔ اس کا فون نمبر بھی بند ہے۔ سننے میں آیا ہے کہ کچھ لوگوں کو وہ کہہ رہا ہے کہ اپنے پیسے تھوڑے تھوڑے کر کے لے لیں، میں حادثے کا ذمہ دار نہیں ہوں۔‘
بشارت علی کہتے ہیں کہ ’ہماری تو دنیا ہی ختم ہوگئی ہے۔ بھانجا ہلاک ہوچکا ہے اور بیٹا لیبیا کی پولیس کی تحویل میں ہے۔ پتا نہیں اس کے ساتھ کیا سلوک ہو رہا ہوگا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’حکومت پاکستان سے کہتا ہوں کہ یہ پاکستانی بچے ہیں۔ جو بھی اس وقت لیبیا پولیس کی تحویل میں ہیں ان کی رہائی کے انتظامات کیئے جائیں اور لاشوں کو پاکستان لایا جائے تاکہ ہر کوئی اپنے بچوں کی لاشوں کو دفن کرکے اپنے ارمانوں کو بھی دفن کردے۔‘
Comments are closed.