چین، پاکستان اقتصادی راہداری منصوبہ: میں کم ہوتی چینی سرمایہ کاری کی کیا وجہ ہے؟
- تنویر ملک
- صحافی، کراچی
موجودہ مالی سال کے پہلی سہ ماہی میں چین کی جانب سے آنے والے سرمائے کی مالیت صرف دس کروڑ ڈالر رہی
پاکستان کے مرکزی بینک کی جانب سے ملک میں بیرونی سرمایہ کاری کے حوالے سے جاری کردہ تازہ ترین اعداد و شمار میں انکشاف کیا گیا ہے کہ چین کی جانب سے پاکستان میں کی جانے والی سرمایہ کاری میں کمی جبکہ امریکہ سے پاکستان میں ہونے والی سرمایہ کاری میں اضافہ ہوا ہے۔
موجودہ مالی سال کے پہلی سہ ماہی (جولائی تا ستمبر) کے اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ اس دورانیے میں پاکستان میں چین کی جانب سے آنے والے سرمائے کی مالیت صرف دس کروڑ ڈالر رہی جو گذشتہ سال کے اسی دورانیے میں بیس کروڑ ڈالر سے زائد تھی۔
اسی طرح موجودہ سال کی پہلی سہ ماہی میں امریکہ کی جانب سے پاکستان میں آنے والی سرمایہ کاری کی مالیت دس کروڑ ڈالر سے زائد رہی جبکہ گذشتہ سال کی اسی سہ ماہی میں امریکی سرمایہ کاروں کی جانب سے پاکستان میں صرف دو کروڑ ڈالر لگائے تھے۔
پاکستان میں چینی سرمایہ کاری کا سب سے بڑا منصوبہ چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) ہے جس میں سڑکوں، بجلی گھروں، ریلوے لائن اور صنعتی زونز کی تعمیر کے منصوبے شامل ہیں۔
پاکستان میں سابقہ حکومت یعنی مسلم لیگ نواز کے دور میں سی پیک کے منصوبے پر کام شروع ہوا تھا اور اس کے تحت بہت سارے منصوبوں کا افتتاح کیا گیا اور ان میں سے کچھ مکمل بھی ہوئے تاہم تحریک انصاف کے برسر اقتدار آنے کے بعد اس منصوبے پر کام میں سست روی کی شکایات کی بازگشت طویل عرصے سے جاری ہے۔
چینی سرمایہ کاری میں کمی کی ایک بہت بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ سی پیک کے پہلے مرحلے میں جاری انفراسٹرکچر اور توانائی کے بہت سارے منصوبوں پر کام مکمل ہو چکا ہے
تحریک انصاف کے سیاسی مخالفین کی جانب سے جہاں سی پیک منصوبے پر وفاقی حکومت کی جانب سے کام کو سست کرنے کا الزام عائد کیا جاتا ہے مگر دوسری جانب سی پیک کے حوالے سے غیر جانبدار مبصرین اور معاشی تجزیہ کاروں کی رائے بھی اپوزیشن کے الزامات سے کچھ مختلف نہیں ہے۔
ماہرین کا ماننا ہے کہ چینی سرمایہ کاری میں کمی کی ایک بہت بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ سی پیک کے پہلے مرحلے میں جاری انفراسٹرکچر اور توانائی کے بہت سارے منصوبوں پر کام مکمل ہو چکا ہے جبکہ جو منصوبے زیر تکمیل بھی ہیں ان کی مد میں سرمایہ کاری پہلے ہی موصول ہو چکی ہے۔ جبکہ دوسری جانب مسئلہ یہ ہے کہ موجودہ دور حکومت میں سی پیک کے تحت کسی بڑے منصوبے کا آغاز نہیں کیا گیا۔
دوسری جانب وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) خالد منصور نے اس تاثر کو مسترد کیا کہ سی پیک پر کام سست روی کا شکار ہے ، انھوں نے کہا کہ ان قیاس آرائیوں میں کوئی حقیقت نہیں ہے۔
پاکستان میں چینی سرمایہ کاری کا رجحان کیا رہا ہے؟
پاکستان میں چین سے آنے والی لگ بھگ تمام تر سرمایہ کاری سی پیک کے منصوبوں کے تحت ہوتی ہے۔ سرکاری اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ گذشتہ تقریباً دو سال میں چین سے پاکستان میں آخری بار سب سے زیادہ سرمایہ کاری دسمبر 2019 میں کی گئی تھی اور اس کا حجم تیس کروڑ ڈالر تھا۔
اس کے بعد اس سرمایہ کاری میں بتدریج کمی آنا شروع ہوئی اور مختف مہینوں میں تھوڑے بہت اضافے اور کمی کے بعد یہ مجموعی طور پر 20 کروڑ سے کم ہی رہی۔ اگرچہ کورونا وائرس کے اثرات نے بھی چینی سرمایہ کاری کو متاثر کیا تاہم ان اثرات کے زائل ہونے کے بعد بھی یہ سرمایہ کاری دوبارہ اپنی بلند سطح پر نہیں پہنچ سکی۔
گذشتہ چند سالوں میں چینی سرمایہ کاری میں بتدریج کمی آئی ہے
اپریل 2020 میں یہ فقط اسی لاکھ ڈالر تک محدود ہو گئی تھی جس کی وجہ بنیادی وجہ کورونا وائرس تھی تاہم ستمبر 2020 میں اس کے حجم میں کچھ بہتری ہوئی اور یہ تیرہ کروڑ ڈالر تک پہنچی۔ موجودہ سال کے پہلے مہینے (جنوری) میں اس کا حجم پانچ کروڑ ڈالر رہا جو رواں مالی سال کے پہلے مہینے (جولائی) میں مزید کم ہوا اور گذشتہ ماہ یعنی ستمبر کے مہینے میں سرمایہ کاری کا مجموعی حجم فقط ڈھائی کروڑ ڈالر رہا۔
ڈارسن سکیورٹیز میں معاشی امور کے تجزیہ کار یوسف سعید نے بتایا کہ چینی سرمایہ کاری زیادہ تر سی پیک کے تحت توانائی کے منصوبوں میں آ رہی تھی جن میں سے بہت سارے منصوبے مکمل ہو چکے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ اگر شعبہ جاتی سرمایہ کاری کے اعداد و شمار کو دیکھا جائے تو یہ اس سے اس امر کی تصدیق ہوتی ہے۔
یوسف نے نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ گذشتہ مالی سال کی پہلی سہ ماہی میں توانائی کے شعبے میں آنے والی سرمایہ کاری کا حجم 24 کروڑ ڈالر کے لگ بھگ تھا جو موجودہ مالی سال کی پہلی سہ ماہی میں گر کر تقریباً 14 کروڑ ڈالر رہ گیا۔
یہ بھی پڑھیے
ماہر معیشت عابد سلہری کے خیال میں سی پیک منصوبے پر کام سست روی کا شکار نہیں ہوا بلکہ اصل وجہ یہ ہے کہ بہت سارے پرانے منصوبوں پر کام مکمل ہو چکا ہے اور پھر کورونا اور خطے کی مجموعی صورتحال کی وجہ سے اس سرمایہ کاری میں کمی دیکھنے میں آئی۔
ماہر معیشت ڈاکٹر اکرام الحق کی رائے ہے کہ اس سرمایہ کاری میں کمی کے پس پردہ سکیورٹی کے خطرات بھی ہیں۔ انھوں نے کہا کہ چینی انجینیئرز پر ہونے والے حملوں نے بھی اس سلسلے میں کردار اد ا کیا ہے۔
پاکستان کے سابقہ وفاقی وزیر منصوبہ بندی و ترقی احسن اقبال کا کہنا ہے کہ زیادہ تر چینی سرمایہ کاری سڑکوں اور توانائی کے منصوبوں میں ہوئی۔ انھوں نے کہا کہ پہلا مرحلہ انفراسٹرکچر اور توانائی کے منصوبوں کا تھا جن میں اکثر نواز لیگ کے دور میں ہی مکمل ہو گئے تھے۔
’دوسرا مرحلہ صعنتی زون کا ہے جس میں تاحال کام شروع نہیں ہو سکا۔‘
انھوں نے دعویٰ کیا کہ چینی سرمایہ کاری میں کمی کی وجہ یہی ہے کہ ان صعنتی زونز پر کوئی کام نہیں ہوا اور تحریک انصاف کے دور میں ان منصوبوں پر کام سست روی کا شکار ہوا یا جان بوجھ کر اس پر کام نہیں ہوا۔
انھوں نے کہا ہمارے منصوبے کے مطابق نو صنعتی زونز پر 2020 کا کام شروع ہونا تھا تاہم افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ابھی تک ان میں سے ایک کا بھی سنگ بنیاد تک نہیں رکھا جا سکا۔ ‘جب ان منصوبوں پر کام کا آغاز ہی نہیں ہو گا تو لازمی طور پر چینی سرمایہ کاری کم ہو گی۔’
احسن اقبال کا دعوی ہے کہ تحریک انصاف کے دور میں سی پیک منصوبوں پر جان بوجھ کر کام کو سست کیا گیا
انھوں نے بتایا کہ اسی طرح ریلوے کے شعبے میں ایم ایل ون کے منصوبے پر سنہ 2017 میں دستخط ہوئے تھے لیکن اس پر بھی کوئی پیش رفت نہیں ہو سکی۔
احسن اقبال نے کہا ہمارے دور میں سی پیک منصوبوں پر 75 ہزار چینی کام کر رہے تھے لیکن گوادر، کوئٹہ، کراچی اور داسو میں چینی شہریوں پر ہونے والے دہشت گردی کے واقعات بھی سرمایہ کاری میں کمی کا سبب بنے۔
رابطہ کرنے پر وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے سی پیک خالد منصور نے اس تاثر کو یکسر مسترد کیا کہ پاکستان میں چینی سرمایہ کاری میں گذشتہ ڈیڑھ، دو سال کے دوران کمی آئی ہے۔
انھوں نے دعویٰ کیا کہ ابھی تک سی پیک منصوبے کے تحت 25 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری آ چکی ہے تاہم انھوں نے اس بات کو واضح نہیں کیا کہ اس میں کتنی گذشتہ دور حکومت اور کتنی موجود حکومت کے دور میں آئی۔
خالد منصور نے کہا کہ پہلے مرحلے کے بعد اب دوسرے مرحلے میں صعنتی زونز پر کام تیزی سے جاری ہے۔
خالد منصور نے کہا کہ دو ہفتے پہلے سی پیک کی ‘جے سی سی’ کا اجلاس ہوا اور مختلف ورکنگ گروپس صعنتی، زرعی، انفارمیشن ٹیکنالوجی اور سائنسی شعبوں میں کام کی رفتار بڑھانے پر بات چیت ہوئی۔
پاکستان میں امریکی سرمایہ کاری میں اضافہ کیا ظاہر کرتا ہے؟
پاکستان کے مرکزی بینک کی جانب سے جاری کیے جانے والے اعداد و شمار کے مطابق رواں مالی سال کی پہلی سہ ماہی کے دوران امریکہ سے آنے والی سرمایہ کاری کا حجم چینی سرمایہ کاری سے زیادہ رہا ہے۔
امریکہ کی جانب سے سرمایہ کاری میں ہونے والے اضافے پر تجزیہ کار یوسف سعید نے بتایا کہ امریکہ کی جانب سے آئل، گیس یا کمیونیکشن کے شعبے میں سرمایہ کاری کی گئی ہو گی۔
اُن کے مطابق یہ سرمایہ کاری شاید ایک ٹائم کے لیے ہوئی ہو گی جو امریکی کمپنیوں کی جانب سے کچھ شعبوں میں وقتاً فوقتاً ہوتی رہتی ہے۔ امریکی سرمایہ کاری کے رحجان کے دیرپا ہونے کے بارے میں یوسف نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ اس کے بارے میں کوئی مستند رائے اس وقت نہیں دی جا سکتی۔
سابق وفاقی وزیر احسن اقبال کا دعویٰ ہے کہ موجودہ حکومت پر امریکہ کی جانب سے دباؤ تھا کہ اگر وہ سی پیک کے منصوبوں پر کام کی رفتار سست کریں تو اس کے بدلے میں پاکستانی حکومت امریکہ سے کچھ حاصل کر پائے گی۔ انھوں نے کہا کہ حکومتی پالیسیوں کی وجہ سے جہاں ایک جانب چینی سرمایہ کاری کم ہوئی ہے تو دوسری جانب اب امریکہ بھی پاکستان پر اعتبار نہیں کر رہا۔
’چینی انجینیئرز پر ہونے والے حملے بھی سرمایہ کاری میں کمی کا باعث بنے‘
ڈاکٹر اکرام الحق نے امریکہ کی جانب سے سرمایہ کاری کے سوال پر کہا کہ افسوس سے یہ کہنا پڑتا ہے کہ پاکستان اب سرمایہ کاری کے لیے کوئی مثالی ملک نہیں ہے۔ انھوں نے معاشی اعشاریوں میں گراوٹ کے ساتھ خطے کی صورتحال اور پاکستان کے اندرونی مسائل کو بیان کرتے ہوئے کہا کہ ایسے میں امریکی سرمایہ کاری کیا آئے گی بلکہ چینی سرمایہ کاری بھی کم ہو رہی ہے۔
مزید پڑھیے
معاون خصوصی خالد منصور سے جب پوچھا کہ کہ موجودہ حکومت کے آنے کے بعد امریکہ کے اشارے پر سی پیک کے منصوبوں پر کام کی رفتار کو سست کیا گیا تو انھوں نے کہا کہ اس میں کوئی حقیقت نہیں۔ سابق وفاقی وزیر احسن اقبال کے دعوے پر ان کا کہنا تھا کہ وہ سیاسی آدمی تو نہیں ہیں مگر یہ بتا سکتے ہیں کہ پاکستان کے امریکہ اور چین دونوں سے بہتر سفارتی تعلقات ہیں۔
پاکستان میں چینی سرمایہ کاری کا کیا مستقبل ہے؟
معاون خصوصی خالد منصور کے مطابق پاکستان میں سی پیک کے منصوبوں میں چینی سرمایہ کاری کےمزید آنے کا امکان ہے۔ انھوں نے کہا کہ پانچ صنعتی زونز پر کام جاری ہے جس میں چینی سرمایہ کاری آئے گی۔
تاہم سابق وفاقی وزیر احسن اقبال نے کہا کہ موجودہ حکومت کا کوئی ترقیاتی منصوبہ ہی سرے سے موجود نہیں ہے کہ جس کی بنیاد پر وہ چینی سرمایہ کاری کو پاکستان میں لا سکیں۔ انھوں نے کہا کہ سرمایہ کاری کے لیے ویژن،ایجنڈے اور منصوبے کی ضرورت ہوتی ہے جس میں موجودہ حکومت میں کمی ہے۔
ماہر معیشت ڈاکٹر عابد سلہری نے اس سلسلے میں کہا کہ افغانستان کی صورتحال اس وقت سب سے بڑا ایشو بنی ہوئی ہے کیونکہ خطہ اس کی وجہ سے غیر یقینی حالات کا شکار ہے اور سرمایہ کار اس سلسلے میں محتاط ہیں۔
ماہر معیشت ڈاکٹر اکرام الحق کے خیال میں اب شاید چینی سرمایہ کاروں کو پاکستان سے زیادہ افغانستان سرمایہ کاری کے لیے زیادہ پُرکشش ملک لگے جس کی وجہ افغانستان کی معدنی دولت ہے جس پر ماضی میں کبھی توجہ نہیں دی گئی۔
Comments are closed.