پاکستان میں بھی آج ڈاک کا عالمی دن منایا جارہا ہے، جس کا مقصد نوجوان نسل کو خطوط کی ترسیل کے عمل سے روشناس کروانا ہے۔ پوسٹ آفس آج بھی اپنوں کی خدمت کے لئے حاضر ہے لیکن ڈیجیٹل دور نے اس کی ضرورت کم کردی ہے۔
خط کو آدھی ملاقات بھی کہا جاتا تھا، ڈاکیہ کسی کے لئے خوشی اور کسی کے لئے غم کی خبریں لے کر آتا تھا، خط کی تحریر اپنوں سے محبت کی ایسی خوبصورت گواہی ہوتی تھی جسے لوگ مدتوں سنبھال کر رکھتے تھے۔
ڈاک کے تھیلوں کا جمع ہونا، خطوط کی سارٹنگ اور مہر لگنے کے بعد پوسٹ مین کے تھیلے تک جانا، سب کچھ آج بھی جاری ہے۔ کمی ہے تو صرف اس کی اہمیت کی۔
ٹیلی گرام ماضی کا قصہ بنا تو فیکس کا دور آگیا۔ ای میل اور پھر موبائل فون آنے سے دنیا کے فاصلے مزید مٹ گئے ہیں۔ خطوط کا سلسلہ بھی ماضی کے اندھیروں میں چھپتا جارہا ہے، بزرگ شہریوں کو یہ سب کچھ یاد ہے۔
ڈاک اور ڈاکیے کی اہمیت صرف پیغام رسانی تک محدود نہ تھی، یہ عمل ہماری ثقافت کا بھی خوبصورت حصہ تھا۔
Comments are closed.