پالڈنگ لائٹ: امریکہ کا پراسرار معمہ جسے آپ دیکھ تو سکتے ہیں، چھو نہیں سکتے

امریکہ

،تصویر کا ذریعہMICHIGAN TECH UNIVERSITY

  • مصنف, جان سکاٹ لیونسکی
  • عہدہ, بی بی سی ٹریول

سکاٹ لینڈ کی سمندری بلا کا معمہ ہو یا پھر سفید لباس میں ملبوس خاتون کا پراسرار بھوت جو ایک پرانے قلعے میں نظر آتا ہے، دنیا بھر میں درجنوں پراسرار واقعات رونما ہوتے ہیں لیکن ان میں سے کوئی بھی کسی طے شدہ وقت کا پابند نہیں۔

اور یہی بات امریکہ میں مشیگن کے ایک مقام کو دلچسپی کا باعث بناتی ہے جہاں اگر آپ درست مقام پر ایک مخصوص وقت پر موجود ہوں تو آپ پالڈنگ لائٹ یا روشنی کو دیکھ سکتے ہیں۔

موسم گرما ہو یا سردیوں کی یخ بستہ رات، امریکی ہائی وے فورٹی فائیو کے قریب روبنز روڈ پر ایک کھلے میدان کے چھوٹے سے حصے میں اکثر متجسس افراد کا مجمع لگا رہتا ہے۔

جیسے ہی سورج غروب ہوتا ہے تو شام کے وقت سفید، پیلی اور لال رنگ کی چھوٹی چمکتی ہوئی روشنیاں تقریبا پانچ میل دور نمودار ہوتی ہیں اور ہوا میں معلق رہتی ہیں۔ یہ کبھی گھٹتی یا بڑھتی نہیں، اپنی جگہ تبدیل نہیں کرتیں اور نہ ہی ناچتی ہیں۔

لیکن یہ غیر متوقع طور پر جھپکتی ہیں اور پھر اگر ان کا پیچھا کرنے کی یا ان کے قریب جانے کی کوشش کی جائے تو اچانک غائب ہو جاتی ہیں۔

ماہر کیمروں سے لیس افراد نے ان روشنیوں کی تصاویر تو کھینچی ہیں لیکن اب تک ان کا راز افشاں نہیں ہو سکا۔

امریکہ

،تصویر کا ذریعہMICHIGAN TECH UNIVERSITY

مقامی طور پر ان کی وضاحت کرنے کے لیے کئی کہانیاں گھڑی جا چکی ہیں۔ ایک مشہور قصے کے مطابق یہ ریلوے کے ایک اہلکار کا بھوت ہے جو ایک زمانے میں ٹرین حادثے میں ہلاک ہو گیا تھا اور اب رات کے وقت لالٹین کی مدد سے مستقبل میں کسی کو حادثے سے بچانے کے لیے نمودار ہو جاتا ہے۔ لیکن یہاں کوئی ریلوے لائن نہیں ہے اور نہ ماضی میں تھی۔

ایک مفروضہ یہ بھی ہے کہ یہ خلائی مخلوق ہے جو زمین کا جائزہ لے رہی ہے۔ یوں دیکھنے والے اپنی اپنی مرضی کے مطابق کسی نہ کسی کہانی پر یقین کر لیتے ہیں کیوں کہ وہ ایک ایسی چیز دیکھ رہے ہوتے ہیں جو ان کی روزمرہ زندگی سے بہت الگ اور منفرد ہے۔

کہانی کوئی بھی ہو، اس پراسرار روشنی نے پالڈنگ کے چھوٹے سے قصبے کو مشہور بنا دیا ہے جہاں دنیا بھر سے لوگ وقت کے پابند بھوت کو دیکھنے آتے ہیں۔ ان سیاحوں کو خوارک فراہم کرنے کے لیے دکانیں موجود ہیں جہاں مخصوص ہیٹ اور ٹی شرٹس بھی بکتے ہیں۔

سارہ باکر بھی ایک ایسی ہی دکان پر ملازمت کرتی ہیں جن کا کہنا ہے کہ ’میں نے پالڈنگ لائٹ کو کئی بار دیکھا ہے اور مجھے نہیں لگتا کہ یہ کوئی مافوق الفطرت چیز ہے لیکن یہ دیکھنے میں اچھی لگتی ہے۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ یہ کسی گاڑی کی ہیڈ لائٹ سے پیدا ہوتی ہے لیکن دوسرے قسم کھاتے ہیں کہ وہ اس کی وضاحت نہیں کر سکتے۔‘

امریکہ

،تصویر کا ذریعہMICHIGAN TECH UNIVERSITY

مواد پر جائیں

ڈرامہ کوئین

ڈرامہ کوئین

’ڈرامہ کوئین‘ پوڈکاسٹ میں سنیے وہ باتیں جنہیں کسی کے ساتھ بانٹنے نہیں دیا جاتا

قسطیں

مواد پر جائیں

2010 میں مشیگن یونیورسٹی میں الیکٹرک انجینیئرنگ پی ایچ ڈی کے امیدوار جیریمی بوس نے کیمروں اور طاقتور ٹیلی سکوپ کی مدد سے اس روشنی کی سائنسی وضاحت تلاش کرنے کی کوشش کی۔

انھوں نے شواہد سے ثابت کیا کہ یہ روشنی حقیقت میں وہی ہے جو چند سیاحوں کا گمان تھا اور یوں اس معمے کا مزہ کرکرا ہو گیا۔ ان کے مطابق یہ گاڑیوں کی ہیڈ لائٹ ہی تھی جو ماحولیاتی عناصر کی وجہ سے ایک چمکتا ہوا سراب محسوس ہوتی تھیں۔

جیریمی بوس اب مشیگن میں ہی پڑھاتے ہیں۔ لیکن ان کی بھرپور کوشش کے باوجود اس روشنی کا چرچہ کم نہیں ہو سکا۔

وہ کہتے ہیں کہ ’میں لوگوں سے پوچھتا ہوں کہ انھوں نے کیا دیکھا۔ اگر وہ مجھ سے وضاحت مانگتے ہیں تو میں فراہم کرتا ہوں۔ زیادہ تر لوگ پیلی یا لال روشنی دیکھتے ہیں جو حرکت کر رہی ہوتی ہے۔‘

مائیکل راجر مین مشیگن یونیورسٹی میں الیکٹرک انجینیئرنگ کے پروفیسر ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ایک عام سراب روشنی کی مدد سے پیدا ہو سکتا ہے جو آسمان میں زمین کی سطح کے قریب ہوا کے درجہ حرارت میں تبدیلی کی وجہ سے نظر آ سکتا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ جس مقام پر روشنیاں نظر آتی ہیں وہاں کا جغرافیہ اور مقامی موسم شام کے ابتدائی لمحات میں درجہ حرارت میں ردوبدل کو ثابت کرتا ہے جب ہر وقت ٹریفک موجود ہوتی ہے۔ ان کے مطابق اسی وجہ سے نظر کا دھوکہ جنم لیتا ہے جب گاڑیوں کی ہیڈ لائٹ سے پیدا ہونے والی روشنی زمین سے ٹکرا کر مڑتی ہے۔ تاہم یہ سراب صرف اسی مقام سے دیکھا جا سکتا ہے جہاں سیاح اکھٹے ہوتے ہیں۔

امریکہ

،تصویر کا ذریعہMICHIGAN TECH UNIVERSITY

بھوت کی تلاش میں آنے والوں کو جیریمی مشورہ دیتے ہیں کہ وہ کسی ٹیلی سکوپ کی مدد لیں تو ان کو یقینا گاڑیوں کی ہیڈ لائٹ یا بریک لائٹ دکھائی دے گی۔ لیکن اس سائنسی وضاحت کے باوجود ایسے افراد ہیں جو سمجھتے ہیں کہ انھوں نے جو دیکھا وہ ناممکن ہے۔

جیریمی کہتے ہیں کہ جو لوگ روشنی اور ہوا کے تعلق کو نہیں سمجھتے، ان کے لیے بھوت کی کہانی زیادہ دلچسپ ہے۔ ’پھر مقامی لوگ کا بھی اس میں فائدہ ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ یہ جگہ خاص رہے۔‘

راجر مین سمجھتے ہیں کہ مقامی لوگوں نے ایک ایسی کہانی گھڑ رکھی ہے جس سے کسی کو کوئی نقصان نہیں پہنچتا اور اسی لیے لوگ اس پر یقین کر لیتے ہیں۔

’لوگوں کو قصے کہانیاں پسند ہیں اور یہ بات ہم بھی مانتے ہیں کہ ہم کسی بھوت کی موجودگی کو غلط ثابت نہیں کر سکے۔‘

یہ بھی پڑھیے

سنڈی پرکنز اپنی بیٹی کے ساتھ اس مقام پر اکثر تفریح کے لیے جاتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اب اس مقام پر کئی لوگ سائنسی نظریے کو بھی سمجھنے آتے ہیں۔

’جو لوگ پالڈنگ لائٹ میں دلچسپی رکھتے ہیں ان کے خیال میں یہ معمہ ابھی تک حل نہیں ہوا۔ وہ کہتے ہیں کہ محققین نے جو روشنی دیکھی وہ اصلی پالڈنگ لائٹ نہیں تھی۔‘

جیریمی کا کہنا ہے کہ اس معمے کے ختم نہ ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ کئی لوگ ایک مافوق الفطرت طاقت پر یقین رکھنا چاہتے ہیں۔

سارہ باکر کسی مافوق الفطرت وضاحت پر یقین نہیں رکھتیں۔ لیکن وہ کہتی ہیں کہ ’ایک بار مجھے وہاں سے 20 ڈالر ملے تھے۔ تو اگر اور کچھ نہیں ہے تب بھی میرے خیال میں یہ جگہ اچھی قسمت والی ہے۔‘

BBCUrdu.com بشکریہ