معاشی حالات نے شمالی شام کے مہاجر کیمپوں میں مقیم شامی مہاجرین غیر روایتی اور غیر مؤثر حرارتی طریقوں کا سہارا لینے پر مجبور ہیں جس میں پلاسٹک اور کپڑے شامل ہیں۔
سخت سردی کے موسم میں گرم رہنے کے لئے جنگ زدہ مہاجرین پلاسٹک ، پرانے کپڑے ، اسفنج بلاکس اور تھیلیاں جلا رہے ہیں۔ شمال مغربی صوبہ ادلیب میں متعدد پناہ گزین کیمپوں کا دورہ کرتے ہوئے غیر ملکی میڈیا نمائندوں نے 8 بچوں کے 56 سالہ باپ ابو محمد سے ملاقات کی جنہوں نے نقل مکانی اور شام کے معاشی بحران کو اپنے بچوں کی ناساز حالت کا ذمہ دار تھہرایا۔
انہوں نے کہا کہ مشکل معاشی حالات نے ہمیں ایندھن اور لکڑی کے استعمال سے روک دیا ہے جو بہت مہنگی قیمتوں میں فروخت ہورہے ہیں اور ہمیں گرم رہنے کے لئے استعمال شدہ پلاسٹک ، نائلان کے تھیلے اور گتے جیسے متبادل چیزیں تلاش کرنی پڑرہی ہیں۔
پناہ گزینوں کے مطابق غربت اور سردی کی وجہ سے ایک ٹن لکڑی 100 ڈالر میں فروخت کی جارہی ہے۔
ہر صبح ابو محمد اپنے تین بچوں کو پلاسٹک کے کچرے اور تھیلیاں ڈھونڈنے کیلئے ہران بوش شہر کے پاس چھوڑ دیتے ہیں جہاں کیمپ واقع ہے۔
دوسری جانب ان کے بچے اور بیوی جلے ہوئے پلاسٹک اور نائلان سے خارج ہونے والی زہریلی گیسوں سے شدید کھانسی اور سانس کی بیماریوں کے انفیکشن کا شکار ہیں۔
ایک مقامی معالج حسن قدور نے تصدیق کی ہے کہ روزانہ زہریلی گیسوں کو سانس میں لینے سے منسلک درجنوں ایمرجنسیز کی واقعات رونما ہورہے ہیں۔
The post ٹھٹھرتی سردی میں شامی مہاجرین پلاسٹک اور کپڑوں کو جلانے پر مجبور appeared first on Urdu News – Today News – Daily Jasarat News.
Comments are closed.