وہ شخص جو موسم کا حال بتانے کے لیے روز انتہائی خطرناک پہاڑ پر چڑھتا ہے
یہ لیک ڈسٹرکٹ نیشنل پارک میں سہ پہر کا وقت تھا۔ فوجی تراش خراش والے بال اور آنکھوں میں چمک لیے زیک پولٹن کسی پہاڑی بکرے کی سی مہارت کے ساتھ نوکیلے پتھروں پر چڑھتے ہوئے پہاڑ کی چوٹی تک جا رہے تھے۔
ایتھلیٹک انداز میں قدم بڑھاتے ہوئے اور بہادرانہ انداز میں قدم جماتے ہوئے وہ مجھے بتا رہے تھے کہ وہ انگلینڈ میں اکلوتے دستانوں کی سب سے بڑی کلیکشن کے مالک ہیں۔
کم از کم اُنھیں تو ایسا ہی لگتا ہے۔
وہ شیشے جیسے چکنے پتھر پر سے اپنا راستہ بناتے ہوئے مجھے بتاتے ہیں کہ ’میرے پاس ہر طرح، ہر ساخت اور ہر سائز کے دستانے ہیں۔‘
’برف، تیز ہواؤں اور خوفناک ترین قدرتی مشکلات کا سامنا کرنے کے ساتھ ساتھ میری نوکری کی مشکلات میں سے ایک گمشدہ چیزوں سے نمٹنا بھی ہے۔‘
فیل ٹاپ اسیسر نامی یہ ملازمت لیک ڈسٹرکٹ نیشنل پارک میں انتہائی مقبول ہے مگر برطانیہ بھر میں اسے نہایت عجیب سمجھا جاتا ہے۔
گذشتہ چار سردیوں سے زیک پولنٹ انگلینڈ کی تیسری سب سے بلند مگر سب سے زیادہ خطرناک چوٹی ہیلویلین پر 200 سے زیادہ مرتبہ چڑھے ہیں اور موسم کی رپورٹ تیار کرتے ہیں جس میں چوٹی تک کے حالات کا ایک مکمل جائزہ پیش کیا جاتا ہے تاکہ لوگ اسے آسانی سے پڑھ اور سمجھ سکیں اور چوٹی تک بحفاظت چڑھ سکیں۔
پولٹن اس غیر معمولی کام میں اکیلے بھی نہیں ہیں۔ اُن کے دو ساتھی ہیں، جون بینیٹ جو ہیلویلین پر 600 سے زیادہ مرتبہ چڑھ چکے ہیں، اور ایک نووارد ویس ہنٹر ہیں، جنھوں نے اکتوبر 2019 میں اپنا کام شروع کیا تھا۔
اس ملازمت میں دسمبر کی ابتدا سے لے کر اپریل کے اواخر تک فیل ٹاپ اسیسرز میں سے ہر روز کم از کم ایک شخص کو 950 میٹر اونچی اس چوٹی پر چڑھنا ہوتا ہے۔
یہ تب سے ہوتا آیا ہے جب سنہ 1987 میں یہ کام شروع کیا گیا تھا اور اس سال ٹیم نے مسلسل 126 دن تک ہر روز ہر موسم میں اس پہاڑ پر چڑھائی کی۔
تصور کریں کہ جلد چیر دینے والی ہواؤں میں جب ہر طرف سفیدی پھیلی ہو، اس چوٹی پر درجہ حرارت منفی سات ڈگری ہوتا ہے اور یہاں ہوائیں منفی 23 ڈگری تک ٹھنڈی ہو سکتی ہیں۔
لیکن پولٹن صاف صاف کہتے ہیں کہ ’کچھ دن دوسرے دنوں کے مقابلے میں بہتر ہوتے ہیں۔‘
ہیلویلن پر لوگ سب سے زیادہ گرمیوں میں ہی چڑھتے ہیں مگر یہ پہاڑ سردیوں میں اپنے جوبن پر ہوتا ہے۔ جب اسے گلینریڈینگ کے گاؤں سے دیکھا جاتا ہے تو یہ بالکل ایک ایسی حسین مورت کی طرح نظر آتا ہے جیسا کہ ایک پہاڑ کو ہونا چاہیے۔
یہاں پر تین گہری گلیشیائی کھائیاں ہیں، دو انتہائی نوکیلے پہاڑی کنارے، مشرق کی طرف موجود گہرے پیالے نما حصے جہاں پر ایسے ایسے پہاڑی پودے اگتے ہیں جو انگلینڈ میں اور کہیں نہیں نظر آتے۔
کمبریا اور شمالی انگلینڈ میں پہاڑوں کے لیے پرانی نورس زبان میں فیل کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ کسی فیل پر چڑھنا ایلپ، اینڈیز یا ہمالیہ میں موجود کسی چوٹی پر چڑھنے سے ایک بالکل مختلف چیلنج ہو سکتا ہے۔
زیک پولٹن ایک ماہر پہاڑی انسٹرکٹر اور قطبین تک کی مہمات کے گائیڈ ہیں جو 18 لوگوں کو لے کر ایورسٹ کے شمالی رخ سے اس پہاڑ کو سر کر چکے ہیں اور قطبِ جنوبی تک سکی کر چکے ہیں۔مگر اس کے باوجود ہیلویلن اُن کے لیے آج بھی ایک ایڈوینچر ہے۔
پولٹن کہتے ہیں کہ ’دنیا کے خطرناک پہاڑوں پر آپ کو جو مشکلات پیش آ سکتی ہیں اُن سے آپ یہاں بھی گزر سکتے ہیں۔ لوگ گم ہو جاتے ہیں، ہڈیاں تڑوا بیٹھتے ہیں، برفانی تودوں کی زد میں آ جاتے ہیں۔ آپ یہاں پھسل کر اتنا نیچے تک نہیں جائیں گے جتنا کہ ایورسٹ پر لیکن اس کے باوجود آپ بہت سے پتھروں سے ٹکرائیں گے اور نتیجہ وہی نکلے گا۔ میں بہت سے لوگوں سے ملتا ہوں جن کی نیت صاف ہوتی ہے مگر اکثر وہ خطرے کو نہیں سمجھ پاتے۔‘
اسیسر یا تجزیہ کار کی رپورٹ اس قدر باریک بین ہوتی ہے جتنی مہارت سے کوئی ماہرِ موسمیات تیار کر سکتا ہے اور اسے روزانہ لیک ڈسٹرکٹ ویدر لائن ویب سائٹ پر اور سوشل میڈیا پر موجود 19 ہزار فالوورز کے لیے شائع کیا جاتا ہے۔
مگر اس میں کوچنگ کا عنصر بھی شامل ہے۔ ہوا کی رفتار، جھونکوں، ہوا کے درجہ حرارت اور اس کی سمت سے متعلق معلومات کے ساتھ ساتھ تجزیہ کاروں کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس پہاڑ پر چڑھنے کے تجربے کے بارے میں بھی معلومات اپنی رپورٹ میں شامل کریں، لوگوں کو آگاہ کریں کہ اس پہاڑ پر کیسے چڑھنا اور اسے سر کرنا ہے اور یہ کہ کس قسم کی موسمی صورتحال کا اُنھیں سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
مثال کے طور پر سوئرل ایج کے شمالی رخ پر ایک بڑا برفانی تودا کچھ راستہ اور ساتھ ساتھ بہت سی چٹانیں اپنے ساتھ لے گیا۔ اگر انگریز کوہ پیما ایڈورڈ وہمپر کے الفاظ میں کہیں تو ’ہر قدم اچھی طرح دیکھ بھال کے اٹھانا ہے۔‘
سنہ 1987 میں جب پہلے تجزیہ کار ایلسٹیئر بوسٹن نے ہیلویلن کی ہائیکنگ کی تو وہ اپنے ساتھ جیب میں 10 پینس کے سکے لے کر جاتے تھے تاکہ پہاڑ کے سب سے قریبی فون بوتھ سے کال کر سکیں۔ اپنی کال میں وہ موسم کی پوری معلومات دیا کرتے جو ایک آنسرنگ مشین پر ریکارڈ ہو جایا کرتی اور اسے لوگ ایک خصوصی نمبر پر فون کر کے سن پاتے تھے۔
یہ بھی پڑھیے
جب ہم چوٹی کے قریب پہنچ رہے تھے تو پولٹن نے کہا ’آپ کو موسمیاتی سٹیشن کی پیشگوئی سے یہ معلوم نہیں ہو سکتا کہ کوہ پیما کے لیے یہ تجربہ کیسا رہے گا۔ کوئی مکمل طور پر خودکار نظام انسانی نکتہ نظر شامل نہیں کر سکتا اور ہماری ٹویٹس، تصاویر اور فراہم کردہ تفصیلات اس جگہ کے بارے میں ہر زاویے سے آگاہ کرتی ہیں۔ ہم اس پہاڑ کے بارے میں مکمل کہانی سناتے ہیں۔‘
سب سے بہترین بات یہ ہے کہ چونکہ فیل ٹاپ اسیسرز ہر روز چوٹی تک جاتے ہیں، اس لیے وہ کبھی بھی حالات خراب ہونے کی صورت میں اکثر وہیں پر موجود ہوتے ہیں۔ پولٹن کہتے ہیں کہ ’ہم نے اب تک سینکڑوں لوگوں کو ریسکیو کیے جانے کی صورتحال تک پہنچنے سے بچایا ہے۔‘
اور اس طرح کی کہانی نیشنل پارک میں وبا کے بعد کی صورتحال کی صحیح عکاسی کرتی ہے۔ ہر سال ڈھائی لاکھ سے زیادہ لوگ اس پہاڑ کو سر کرنے کی کوشش کرتے ہیں مگر سنہ 2020 میں پہلے لاک ڈاؤن کے خاتمے کے بعد یہاں آنے والے دو تہائی کے قریب لوگ پہلے کبھی اس علاقے میں نہیں آئے تھے چنانچہ اُنھیں معلومات کی کمی کا سامنا تھا۔
لیک ڈسٹرکٹ نیشنل پارک اتھارٹی کے چیف ایگزیکٹیو رچرڈ لیف کہتے ہیں کہ ’ہم جانتے ہیں کہ اگلے چند مہینوں میں لیک ڈسٹرکٹ لوگوں کی صحت اور تندرستی میں مدد دینے کے لیے کتنا ضروری ہو گا۔ ہمارا پیغام ہے کہ چاہے آپ پہلی مرتبہ یہاں آئیں یا پچاسویں مرتبہ، پہلے سے منصوبہ بنا کر آئیں۔ کوئی نئی چیز دریافت کر کے اپنے یہاں گزارے گئے وقت کا لطف اٹھانے کی کوشش کریں مگر پیچھے کوئی کچرا وغیرہ نہ چھوڑ کر جائیں۔‘
اس حوالے سے واقعی آگاہی موجود ہے کہ یہ پہاڑ رواں سال خاص طور پر مصروف ہو گا، اس لیے بھی کیونکہ سنہ 2021 انگلینڈ کے اس سب سے بڑے نیشنل پارک کی 70 ویں سالگرہ ہے۔ اس حوالے سے گفتگو چل رہی ہے کہ کیا برطانیہ کی اس سب سے منفرد ملازمت کو پورے سال پر تک پھیلایا جا سکتا ہے یا نہیں۔
مگر پولٹن کہتے ہیں کہ بات یہ ہے کہ پہاڑ کی صورتحال گرمیوں میں روز بروز اتنی تبدیل نہیں ہوتی۔ ’یہ تو سردیاں ہیں اور اس لیے ضروری ہے کہ ہم اس حوالے سے محتاط رہیں۔‘
وہ لوگ جنھوں نے پہلے کبھی کسی پہاڑ کی ہائیکنگ نہیں کی، اُن کے لیے ہیلویلین اپنی شاندار تاریخ کی وجہ سے بھرپور کشش رکھتا ہے۔
یہ وہ چوٹی ہے جس کا رومان والٹر سکاٹ، سیموئیل ٹیلر کولریج اور ولیم ورڈزورتھ نے اپنی شاعری میں جگایا ہے۔ کولریج اور ورڈزورتھ دونوں ہی اس پہاڑ کے قریب رہتے تھے۔
یہ پہاڑی سلسلہ وہ جگہ ہے جہاں لیک ڈسٹرکٹ کے قدرتی ورثے کے عناصر آپ کو جیتے جاگتے سے نظر آنے لگتے ہیں۔
ہیلویلن کے سائے میں موجود چراگاہیں مخصوص طرز کے پتھروں سے گھری ہوئی نظر آتی ہیں۔ بیچ بیچ میں کہیں گھوڑوں کے لیے بنائے گئے پل، بھیڑوں کے شیلٹر اور سفید کاٹیج بھی دکھائی دے جاتے ہیں۔
جب تک ہم چوٹی پر پہنچے، تب تک وہاں پر کئی ہائیکرز پہنچے ہوئے تھے، نوجوان جوڑے ہاتھ تھامے چل رہے تھے اور کچھ لڑکے بیئر پیتے ہوئے ساسیجز باربی کیو کر رہے تھے۔
اپنا دن گزارنے آئے ہوئے لوگوں کے علاوہ یہاں پر ایک دوسرے پر رکھی ہوئے بہت سے پتھر اور چارلس گوہ کی یاد میں بنائی گئی ایک پتھر کی یادگار بھی تھی۔ چارلس گوہ آرٹ کے رومانوی دور کے 21 برس کے آرٹسٹ تھے جو سنہ 1805 میں لاپتہ ہو گئے اور پھر دوبارہ کبھی نہیں ملے۔
جب ہم ریڈ ٹارن نامی پیالہ نما جھیل کی طرف دیکھ رہے تھے تو وہاں ہمیں کلہاڑیاں لہراتے کئی تیراک نظر آئے جو برف کو توڑ کر اس جھیل کا مزہ لینے کے لیے آتے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر کو شاید معلوم نہ ہو کہ اس جھیل میں سنہ 1945 میں یہاں گر کر تباہ ہونے والے دو انجن والے ایک بمبار جہاز کا ملبہ بھی موجود ہے جسے کبھی نکالا نہیں گیا۔
تیراکوں اور ہائیکرز کے ساتھ ساتھ فیل ٹاپ اسیسرز یہاں پر سائیکل چلانے والوں، دوڑ لگانے والوں، پیرا گلائیڈنگ کرنے والوں، سکی کرنے والوں اور گھڑ سواروں پر بھی نظر رکھتے ہیں۔
پولٹن نے ایک مرتبہ تو ایک تجرباتی ریڈیو کے شوقین کو بھی یہاں دیکھا جو پہاڑ کی بلندی کا فائدہ اٹھا کر کیریبیئن میں موجود کسی دوسرے شخص سے بات کر رہا تھا۔
بالآخر نیچے اترنے سے قبل ہم براؤن کوو پر رکے جو ہر گرمیوں میں انگلینڈ میں بچ جانے والا برف کا آخری ٹکڑا ہوتا ہے۔ یہ ملک کے سب سے زبردست پہاڑ پر ہمارے چھوٹے سے ایڈوینچر کا موزوں اختتام تھا۔
جب روشنی اب بھی باقی تھی تو فیل ٹاپ اسیسر اپنی تازہ ترین رپورٹ لکھنے کے لیے بیٹھ گئے۔
Comments are closed.