بدھ14؍شوال المکرم 1442ھ26؍مئی 2021ء

امریکہ کا مجسمہ آزادی، جسے جانا تو مصر تھا مگر پہنچ نیو یارک گیا

امریکہ کا مجسمہ آزادی، جسے جانا تو مصر تھا مگر پہنچ نیو یارک گیا

مجسمہ آزادی

،تصویر کا ذریعہGetty Images

فرانس نے حال ہی میں امریکہ کو مجسمہ آزادی کی وہ چھوٹی سی نقل پیش کی ہے جو پیرس کے میوزیم آف آرٹس اینڈ کرافٹس میں رکھی ہوئی تھی۔

لٹل سسٹر یا چھوٹی بہن نامی تین میٹر بلند یہ مجسمہ سنہ 2009 میں تیار کیا گیا تھا اور تب سے اب تک فرانس میں ہی تھا۔

اب چار جولائی کو امریکہ کے یومِ آزادی کے موقع پر اسے نیو یارک کے جزیرہ ایلس پر نصب کر دیا جائے گا۔

اس کے بعد یہ نقل امریکی دارالحکومت واشنگٹن بھیجی جائے گی جہاں اسے اگلے 10 سال تک کے لیے فرانسیسی سفیر کی رہائش گاہ کے باہر نصب کر دیا جائے گا۔

سنہ 1885 میں انہی دنوں کی بات ہے جب فرانس کے عوام کی جانب سے انقلابِ امریکہ کے 100 سال مکمل ہونے پر مجسمہ آزادی کا تحفہ پیش کیا گیا تھا۔

سنہ 1886 میں یہ مجسمہ نیو یارک میں نہایت نمایاں مقام پر نصب کر دیا گیا اور اس کے دروازے ملک بھر میں موجود ہر کسی شخص کے لیے کھول دیے گئے چاہے وہ شہری ہوں، سیاح ہوں، یا تارکینِ وطن۔

مجسمہ آزادی ایک ایسی خاتون کی نمائندگی کرتا ہے جو ظلم کی بیڑیوں سے آزادی حاصل کر چکی ہے۔ اس کے پیروں میں موجود ٹوٹی ہوئی زنجیر پڑی ہے۔ اس کے دائیں ہاتھ میں ایک مشعل ہے اور بائیں ہاتھ میں ایک کتاب ہے جس میں لاطینی زبان میں امریکہ کے اعلانِ آزادی کی تاریخ چار جولائی 1776 لکھی ہے۔

تانبے کا بنا ہوا یہ مجسمہ فریڈریک آگستے بارتھولدی نے ڈیزائن کیا تھا جبکہ اس کے ڈھانچے کا ڈیزائن گستاو آئفل (جی ہاں، آئفل ٹاور بنانے والے سول انجینیئر) نے تیار کیا تھا۔

مجسمہ آزادی کو سنہ 1924 میں ایک قومی یادگار قرار دے دیا گیا اور سنہ 2009 میں اس کے تاج کو 11 ستمبر کے حملوں کے بعد پہلی مرتبہ عوام کے لیے کھولا گیا۔

یہ مجسمہ اپنی بنیاد سے لے کر مشعل تک 46 میٹر اونچا ہے اور اسے 26 میٹر بلند پتھر پر نصب کیا گیا ہے جو ستارے کی شکل کی 20 میٹر بلند بنیاد پر نصب ہے۔

اس مجسمے کے منتظم ادارے یونائیٹڈ سٹیٹس نیشنل پارکس کے حکام کے مطابق ہر سال جزیرہ آزادی جہاں یہ مجسمہ نصب ہے، وہاں ساڑھے تین کروڑ کے قریب لوگ آتے ہیں۔

مجسمہ آزادی

،تصویر کا ذریعہGetty Images

مگر اس مجسمے کی کہانی کیا ہے؟

مجسمہ آزادی ایک خاتون ہے جس نے یونانی لباس پہن رکھا ہے اور ایک ہاتھ میں کتاب اور ایک ہاتھ میں مشعل لیے ہوئے ہے۔ تو یہ کون ہے؟

یہ فرانسیسی آرٹسٹ فریڈیریک آگستے بارتھولدی کے نزدیک آزادی کا تصور ہے۔ یہ اب دنیا کا سب سے مشہور مجسمہ ہے اور آزادی کی عالمی علامت بن چکا ہے۔

سنہ 1834 میں شمال مغربی فرانس میں الساچے میں پیدا ہونے والے بارتھولدی نے پیر میں موجود ٹوٹی ہوئی زنجیر کو ظلم سے آزادی کی علامت بنایا اور سات ستونوں والے تاج کو دنیا کے سات برِ اعظموں اور یونانی دیومالائی کہانیوں کے مطابق سات سمندروں کا نمائندہ بنایا۔

یہ مجسمہ ایک ایسی شخصیت کا تصور پیش کرتا ہے جو آزادی کی جانب آگے بڑھ رہی ہے اور ہاتھ میں موجود مشعل اور کتاب اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ آزادی روشن خیالی سے ہی ملتی ہے۔

اسی لیے اس مجسمے کا باضابطہ نام ‘دنیا کو روشن کرنے والی آزادی’ ہے۔

فرانس کے دارالحکومت پیرس کی ورکشاپس میں اس کی تعمیر کے بعد 28 اکتوبر 1884 کو اس مجسمے کی رونمائی کی گئی۔

اس کے بعد امریکہ کے صدر گروور کلیولینڈ نے امریکی عوام کی جانب سے اس مجسمے کو فرانس کے تحفے کے طور پر قبول کرنے کا اعلان کیا۔

مگر کیا یہ اس مجسمے کو مصر میں ہونا تھا؟

اپنے کریئر کی ابتدا میں بارتھولدی نے آرٹ، مجسمہ سازی اور علمِ تعمیر کا گہرا مطالعہ کیا۔

سنہ 1855 میں وہ اپنے کچھ ساتھی فنکاروں کے ساتھ یورپ اور مشرقِ وسطیٰ کے ایک زندگی بدل دینے والے سفر پر نکل پڑے۔

مجسمہ آزادی

،تصویر کا ذریعہGetty Images

جب اُنھوں نے مصر میں ابوالہول کا مجسمہ اور اہرام دیکھے تو اُن میں یادگاری مجسمے بنانے کا شوق پیدا ہوا۔

سنہ 1869 میں مصر کی حکومت نے نہرِ سوئز کے لیے ایک روشنی کا مینار بنوانے میں دلچسپی کا اظہار کیا۔

بارتھولدی نے اس مینار کا ڈیزائن ایک ایسی لڑکی کے روپ میں تیار کیا جس نے سکارف پہنا ہوا تھا اور ہاتھ میں مشعل تھی۔ اُنھوں نے اسے ‘مصر’ کا نام دیا۔

سنہ 2005 میں بی بی سی کی ایک رپورٹ کے لیے بارتھولدی کے آبائی شہر میں بارتھولدی میوزیم کے ڈائریکٹر ریجس ہیوبرٹ نے کہا تھا کہ یہ بہت حیران کُن بات ہے کہ مجسمہ آزادی کو امریکہ کے شہر نیو یارک میں ہونے کے بجائے مصر میں نہرِ سوئز کے مقام پر ہونا تھا۔

اُنھوں نے بتایا تھا کہ بارتھولدی قدیم مصریوں کے کام سے بہت متاثر تھے اور اُنھوں نے نہرِ سوئز کے لیے مشعل تھامی خاتون کے مجسمے کا تصور پیش کیا تھا جس کی اُس وقت کھدائی جاری تھی اور اسے 1869 میں کھولا جانا تھا۔

ریجس ہیوبرٹ کے مطابق بارتھولدی ایک مرتبہ پھر 1869 میں مصر آئے اور اپنا تصور ایک ابتدائی صورت میں بنا کر مصر کے حکمران اسماعیل پاشا کو پیش کیا۔ اُنھوں نے اس کا نام ‘مصر مشرق کے لیے روشنی کا مینار’ رکھا تھا اور اسے نہرِ سوئز کے جنوبی داخلی راستے پر نصب کرنے کا مشورہ دیا۔

شروع میں تو اسماعیل پاشا نے اس منصوبے کی حوصلہ افزائی کی مگر کچھ عرصے بعد وہ اس سے پیچھے ہٹ گئے۔

جب بارتھولدی نے نہرِ سوئز کی افتتاحی تقریب میں شرکت کی تو اُنھیں بتایا گیا کہ مصر کے پاس اب اتنی دولت نہیں ہے کہ وہ اس مجسمے پر پیسے خرچ کرے۔

انسائیکلوپیڈیا بریٹانیکا کے مطابق بارتھولدی کا ڈیزائن ایک مصری کسان خاتون کے روپ میں تھا اور اُنھوں نے اس حوالے سے خود کبھی کوئی ریکارڈ نہیں چھوڑا۔

مگر بارتھولدی نے خاتون کا انتخاب حادثاتی طور پر نہیں کیا تھا بلکہ یورپ میں اقدار، تصورات اور یہاں تک کہ ممالک کو بھی خاتون کے روپ میں پیش کرنے کی فنی روایت صدیوں سے موجود ہے۔

اس مجسمے کو نہرِ سوئز کے بیچوں بیچ ایک بڑے سے چبوترے پر نصب کیا جانا تھا۔

انسائیکلوپیڈیا بریٹانیکا کے مطابق اس مجسمے کو مصر اور اس کی ترقی کا نمائندہ ہونا تھا اور مختلف ممالک کے جہاز نہرِ سوئز سے گزرتے ہوئے اسے دیکھتے اور مصر کے لوگ اس پر فخر کرتے۔

مگر اسماعیل پاشا کی جانب سے اس ڈیزائن کی پذیرائی کے باوجود مصر کی مالی صورتحال اتنی مضبوط نہ تھی چنانچہ اس منصوبے کو منسوخ کر دیا گیا۔

مجسمہ آزادی

،تصویر کا ذریعہGetty Images

مصر سے نیو یارک

مگر بارتھولدی کے ذہن میں یہ تصور تازہ رہا اور وہ اسے عملی جامہ پہنانے کے لیے موقع تلاش کرتے رہے۔ اسی دوران فرانسیسی دانشوروں نے فرانس کی جانب سے امریکی عوام کو انقلابِ امریکہ کے دوران فراہم کی گئی مدد کی علامت کے طور پر ایک مجسمہ تحفے میں دینے کی تجویز دی۔

بارتھولدی اس وقت کے مشہور فنکار تھے۔ اُنھوں نے فوراً اپنے نہرِ سوئز والے تصور کو دوبارہ زندہ کیا اور اس کے لباس کو مصری دہقانی لڑکی کے لباس کے بجائے یونانی لباس پہنایا۔

مصری لڑکی کے مجسمے میں روشنی کو سر سے نکلنا تھا مگر مجسمہ آزادی کے لیے روشنی کا منبع مشعل کو بنا دیا گیا۔

بارتھولدی سنہ 1871 میں امریکہ گئے جہاں اُنھوں نے حکام کے سامنے اپنا تصور پیش کیا اور اُنھیں اس کی منظوری مل بھی گئی۔

جلد ہی اس کے چبوترے کی تعمیر کے لیے 1875 میں عطیات اکٹھا کرنے کی مہم شروع کر دی گئی۔

یہ بھی پڑھیے

سنہ 1885 میں مجسمہ آزادی نیو یارک پہنچ چکا تھا مگر یہ ٹکڑوں کی صورت میں تھا اور اسے جوڑا جانا تھا۔

یہ مجسمہ فرانس کی جانب سے امریکہ کے لیے سفارتی تحفہ تھا چنانچہ مجسمے کی تعمیر پر اٹھنے والے اخراجات اُنھوں نے ہی ادا کیے تھے، تاہم امریکہ اس مجسمے کے لیے گرینائٹ کا چبوترہ تیار کرنے کے لیے ڈھائی لاکھ ڈالر اکٹھے نہیں کر سکا۔

میساچوسیٹس انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی میں سینٹر فار سوک میڈیا کے محقق روڈریگو ڈیویز کہتے ہیں کہ اخباری مہم اور عوام کی بڑی تعداد کی جانب سے عطیات کے باعث یہ چبوترہ بن گیا۔ اسے امریکہ کا پہلا کراؤڈ فنڈنگ منصوبہ کہا جا سکتا ہے۔

امریکن کمیشن آن سٹیچو آف لبرٹی کہلائے جانے والے ایک گروپ کا کام فنڈز اکٹھا کرنا تھا مگر یہ تب ناکام ہو گیا جب نیو یارک کے گورنر نے اس چبوترے کی تیاری کے لیے شہر کے فنڈز سے خرچہ کرنے سے انکار کر دیا اور کانگریس فنڈنگ پیکج پر اتفاق نہ کر سکی۔

اسی غیر یقینی صورتحال کے باعث بالٹی مور، بوسٹن، سان فرانسسکو اور فلاڈیلفیا نے کہا کہ وہ اس چبوترے کے لیے رقم ادا کریں گے اگر یہ اُن کے پاس منتقل کر دیا جائے۔

ایسا لگ رہا تھا کہ نیو یارک کے پاس اب آپشنز ختم ہو گئے ہیں مگر تب ہی مشہور پبلشر جوزف پلٹزر نے اپنے اخبار دی نیو یارک ورلڈ میں ایک عطیہ مہم شروع کی۔

اس مہم کے ذریعے ایک لاکھ 60 ہزار عطیہ کنندگان نے پیسے دیے جس میں بچے، کاروباری شخصیات، صفائی کا عملہ اور سیاستدان سبھی شامل تھے۔ تین چوتھائی سے زیادہ عطیات ایک ڈالر سے بھی کم تھے۔

یہ اس اخبار کی جانب سے اس پورے منصوبے کو بچانے کی ایک شاندار کاوش تھی جس میں عطیہ کنندگان کی ایک بڑی تعداد نے حصہ لیا۔

مسجمہ آزادی

اس مجسمے کی بنیاد 47 میٹر چوڑی ہے اور اسے امریکی انجینیئر رچرڈ مورس ہنٹ نے ڈیزائن کیا تھا۔ اسے 22 اپریل 1886 کو کھولا گیا۔

امریکی شاعرہ ایما لیزاروس کی ایک نظم اُن کی موت کے 16 سال بعد مجسمہ آزادی کے چبوترے پر ایک تانبے کی تختی پر کندہ کر کے نصب کی گئی ہے۔ اس نظم میں کہا گیا ہے کہ

یہاں پر ایک عظیم خاتون کھڑی ہوں گی

جن کا نام جلاوطنوں کی ماں ہو گا

اُن کا روشن ہاتھ دنیا بھر کو خوش آمدید کہے گا

اور وہ اپنے خاموش لبوں سے کہیں گی

اپنے غریب اور تھکے ماندے لوگ مجھے دو

اپنے وہ عوام جو آزادی کی سانس لینا چاہتے ہیں

یہ بے گھر، مشکلات کے مارے لوگ میرے پاس بھیجو

میں سنہری دروازے کے پاس مشعل بلند کروں گی

مسجمہ آزادی

،تصویر کا ذریعہGetty Images

مجسمہ آزادی کو مختصر عرصے کے لیے بند بھی رکھا گیا ہے۔ سنہ 1984 سے 1986 تک اسے سیاحوں کے لیے بند رکھا گیا جس دوران اسے 100 ویں سالگرہ کی مناسبت سے 1986 میں کھولنے سے قبل مزید مضبوط بنایا جاتا رہا۔

اس کے بعد 11 ستمبر 2001 کے حملوں کے بعد سکیورٹی خدشات کے باعث اسے بند کر دیا گیا۔ بیرونی حصے کو اسی سال 20 دسمبر کو دوبارہ کھول دیا گیا تھا، پھر چبوترے کو کڑی سکیورٹی کے ساتھ عوام کے لیے تین اگست 2004 کو کھولا گیا اور اس کے بعد سنہ 2009 میں مجسمے کا تاج ایک مرتبہ پھر لوگوں کے لیے کھول دیا گیا۔

اکتوبر 2011 میں فیصلہ کیا گیا کہ مرمت کے لیے اس مجسمے کو ایک سال کے لیے بند رکھا جائے گا۔

مرمت اور اضافوں میں نئی سیڑھیاں اور لفٹس شامل ہیں۔

مگر جزیرہ آزادی جہاں یہ مجسمہ نصب ہے، وہ لوگوں کے لیے کھلا رہا تھا۔

اس میں ایک نیا ایئر کنڈیشننگ سسٹم بھی نصب کیا گیا ہے تاکہ تانبے کے بنے اس مجسمے کو اندر سے ٹھنڈا رکھا جا سکے کیونکہ یہ گرمیوں میں بیرونی درجہ حرارت کے مقابلے میں 20 ڈگری زیادہ گرم ہو رہا تھا۔ سنہ 1980 کی دہائی میں یہاں پہلی مرتبہ ٹوائلٹس بنائے گئے۔

یونائیٹڈ سٹیٹس نیشنل پارک سروس کے مطابق اس پورے کام پر تین کروڑ ڈالر خرچ ہوئے ہیں اور اس میں نئے فائر الارمز، آگ بجھانے والے سسٹم اور ہنگامی اخراج کے راستے بھی شامل ہیں جس کے بعد اب یہ ریاست نیو یارک کے حفاظتی قوانین سے ہم آہنگ ہو گیا ہے۔

سنہ 1984 میں یونیسکو کی جانب سے اس مجسمے کو عالمی ورثے کی فہرست میں شامل کیا گیا اور اسے امریکی قومی ورثہ قرار دیا گیا ہے۔

ایک کشتی میں لوگوں کو جزیرہ آزادی تک لے جایا جاتا ہے جہاں سے وہ سیڑھیوں کے ذریعے تاج تک پہنچ سکتے ہیں اور وہاں سے نیو یارک کا نظارہ کر سکتے ہیں۔

BBCUrdu.com بشکریہ
You might also like

Comments are closed.