کیمرا: وہ ’زہرِ قاتل‘ جو سوویت یونین اپنے دشمنوں کو سفاکی سے خاموش کرانے کے لیے استعمال کرتا رہا
یہ کہا جاتا ہے کہ سنہ 1922 میں دل کا دورہ پڑنے کے بعد سوویت یونین کے پہلے رہنما ولادیمیر لینن اتنی تکلیف میں مبتلا تھے کہ انھوں نے اپنے جانشین جوزف سٹالن سے کہا کہ وہ ان کو سائنائیڈ دے دیں۔ سٹالن نے تو انکار کر دیا لیکن یہی وہ وقت تھا جب یہ معاملہ شروع ہوا۔
دوسروں کا دعویٰ ہے کہ سنہ 1918 میں بالشویک انقلاب کے دوران جب لینن کو گولی ماری گئی تو ان کے ڈاکٹروں کا خیال تھا کہ یہ گولی زہریلی بھی تھی اور یہیں سے سازش شروع ہوئی۔
لیکن کچھ ذرائع اس بات پر متفق ہیں کہ کریملن کا زہر کا کارخانہ سنہ 1920 کی دہائی کے اوائل میں لینن کے حکم سے قائم کیا گیا تھا۔
اس تحقیقی مرکز میں سوویت یونین اپنے دشمنوں کو ختم کرنے کے لیے نت نئے طریقے ایجاد کرتا تھا، جن کا سراغ لگانا ناممکن تھا۔
خیال کیا جاتا ہے کہ اس کام کی ابتدا سوویت روس کی پہلی سیاسی اور فوجی انٹیلیجنس تنظیم سے ہوئی تھی جس کا کام انقلاب کے خلاف کام کرنے والوں کا راستہ روکنا تھا۔
جس طرح سوویت خفیہ سروس کا نام بار بار بدلا گیا، اسے بھی نت نئے نام دیے گئے۔ پہلے اسے ’خصوصی دفتر‘ کہا گیا اور بعد میں اس کے لیبارٹری 1، لیبارٹری ایکس، لیبارٹری 12 جیسے نام بھی رکھے گئے۔ سٹالن کے زمانے میں اسے کیمرا یا ’دی چیمبر‘ کے نام سے جانا جاتا تھا۔
روسی زبان میں ’کیمرا‘ کا مطلب جیل ہے۔
یہ کتنا پراسرار تھا، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ سوویت یونین کے زوال کے بعد اس کی کئی خفیہ مہمات افشا ہوئیں، جن میں کئی لوگوں نے اس کی موجودگی کی تصدیق کی لیکن آج تک ’کیمرا‘ ایک راز ہی ہے۔
جوزف اسٹالن
طاقتور ہتھیار
زہر کو سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کی روایت پرانی ہے۔ یہ بات بھی یقینی ہے کہ سوویت یونین نہ تو اسے استعمال کرنے والا پہلا ملک تھا اور نہ ہی آخری۔
یاد رہے کہ سنہ 1960 میں امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے نے کیوبا کے رہنما فیڈل کاسترو کو قتل کرنے کی منصوبہ بندی کی تھی تو ایک طریقہ یہ بھی سوچا گیا تھا کہ ان کو بوٹولینم زہر بھرا سگار دیا جائے ۔ فیڈل کاسترو کو سگار پینے کا شوق تھا۔
جب بھی کسی خاص شخص کو قتل کرنے کا منصوبہ بنایا گیا تو اس میں مہلک اور مؤثر زہر کا استعمال شامل تھا۔
ایسا زہر جو مار بھی دے اور سراغ بھی نہ چھوڑے
کیمرا کا مقصد ایک ایسا زہر تیار کرنا تھا جو بے ذائقہ ہو اور پوسٹ مارٹم میں اس کا پتا نہ چل سکے تاکہ موت غیر فطری محسوس نہ ہو۔
سنہ 1957 میں سوویت مخالف مصنف لیو ریبٹ کی موت دل کا دورہ پڑنے سے ہوئی یا یہ خیال کیا جاتا ہے کہ ان کی موت دل کا دورہ پڑنے سے ہوئی۔ چار سال بعد، کے جی بی کے ایک شخص نے دعویٰ کیا کہ اس نے سائینائیڈ کی شیشی سے لیو ریبٹ کے چہرے پر زہریلی گیس چھڑکائی تھی۔
ایک اور سیاستدان ریڈنگ لیمپ پر چھڑکائے گئے زہر سے ہلاک ہوئے۔ بلب سے نکلنے والی گرمی کی وجہ سے وہ زہر پورے کمرے میں پھیل گیا تھا۔
کے جی بی کے ایجنٹس نے سوڈیم فلورائیڈ کا بھی استعمال کیا، جو ایک مخصوص خوراک میں استعمال کیا جائے تو موت کی وجہ معلوم نہیں ہو سکتی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بہت سے لوگ اسے اپنی عام زندگی میں استعمال کرتے ہیں اور یہ ان کے خون میں پہلے سے موجود ہوتا ہے۔
یہ بھی پڑھیے
تھیلیم، جو چوہوں کو مارنے کے کام آتا ہے، بھی لوگوں کو مارنے کے لیے استعمال ہوتا تھا۔
اگرچہ ڈاکٹر تھیلیم کی علامات سے واقف ہوتے ہیں لیکن ان کے لیے بھی یہ جاننا کافی مشکل ہوتا ہے کہ کیا کسی قتل نے اسے کسی شخص کے جسم میں داخل کیا اور آیا تابکار تھیلیئم کی نقصان دہ شعاعیں کسی کی آہستہ آہستہ موت کی وجہ بنیں۔
جب تک کسی کے جسم کا معائنہ کیا جائے گا، تھیلیم غائب ہو جائے گی اور اس کے زہر کا کوئی ثبوت نہیں بچے گا۔
کچھ کیسز میں زہر کا پتا بھی چلا لیکن قاتل کا سراغ لگانا ناممکن تھا۔ ان معاملات میں، قتل کے لیے گمنام ہتھیاروں کے استعمال کے بارے میں بات کی جاتی۔
ایک خاص فاصلے سے چہرے پر گولی لگنے کی صورت میں خودکشی کا دعویٰ بمشکل ہی کیا جاسکتا ہے لیکن زہر کی صورت میں ایسا ہر امکان نظر آتا ہے اور قاتل اس کا فائدہ اٹھاتے ہیں۔
دوسری طرف، زہر دوسروں کے لیے ایک انتباہ یا سبق کے طور پر کام کر سکتا ہے کہ وہ دیکھ سکتے ہیں کہ اگر وہ اپنی حدود سے تجاوز کرتے ہیں تو بعد میں ان کے ساتھ کیا ہو گا۔
بعض زہر ایسے ہوتے ہیں کہ ان سے فوری موت واقع ہوتی ہے جبکہ بعض کی موت بہت تکلیف دہ ہوتی ہے۔
انسانوں پر تجربات
سوویت یونین کی اس لیبارٹری کے وجود کے بارے میں پہلا حوالہ مغرب کی توجہ میں اس وقت آیا جب وسیلی میتروخین کے ہاتھ سے تیس سال میں لکھ گئی دستاویزات کے چھ ٹرنکس سامنے آئے۔
وسیلی میتروخین نے یہ دستاویزات کے جی بی کے فارن انسٹیٹیوٹ اور پہلے مین ڈائریکٹوریٹ میں آرکائیوز کے طور پر اپنے دور میں جمع کیے تھے۔
بہت سے سابق روسی انٹیلیجنس افسران، کچھ ریٹائرڈ اور کچھ منحرف، سیکرٹ سروس کے بہت سے رازوں سے پردہ اٹھا چکے ہیں۔
تاہم سب سے پریشان کن معلومات اس وقت سامنے آئیں جب سٹالن کے سابق جاسوس پاول سوڈوپلاٹو نے لیبارٹری اور اس کے ڈائریکٹر پروفیسر گریگوری مارانووسکی کے بارے میں لکھا۔
انھوں نے بتایا کہ مارانووسکی باقاعدہ چیک اپ کی آڑ میں لوگوں کو زہر کا ٹیکہ لگاتا تھا۔
سٹالن کی خفیہ پولیس کے سربراہ لیورینٹی بیریا اور جنرل وسیلی بلوخین کے حکم پر، کیمرا کی مصنوعات گلاگ ٹارچر سینٹر میں قیدیوں پر استعمال کی گئیں۔ ان میں مسٹرڈ گیس، سائینائیڈ اور دیگر کئی زہر شامل تھے۔
اس کے متاثرین میں مبینہ طور پر ایک سویڈش سفارتکار راؤل والنبرگ بھی شامل تھے جو سوویت یونین کی حراست میں پراسرار طور پر ہلاک ہو گئے تھے۔ اس کے ساتھ کچھ یوکرینی قوم پرست اور منحرف افراد کو بھی اس کا شکار ہونا پڑا۔
مارکوف بلغاریہ کے ایک معروف مصنف تھے۔ تصویر میں ان کے ساتھ ان کی اہلیہ اینابیل اور ان کی بیٹی الیگزینڈرا بھی ہیں۔
سوویت یونین سے عالمی سطح پر
ماہرین کے مطابق، جب سرد جنگ اپنے عروج پر تھی، سیاسی حریفوں، منحرف افراد، جلاوطنوں اور آزادی کے حامی رہنماؤں پر اعصابی ایجنٹس اور کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کا ایک پیٹرن سامنے آیا۔
ان گنت لوگوں نے اس کی ہولناکیوں کا سامنا کیا تھا۔ روس کی ملٹری انٹیلیجنس سروس میں خدمات انجام دینے والے The KGB Poison Factory کے مصنف نے وال سٹریٹ جرنل کے لیے اپنے مضمون میں لکھا کہ جب کوئی زہر ملا ہی نہ ہو تو اس کے شکار کی گنتی کون کر سکتا ہے؟
کے جی بی نے سوویت یونین کے اواخر میں اپنے دشمنوں کو خاموش کرنے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا تھا۔
کے جی بی کے ایجنٹ اولیگ کالوگین نے اعتراف کیا کہ سنہ 1978 میں لندن میں بی بی سی کے صحافی جارج ایوانوو مارکوو کے قتل میں سوویت یونین ملوث تھا۔
لیکن آج بھی یہ یقینی طور پر معلوم نہیں کہ آیا وہ تجربہ گاہ کبھی بند ہوئی تھی یا اس کی کوئی شکل اب بھی روس میں کہیں موجود ہے۔
Comments are closed.