وہ جاسوس جو دوسری عالمی جنگ کے کئی مشکل محاذوں سے بچ نکلیں لیکن اپنے سابق عاشق کے ہاتھوں ماری گئیں
،تصویر کا ذریعہGetty Images
دوسری عالمی جنگ میں سب سے طویل عرصے تک خدمات انجام دینے والی برطانیہ کی جاسوس کرسٹین گرین ویل نے یورپ بھر میں ان گنت بار اپنی زندگی کو خطرے میں ڈالا، لیکن آج ان کے کردار کے بارے میں بہت کم لوگ جانتے ہیں۔
پندرہ جون 1952 کو گرینول مغربی لندن کے ہوٹل میں واپس آئیں، جسے وہ اپنا گھر کہتی تھیں، کیونکہ انجن کی خرابی کی وجہ سے بیلجیئم کے لیے ان کی پرواز منسوخ کر دی گئی تھی۔
پہلی منزل پر اپنے کمرے کی جانب جانے کے بعد، انھوں نے لابی میں ایک شخص کو ان کا نام پکارتے ہوئے سنا اور جو کچھ خطوط واپس کرنے کا مطالبہ کر رہا تھا۔ نیچے، ان کا سامنا ان کے سابق محبوب سے ہوا جس نے اچانک ان کے سینے میں چاقو مارا، جس سے وہ بری طرح زخمی ہو گئیں۔
دوسری عالمی جنگ کے دوران مختلف محاذوں پر کئی خطرناک حالات سے بچنے کے بعد یہ ایک تلخ ستم ظریفی تھی کہ وہ کینسنگٹن کے ایک ہوٹل کے بظاہر محفوظ ماحول میں اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھیں۔
وہ مئی 1908 میں ماریا کرسٹینا جینینا سکربیک کے نام سے پیدا ہوئیں، ان کے والد کا تعلق پولینڈ سے تھا اور اپنی والدہ کی طرف سے وہ بینکنگ سے تعلق رکھنے والے ایک یہودی خاندان کی وارث تھیں۔
انھوں نے اپنے ابتدائی سال ایک عظیم الشان ملک کی جاگیر پر آزادانہ طور پر گزارے، ایک ایسا بچپن جس نے ان کی بعد کی زندگی پر گہرا اثر ڈالا۔
کرسٹین گرین ویل کی سوانح حیات ’دی سپائی ہو لوڈ‘ (The Spy Who Loved) کی مصنفہ تاریخ دان کلیر مولے کہتی ہیں کہ ’ان کی پرورش بہت زیادہ آزادی اور محبت سے ہوئی، انھیں گھوڑے پر سوار ہونا، شاٹ گن چلانا اور اس طرح کی تمام چیزیں سکھائی گئی تھیں۔‘
ستمبر 1939 میں وہ اپنے دوسرے شوہر، پولینڈ کے سفارت کار کے ساتھ جنوبی افریقہ کا سفر کر رہی تھیں، جب انھوں نے سنا کہ ان کے ملک پر نازی جرمنی نے حملہ کیا ہے۔ یہ جوڑا جنگ میں شامل ہونے کے لیے براہ راست برطانیہ چلا گیا جبکہ ان کے شوہر اتحادی افواج میں شامل ہونے کے لیے فرانس چلے گئے۔
،تصویر کا ذریعہGetty Images
گرین ویل کا ایک مختلف منصوبہ تھا کہ وہ کس طرح تبدیلی لا سکتی ہیں۔ مولے کا کہنا ہے کہ ’وہ ایم آئی 6 کے خفیہ ہیڈ کوارٹر ز کی طرف روانہ ہو گئیں۔‘
گرین ویل نے کارپاتھین پہاڑوں کو عبور کر کے نازی مقبوضہ پولینڈ میں سکی کرنے کا منصوبہ پیش کیا تاکہ اتحادیوں کے پروپیگنڈا مواد اور فنڈز پہنچائے جا سکیں اور قبضے کے بارے میں انٹیلیجنس معلومات واپس لائی جا سکے۔
چونکہ ان کے پاس مشرقی یورپ میں ہونے والے واقعات کے بارے میں محدود معلومات تھیں، لہٰذا یہ ایک ایسا منصوبہ تھا جسے برطانیہ کے جاسوس سربراہوں نے پسند کیا اور مولی کے مطابق گرین ویل کو فوری طور پر ایم آئی 6 کی پہلی خاتون کے طور پر بھرتی کر لیا گیا۔
آنے والے برسوں میں یہ خاتون انٹیلیجنس کمیونٹی میں مشہور ہو گئیں۔
مولے بتاتی ہیں کہ ’وہ ایک ایسی امیر خاتون تھیں جن کے رابطے ان تمام لوگوں سے تھے، جو مشہور تھے۔‘
وہ تمام زبانیں بولتی تھیں اور وہ جانتی تھیں کہ ریڈار سے بچ کر کیسے اندر اور باہر نکلا جاتا ہے کیونکہ جب وہ بور ہو جاتیں تو صرف تفریح کے لیے سرحد کے پار سگریٹ سمگل کرتی تھیں۔ وہ خود تمباکو نوشی نہیں کرتی تھیں۔
ہنگری، مصر اور فرانس میں ایم آئی 6 کے لیے پوسٹنگ کے دوران وہ متعدد سرحدوں پر سفر کرتی تھیں، کبھی گاڑی کے بوٹ میں چھپ جاتی تھیں، کبھی مشین گن کی فائرنگ سے بھاگتی تھیں اور اکثر جنگ کے دوران کسی ایسے شخص کے ساتھ بھاگتیں جو ان کے بہت سے عاشقوں میں سے کوئی ایک ہوتا۔
ایک موقعے پر انھیں ایک مائیکرو فلم موصول ہوئی جس میں جرمن افواج کو سوویت سرحد کے ساتھ قطار میں کھڑے دکھایا گیا تھا۔ جو ایک متوقع حملے کی طرح لگ رہا تھا۔ یہ فلم ونسٹن چرچل کو بھجوائی گئی، جن کی بیٹی سارہ کے مطابق انھوں نے گرین ویل کو اپنا پسندیدہ ایجنٹ قرار دیا تھا۔
دو بار جرمنوں نے انھیں پکڑ لیا اور پوچھ گچھ کی گئی لیکن وہ خود کو آزاد کرنے میں کامیاب ہو گئیں۔ ایک موقعے پر انھوں نے اپنی زبان کو اتنی زور سے کاٹ کر اپنے اغوا کاروں کو قائل کیا کہ انھیں تپ دق ہے۔
مولے کہتی ہیں ’ان کا سب سے بڑا ہتھیار ان کا دماغ تھا۔ وہ بہت تیزی سے سوچتی تھیں۔ کیسے اپنا راستہ بنانا اور کیسے وہاں سے نکلنا ہے۔‘
یہاں تک کہ جانور بھی بظاہر ان کی کشش کا مقابلہ کرنے سے قاصر تھے۔ اپنی کتاب میں مولے نے دو مواقع کا ذکر کیا ہے جب گرین ویل سرحدی دستوں کی طرف سے رکھے گئے ایک محافظ کتے کو اپنے پالتو جانور میں تبدیل کرنے میں کامیاب ہو گئی تھیں ، جو ان کے اشاروں اور کال کی پیروی کرتا تھا۔
اپنی تیز ذہانت اور بے پناہ ہمت کے ساتھ گرین ویل ہیرا پھیری اور قائل کرنے میں ماہر تھی۔
سنہ 1944 میں وہ الپس میں سٹریٹجک پاس پر مبنی ایک جرمن گیریژن پر چڑھ گئیں۔ لاؤڈ سپیکر کا استعمال کرتے ہوئے انھوں نے 63 پولش افسران کے ایک گروپ کو جنھیں زبردستی جرمن فوج میں شامل کیا گیا تھا، انھیں مجبور کیا کہ وہ فوجی تنصیبات کو سبوتاژ کر دیں، جس کی وجہ سے گیریژن کے کمانڈر نے ہتھیار ڈال دیے۔
اسی دن انھیں پتا چلا کہ ان کے سپیشل آپریشنز ایگزیکٹو (ایس او ای) کمانڈر اور عاشق کو جنوب مشرقی فرانس میں دو دیگر ایجنٹوں کے ساتھ گرفتار کر لیا گیا تھا اور انھیں فائرنگ سکواڈ کے ہاتھوں سزائے موت دی جانی تھی۔
اپنی حفاظت کو بہت زیادہ خطرے میں ڈالتے ہوئے وہ جیل میں گھس کر ان سب کو رہا کرنے میں کامیاب ہو گئیں۔
انھوں نے وہاں یہ دعویٰ کیا کہ وہ فیلڈ مارشل مونٹگمری کی بھتیجی ہی اور انچارج افسر کو مطلع کیا کہ امریکی حملہ ہونے والا ہے۔
،تصویر کا ذریعہGetty Images
ان کی بہادری کے باوجود جنگ کے اختتام پر گرین ویل کو اس ملک جانا تھا جس کے لیے انھوں نے بار بار اپنی زندگی کو خطرے میں ڈالا تھا اور بظاہر اسے چھوڑ دیا تھا۔
مولے بتاتی ہیں کہ ’برطانوی فائلوں میں آخری اندراج جو ان سے متعلق ہے اور یہ صرف اس کا ایک اقتباس ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ ’وہ اب مطلوب نہیں۔‘
’نوجوان مرد، ان میں سے کچھ نے خود بھی جنگ میں خدمات انجام نہیں دیں، وہ صرف یہ کہتے ہیں کہ ’مجھے شک ہے کہ انھوں نے یہ سب کیا ہوگا‘ اور ’ایسا لگتا ہے کہ یہ چھوٹی سی لڑکی جھوٹ بول رہی ہے‘ اور ’انھیں تسلیم کرنا بہت مشکل ہے‘۔ یہ بہت توہین آمیز، ناقابل یقین حد تک جنسی تصیب پر مبنی چیز ہے۔‘
اگرچہ گرین ویل سوویت خفیہ اداروں کی طرف سے نشانہ بنائے جانے کے امکان کی وجہ سے پولینڈ واپس جانے سے قاصر تھیں لیکن ان کے عارضی برطانوی کاغذات کی تجدید نہیں کی گئی تھی اور انھیں برطانیہ چھوڑنا پڑا تھا۔
گرین ویل اپنی جنگی کوششوں کے لیے جارج میڈل اور او بی ای کو قبول کرنے سے انکار کرنے کے لیے برطانیہ واپس آئیں، وہاوں انھوں نے حکومت کو شرمندہ کیا جس کے بعد حکومت بالآخر انھیں اپنی شہریت کی پیشکش کرنے پر مجبور ہو گئی۔ آخر میں انھوں نے ایوارڈز قبول کر لیے۔
شیلبورن ہوٹل میں رہتے ہوئے اپنے دورانِ جنگ فرار کے دنوں میں کیفے میں ویٹر بن کر رہیں اور ہیروڈز میں فراک فروخت کیے اور آخر میں انھوں نے مسافر جہاز پر کلینر کی نوکری بھی کی۔
مولے کہتی ہیں ’یاد رہے کہ جب وہ برطانیہ میں خدمات انجام دینے آئی تھیں تو وہ جنگ کے آغاز میں اپنے سفارت کار شوہر کے ساتھ تھیں اور وہ مسافر جہاز پر فرسٹ کلاس میں سفر کر کے پہنچے تھے جبکہ جنگ کے اختتام پر انھیں باتھ روم کا سٹیورڈ بننا پڑا لیکن کم از کم اس سے انھیں آزادی کا احساس تو ملتا تھا۔‘
اس کے باوجود گرین ویل کو ایک بار پھر امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑا جب جہاز کے کپتان نے ایک موقعے پر اپنے عملے سے جنگ کے دوران حاصل کردہ تمغے پہننے کی درخواست کی تھی۔ تین محاذوں پر خدمات انجام دینے کے بعد گرین ویل نے متعدد اعزازات حاصل کیے تھے لیکن ان کے ساتھی کارکنوں نے الزام لگایا۔
لیکن ایک آدمی، جو ان کا ساتھی سٹیورڈ تھا، ان کے لیے کھڑا ہوا۔ ان کا نام ڈینس جارج ملڈونی تھا۔
اس جوڑے نے رشتہ شروع کیا لیکن گرین ویل جلد ہی اس سے بور ہو گئیں۔ اس کے باوجود، جنونی فطرت والے ملڈونی نے انھیں اس رات تک ہراساں کرنا جاری رکھا جب تک کہ انھوں نے شیلبورن ہوٹل میں انھیں قتل نہیں کردیا۔
مولے کہتی ہیں ’وہ نیچے آ گئیں۔۔۔ اس نے ان پر حملہ کر دیا اور وہ چیخنے لگیں۔ وہ حملے کے چند سیکنڈ کے اندر ہی مر گئیں۔ یہ بلیڈ سیدھا ان کے دل میں چلا گیا تھا‘
ملڈونی کو 10 ہفتے بعد پھانسی دے دی گئی۔ اگرچہ یہ قتل صفحہِ اوّل کی خبر بن گیا تھا لیکن گزرتے برسوں کے دوران گرین ویل کی کہانی یادوں سے اوجھل ہو گئی۔
مولے کہتی ہیں ’وہ اتنا زیادہ ایکشن کرنے والی تھیں جو ایک خاتون کے لیے زیادہ ہے اور ایک مرد سپاہی بننے کے لیے بہت زیادہ عورت تھیں۔ وہ اتنی انگریز تھیں کہ انھیں پولش نہیں سمجھتے تھے اور انھیں پولینڈ میں کبھی بھی اعزاز سے نوازا نہیں گیا اور پھر بھی وہ اتنی پولش تھیں کہ برطانوی انھیں حقیقی برطانوی نہیں سمجھتے تھے۔‘
مولے جو گرین ویل کی کامیابیوں کو زیادہ وسیع پیمانے پر تسلیم کروانے کے لیے کام کر رہی ہیں، وہ سنہ 2020 میں نمبر 1 لیکسم گارڈن پر ایک نیلی تختی لگانے میں کامیابی ہو گئیں۔ یہاں کبھی شیلبورن ہوٹل تھا اور آج بھی ایک ہوٹل ہے۔
مولے کہتی ہیں کہ ’وہ نظر اداز کر دی گئیں اور مجھے لگتا ہے کہ ان کی کہانی کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔ اس لیے میں اکیلی ہی ان کو سراہ رہی ہوں۔‘
Comments are closed.