ایکواڈور میں گینگسٹرز کے فرار کے بعد ایمرجنسی: منشیات سمگلنگ میں ملوث گروہ یہاں کیسے راج کرتے ہیں؟

تصویر

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

چونیروس نامی مافیا گینگ کے سرغنہ ایڈولفو ماتھیاس ولامار عرف فیتو دو روز قبل جیل سے لاپتہ ہو گئے تھے

لاطینی امریکہ کا ملک ایکواڈور اِن دنوں ایک ’اندرونی مسلح تصادم‘ کا شکار ہے اور ملک میں بگڑتی امن و امان کی صورتحال کے پیش نظر صدر ڈینیئل نوبوا نے پیر کو ملک میں 60 روزہ ایمرجنسی کے نفاذ کا اعلان کیا ہے اور ملک میں امن قائم رکھنے کے لیے فوج طلب کر لی گئی ہے۔

صدر نوبوا نے منگل کو کہا کہ ملک میں اب ایک ’اندرونی مسلح تصادم‘ موجود ہے اور وہ ’اسے ختم کرنے کے لیے فوجی آپریشن‘ کرنے کے لیے فوج کو طلب کر رہے ہیں۔

صدر نوبوا کی جانب سے فوج طلب کرنے کا فیصلہ ایک بدنام زمانہ گینگسٹر کے انتہائی سکیورٹی جیل سے اچانک غائب ہو جانے اور اس کے بعد مسلح افراد کی جانب سے ایک ٹیلی ویژن چینل میں گھس کر اس کے عملے کو براہ راست نشریات کے دوران یرغمال بنانے اور دھمکانے کے بعد سامنے آیا ہے۔

اس کے ساتھ ایسے واقعات بھی رپورٹ ہوئے ہیں کہ مسلح گینگز کے کارندوں نے یونیورسٹیوں اور دیگر سرکاری اداروں میں زبردستی داخل ہونے کی کوشش کی اور کئی مقامات پر لوٹ مار بھی کی۔

صدر کی جانب سے ہنگامی حالت کا اعلان کرنے کے بعد ملک کی چھ بڑی جیلوں میں پولیس اہلکاروں کے اغوا اور دو بڑے جرائم پیشہ گروہوں کے رہنماؤں کے فرار کے سنگین واقعات بھی پیش آئے ہیں۔

ایکواڈور میں نقاب پوش مسلح افراد نے ایک لائیو ٹیلی ویژن سٹوڈیو میں گھس کر خوفزدہ عملے کو دھمکیاں دیں۔ ٹی وی نشریات کی لائیو فیڈ ختم ہونے سے پہلے گویاکیل شہر میں عوامی ٹیلی ویژن چینل کی نشریات کے دوران ملازمین کو فرش پر لیٹنے پر مجبور کیا گیا۔

حملہ آوروں کو بعد میں کئی یرغمالیوں کے ساتھ سٹوڈیو سے نکلتے ہوئے دیکھا گیا۔ جبکہ پولیس نے متعدد افراد کو گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔ تاہم یہ واضح نہیں ہے کہ آیا گویاکیل شہر کے ٹی وی سٹوڈیو میں پیش آنے والے واقعے کا تعلق اسی شہر کی ایک جیل سے چونیروس نامی مافیا گینگ کے سرغنہ ایڈولفو ماتھیاس ولامار عرف فیتو کے جیل سے لاپتہ ہونے سے تھا۔

ایکواڈور کی بگڑتی صورتحال کے باعث پڑوسی ملک پیرو میں حکومت نے ملک میں عدم استحکام سے بچاؤ کے لیے سرحد پر پولیس فورس کی فوری تعیناتی کا حکم دیا ہے۔

امریکہ نے کہا ہے کہ وہ ایکواڈور میں ’کھلے عام حملوں‘ کی مذمت کرتا ہے اور صدر ڈینیئل نوبوا اور ان کی حکومت کے ساتھ ’بھرپور تعاون‘ کر رہا ہے اور ’مدد فراہم کرنے کے لیے تیار‘ ہے۔

منگل کو ٹی وی سٹوڈیو پر کیے جانے والے حملے میں ایک نقاب پوش مسلح شخص کو زیر حراست عملے کو رائفل اور ریوالور سے دھمکاتے دیکھا گیا ہے جبکہ ایک خاتون کی جانب سے بھی گولی نہ چلانے کی استدعا سنی گئی ہے۔

ایکواڈور

،تصویر کا ذریعہReuters

،تصویر کا کیپشن

ٹی وی چینل میں یرغمال بنائے گئے عملے کے اراکین

دوسری طرف منگل کی صبح تقریباً 40 قیدی جن میں ایک اور سزا یافتہ منشیات فروش گروہ کا سرغنہ بھی شامل تھا ریوبمبا شہر کی ایک جیل سے فرار ہو گئے۔

اس واقعے میں کم از کم سات پولیس افسران کو اغوا کر لیا گیا اور سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی ایک ویڈیو میں دکھایا گیا ہے کہ مغوی اہلکاروں میں سے تین کو زمین پر بیٹھنے اور صدر نوبوا کے نام ایک بیان پڑھنے پر مجبور کیا گیا۔

جرائم پیشہ افراد کی جانب سے صدر کے نام بیان میں کہا گیا کہ ’آپ نے جنگ کا اعلان کیا، آپ کو جنگ ملے گی، آپ نے ہنگامی حالت کا اعلان کیا۔ ہم پولیس، شہریوں اور فوجیوں کو جنگ کا سامان قرار دیتے ہیں۔‘

ایکواڈور کے شہر کوئٹو کے رہائشیوں نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا کہ گویاکیل میں ٹی وی سٹیشن پر حملے کی خبر کے بعد سے شہر افراتفری کا شکار ہے۔

حالیہ برسوں میں ملک کی جیلیں حریف جرائم پیشہ گروہوں کے قید ارکان کے درمیان پرتشدد جھگڑوں کا شکار رہی ہیں، جس کے نتیجے میں اکثر قیدیوں کا قتل عام ہوتا رہا ہے۔

چونیروس بھی ایسا ہی ایک طاقتور جیل گینگ ہے جس کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ حالیہ برسوں کے دوران ایکواڈور کی جیلوں میں پھوٹنے والے بہت سے مہلک فسادات کے پیچھے اس کا ہاتھ ہے۔

ایکواڈور دنیا کے کیلے کے سب سے بڑے برآمد کنندگان میں سے ایک ہے، لیکن تیل، کافی، کوکو، کیکڑے اور مچھلی کی مصنوعات بھی برآمد کرتا ہے۔ ملک میں حالیہ تشدد کی لہر کا تعلق امریکہ اور یورپ تک کوکین کے راستوں پر کنٹرول کے لیے یہاں موجود غیر ملکی اور مقامی منشیات کے گروہوں کے درمیان لڑائی ہے۔

ہم یہاں ان چند اہم وجوہات کا جائزہ لیتے ہیں جو تشدد اور عدم تحفظ کے اس سنگین بحران کو سمجھنے میں مدد کر سکتی ہیں جس کا ایکواڈور آج سامنا کر رہا ہے۔

ایکواڈور

،تصویر کا ذریعہGetty Images

جرائم پیشہ گروہوں کی طاقت

ایکواڈور

،تصویر کا ذریعہGetty Images

ایکواڈور شدید سکیورٹی بحران کا شکار ہے اور یہ صورتحال گذشتہ تین برسوں کے دوران مزید خراب ہوئی ہے۔

سنہ 2023 میں اس ملک میں 7878 قتل کے واقعات ہوئے جو ایکواڈور کی تاریخ میں بلند ترین تعداد تھی جبکہ ان میں سے صرف 584 واقعات کے مقدمات کو حل کیا گیا۔

ملک منشیات کی ذخیرہ اندوزی، پروسیسنگ اور سمگلنگ کے لیے ایک اہم علاقائی مرکز بن چکا ہے اور یہاں 20 سے زیادہ جرائم پیشہ گروہ منظم طریقے سے کام کر رہے ہیں۔

یہ جرائم پیشہ گینگ جن کے مرکزی کمانڈ اور آپریشن سینٹرز جیلوں میں ہیں، میکسیکو اور کولمبیا کے منشیات کے بڑے کارٹلز یعنی گروہوں سے منسلک ہیں۔

چونیروس، لوبوس، لگارٹوس یا ٹائیگورونز نامی چند گینگ مشہور ہیں اور وہ ایکواڈور میں اندرونی تنازعات یا حکومت، اداروں اور سماج میں تشدد کے واقعات میں ملوث ہیں۔

گذشتہ سال اگست میں صدارتی امیدوار فرنینڈو ولاویسینسیو کو کرائے کے قاتلوں نے قتل کر دیا تھا اور اس جرم کا ابھی تک کوئی سراغ نہیں ملا لیکن بہت سے تجزیہ کاروں کے خیال میں ان جرائم پیشہ گروہوں میں ہی سے ایک گروہ اس کارروائی میں ملوث تھا۔

ایکواڈور کے سیاسی تجزیہ کار آندریس چیریبوگا نے بی بی سی کو بتایا کہ ’یہ اور دیگر جرائم ظاہر کرتے ہیں کہ کچھ عرصے سے بڑی حد تک ملک میں گینگز کا کنٹرول ہے اور وہ ملک کا سیاسی نظام تک مفلوج کیے ہوئے ہیں۔‘

ان کا مزید کہنا ہے کہ ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ منشیات کے پیسے کی بدولت یہ گینگ ہر جگہ موجود ہیں اور ان کے ٹھکانے اور جڑیں نہ صرف ایکواڈور کے ہر ہر کونے تک پھیل گئی ہیں بلکہ کرپشن کے ذریعے انھوں نے سرکاری اداروں پر بھی اپنا کٹرول مستحکم کیا ہوا ہے۔

آندریس چیریبوگا وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’ایک اہم عنصر نہ صرف آبادی میں بلکہ پولیس، مسلح افواج سمیت بہت سے اداروں میں ان کا سرایت کرنا ہے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’صرف اسی وجہ سے ان مافیا گینگز کے سرغنوں کی جیل سے فرار کی وضاحت کی جا سکتی ہیں جیسا کہ حال ہی میں چونیروس گینگ کے بدنام زمانہ گینگ لیڈر فیتو فرار ہونے میں کامیاب ہوئے۔‘

یاد رہے کہ جرائم پیشہ گینگ لاس چونیروس کے سرغنہ 2011 سے منظم جرائم، منشیات کی سمگلنگ اور قتل کے جرم میں 34 سال کی سزا کاٹ رہے تھے مگر دو روز قبل وہ اچانک جیل سے غائب ہو گئے۔

نومنتخب صدر نوبوا کی صدارت پر ردعمل

ایکواڈور

،تصویر کا ذریعہGetty Images

ڈینیئل نوبوا 23 نومبر 2023 کو اقتدار میں آئے تھے اور ابھی انھیں صدارتی عہدہ سنبھالے تقریباً دو ماہ ہوئے ہیں تاہم انھیں سکیورٹی صورتحال کے باعث اب تک ملک میں اپنا منشور نافذ کرنے کا وقت ہی نہیں ملا ہے۔

انھیں انتخابی مہم کے دوران ایکواڈور کی معیشت اور خصوصاً سکیورٹی پر توجہ مرکوز کرنے کے وعدوں پر عوام کی اکثریت کی حمایت حاصل ہوئی تھی۔ اگرچہ اب تک انھوں نے خود کو ایک اعتدال پسند سیاست دان کے طور پر پیش کیا ہے اور ایسے اقدامات کیے ہیں جن کا مقصد جرائم پیشہ گروہوں کو کمزور کرنا تھا۔

انھوں نے جیلوں میں بڑی اصلاحات کو فروغ دینے کا وعدہ کیا، ایک ایسے نظامِ تقسیم کے ساتھ جو انتہائی متشدد اور خطرناک قیدیوں کو الگ تھلگ کرنے کی اجازت دے گا۔

انھوں نے اپنے تازہ ترین اقدام میں خطرناک مجرموں کو قید رکھنے اور جیل سے ان کی سرگرمیوں کو روکنے اور بیرونی دنیا سے ان کا رابطہ توڑنے کے لیے ساحلوں سے دور سمندر میں تیرتی جیلیں قائم کرنے کی کوششیں بھی کی ہیں۔

نوبوا چھوٹے پیمانے پر منشیات کے استعمال کو قابل جرم بنانے، سنگین جرائم کے لیے ایک جیوری کا نظام بنانے اور سڑکوں اور سرحدوں پر منظم جرائم کو روکنے کے لیے ڈرون اور ریڈار جیسی تکنیکی ترقی میں سرمایہ کاری کرنا چاہتے ہیں۔

اپنے انسداد جرائم کے منصوبے کو فروغ دینے کے لیے صدر نے گذشتہ ہفتے سخت حفاظتی اقدامات کے نفاذ کو قانونی حیثیت دینے کے لیے ریفرنڈم کا مطالبہ کرنے کا ارادہ ظاہر کیا ہے۔

بہت سے تجزیہ کاروں کی رائے میں نوبوا کے ارادے اور تجاویز گینگز کے ردعمل کی ایک اہم وجہ ہیں۔

چیریبوگا کہتے ہیں کہ ’منشیات کی سمگلنگ سے منسلک مافیاز نے یہ بتانے کے لیے ردعمل ظاہر کیا ہے کہ وہ جمہوریت کا محاصرہ کرنے کے قابل ہیں۔‘

چیریبوگا کا خیال ہے کہ ’فیتو‘ کے فرار اور اس کے بعد ہونے والے فسادات کے بعد صدر کی طرف سے لاگو کردہ ایمرجنسی نے ٹیلی ویژن چینل پر قبضے کے ساتھ ساتھ جرائم پشیہ گروہوں کے ردعمل کو مشتعل کرنے میں بھی کردار ادا کیا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’ایسا لگتا ہے کہ اس کے حکم نامے نے اس جنگ کی حوصلہ افزائی کی ہے جسے مافیا گروپ بڑھاوا دے رہے ہیں۔‘

ان کا مزید کہنا ہے کہ ’نوبوا نے بڑی اصلاحات کے بغیر ردعمل دیا ہے جو کہ بہت حد تک سابق صدور گیلرمو لاسو اور لینن مورینو جیسا ہے جو کہ طاقت دکھانے کی کوشش ہے اور اس پر ان گروہوں کا ردعمل یہ رہا ہے کہ ’تھوڑی دیر انتظار کرو، ہم آپ کو دکھاتے ہیں کہ یہاں کا انچارج کون ہے۔‘

منشیات کا کاروبار

ایکواڈور

،تصویر کا ذریعہGetty Images

امریکی محکمہ خارجہ نے 2019 میں ایک تخمینہ لگایا تھا کہ کولمبیا کی کوکین کا ایک تہائی حصہ شمالی امریکہ اور یورپ جانے سے پہلے ایکواڈور سے گزرتا ہے۔

حالیہ برسوں میں کوکین کی بین الاقوامی مارکیٹ میں کولمبیا اور پیرو سے متصل اس ملک کی اہمیت کو تقویت ملی ہے۔ اس صورتحال میں تبدیلی زیادہ تعداد میں پکڑی جانے والی منشیات، لیبارٹریوں کی تیزی سے دریافت اور سب سے بڑھ کر تشدد میں غیر معمولی اضافے میں نمایاں ہے۔

تیزی سے بڑھتے ہوئے طاقتور جرائم پیشہ گروہ جن میں لوبوس، چونیروس یا ٹائیگویرون شامل ہیں کے منشیات کی سمگلنگ میں ملوث گروہوں کے ساتھ مضبوط روابط ہیں۔

عمومی طور پر ایکواڈور کے جرائم پیشہ گروہ الگ تھلگ اور غیر ملکی جرائم پیشہ کارٹیلز کے ذیلی ٹھیکیداروں کے طور پر کام کرتے ہیں۔

کولمبیا کے ساتھ امن معاہدے کے نتیجے میں کولمبیا کی انقلابی مسلح افواج (ایف اے آر سی) کے غیر فعال ہونے کے بعد ایکواڈور نے منشیات کی بین الاقوامی منڈی میں زیادہ اہمیت حاصل کی۔

ایف اے آر سی اور منشیات کی سمگلنگ سے منسلک دیگر تنظیموں کے منحرف گروہوں نے کوکین کی پیداوار اور سپلائی کے کاوربار کو پھیلا دیا جس کے باعث ایکواڈور سے مافیا گروہ اس کاروبار میں شامل ہوئے۔

یہ گروہ جو کہ خاص طور پر ایکواڈور کے ساتھ سرحد پر کولمبیا کے نارینو اور پوٹومایو کے محکموں میں کام کرتے ہیں میکسیکن کارٹیلز اور دیگر یورپی تنظیموں کے ساتھ منسلک ہیں۔

ماہرین کے مطابق اس طرح مختلف ممالک سے متعدد جرائم پیشہ گروہوں کی شرکت ایک قسم کا علاقائی تنازعہ اور ایکواڈور میں تشدد میں اضافے کا باعث بنتی ہے۔

ان گروہوں میں دو میکسیکن کارٹیل بھی نمایاں ہیں۔ ان میں سے ایک سینالوا کارٹیل ہے جس کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ اس نے 2003 کے آس پاس ایکواڈور میں کام کرنا شروع کیا تھا اور دوسرا جلسکو نیو جنریشن کارٹیل ہے۔

چونیروس گینگ سینالوا کارٹیل کے ساتھ کام کرتا ہے جبکہ لابوس، ٹیگرونس گور لگارتوس گینگ خود کو جلسکو کارٹیل کا اتحادی کہتا ہے۔

BBCUrdu.com بشکریہ