وِویک راماسوامی: ارب پتی انڈین نژاد شہری جو امریکہ کے صدر بننا چاہتے ہیں

ویوِک راماسوامی

،تصویر کا ذریعہVIVEK2024.COM

امریکہ میں آئندہ صدارتی انتخاب کے لیے ریپبلیکن پارٹی کے جو کئی صدارتی امیدوار اب تک سامنے آئے ہیں ان میں سے دو بھارتی نژاد امریکی بھی ہیں۔

ان میں سے ایک امیدوار نِکی ہیلی تو جانی پہچانی شخصیت ہیں لیکن وِویک راماسوامی کو زیادہ لوگ نہیں جانتے۔

کیلیفورنیا میں مقیم صحافی سویتا پٹیل نے جائزہ لیا ہے کہ وِویک راماسوامی کی کامیابی کا کتنا امکان ہے اور وہ کیا تبدیلی لا سکتے ہیں۔

راماسوامی ایک ارب پتی انڈین نژاد امریکی کاروباری شخصیت اور ایک کتاب ’ووک اِنک‘ کے مصنف بھی ہیں۔

انھوں نے 21 فروری کو ’فوکس نیوز‘ کے ایک شو میں صدارتی امیدوار کی دوڑ میں حصہ لینے کا اعلان کیا اور ایک ویڈیو بھی جاری کی جس میں انھوں اپنے سیاسی خیالات کا اظہار کیا۔

وِویک راماسوامی ایک کلچرل تحریک کے ذریعے ایک نیا امریکن ڈریم (امریکی خواب) تخلیق کرنا چاہتے ہیں جس کی بنیاد ’قابلیت کے حصول‘ پر ہو گی۔

ان کا کہنا ہے ’معاشرے میں تنوع بے معنی ہے جب کوئی ایسی عظیم چیز موجود نہ ہو جو لوگوں کو جوڑ سکے۔‘

37 سالہ راماسوامی امریکی ریاست اوہایو میں پیدا ہوئے تھے اور انھوں نے ہارورڈ اور ییل یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی۔ وہ بائیوٹیکنالوجی کے شعبے میں کاروبار کر کے امیر ہوئے۔ اس کے بعد انھوں نے جائیدادوں کی مینیجمنٹ کرنے والی ایک کمپنی بنائی۔

وہ کاروباری دنیا میں نسل پرستی اور موسمیاتی تبدیلی جیسے موضوعات پر کُھل کر بولتے رہے ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ اس سے کاروباری دنیا اور ملک دنوں کا نقصان ہوتا ہے۔

وہ خاص طور پر ماحول، سماج اور کارپوریٹ گورننس کے خلاف ہیں جس کے ذریعے کسی کمپنی کے سوشل اور ماحولیاتی اثرات ناپے جاتا ہے۔

اس کے علاوہ وہ امریکہ کا چین پر معاشی انحصار بھی کم کرنا چاہتے ہیں۔

وِویک راماسوامی کے نظریات ریپبلیکن پارٹی کے وِکرم منشرامانی سے ملتے جلتے ہیں جو سنہ 2022 میں نیو ہمپشائر سینیٹ کا انتخاب لڑ چکے ہیں۔ دونوں شخصیات حال ہی میں ملاقات کر چکی ہیں اور وِکرم منشرامانی نے وِویک راماسوامی کو بہت ’متاثر کن، اچھا بولنے والا اور سوچ بچار کرنے والا‘ قرار دیا۔

انھوں نے کہا کہ ’ہمارے خیالات امریکہ کو متحد کرنے والے ہیں نہ کہ تقسیم کرنے والے۔‘

ویوِک راماسوامی

،تصویر کا ذریعہRAMASWAMY CAMPAIGN

ان کا کہنا ہے کہ ’شناخت کی سیاست نے امریکہ میں جڑ پکڑ لی ہے جس کی وجہ سے متحد ہونے کے بجائے تقسیم کا رجحان پیدا ہوا ہے۔‘

تاہم اس سیاسی تقسیم کی دوسری جانب ایسے بھارتی نژاد امریکی بھی ہیں جو راماسوامی کے سیاسی نظریات سے اتفاق نہیں کرتے اور ان کا خیال ہے کہ راماسوامی کی انتخابی مہم میں وزن نہیں ہے۔

ڈیموکریٹک پارٹی کے شیکھر نراسمہن کا کہنا ہے کہ وہ خوش ہیں کہ امریکی سیاست میں ایشیائی نژاد امریکیوں کی تعداد بڑھ رہی ہے لیکن وہ راماسوامی کے خیالات سے متفق نہیں ہیں۔

’وہ ایک کاروباری شخصیت ہیں اور ان کا ماضی صاف ہے۔ لیکن انھوں نے کیا وعدے کیے ہیں۔ کیا انھوں صحت عامہ کی کوئی فکر ہے؟ انفراسٹرکچر پر رقوم خرچ کرنے کے بارے میں ان کے پاس کیا منصوبے ہیں؟ ان کی آرا ایک جیسی نہیں رہی ہے اور انھوں نے اپنی پالیسیاں ابھی تک واضح طور پر بیان نہیں کی ہیں۔‘

نِکی ہیلی

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

نکی ہیلی ایک معروف انڈین نژاد شخصیت ہیں

انڈین کمیونٹی کے کئی لوگوں کا کہنا ہے کہ انھوں نے اس سے پہلے مسٹر راماسوامی کے بارے میں کچھ نہیں سنا تھا اور انھیں اُن سے متعلق اس وقت معلوم ہوا جب انھوں نے صدارتی دوڑ میں حصہ لینے کا اعلان کیا۔

ریپبلیکن پارٹی کے بھارتی نژاد امریکی ارکان کا کہنا ہے کہ وہ تین امیدواروں کے درمیان مقابلے کی توقع کر رہے ہیں جن میں سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ، مسٹر ڈی سینٹِس اور مس ہیلی شامل ہیں۔

BBCUrdu.com بشکریہ