’ورچوئل اغوا‘: بغیر اغوا کے لاکھوں ڈالر تاوان۔۔۔ مغربی ممالک میں زیرِ تعلیم چینی شہری کیسے جعلسازوں کا نشانہ بنے

Hacker attacking internet

،تصویر کا ذریعہGetty Images

واشنگٹن میں چینی سفارتخانے نے امریکہ میں اپنے شہریوں، خاص کر طلبہ، کو متنبہ کیا ہے کہ وہ ’ورچوئل اغوا‘ اور اس نوعیت کے جھانسوں کے حوالے سے خبردار رہیں۔

یہ بیان اس وقت آیا جب 17 سالہ لاپتہ چینی طالبعلم کائی سوانگ 31 دسمبر کو بازیاب ہوئے۔ وہ امریکی ریاست یوٹا کے جنگلوں میں عارضی خیموں کے ایک مقام سے برآمد ہوئے۔

کائی کے والدین نے سکول کے حکام کو بتایا کہ ان سے تاوان کا مطالبہ کیا گیا تھا اور اس دوران ان کے بیٹے کی تصویر بھیج کر ان کے اغوا کا عندیہ دیا گیا تھا۔

پولیس کے مطابق سائبر اغواکاری کے متاثرین گھبراہٹ کے مارے خود کو تنہا کر لیتے ہیں، حتیٰ کہ وہ اپنی ایسی تصاویر بھی کھینچ لیتے ہیں جس سے لگے کہ وہ اغوا ہوچکے ہیں۔ اس سب کے دوران کوئی حقیقی اغواکار ان کے پاس موجود نہیں ہوتا۔

متاثرہ افراد کی نگرانی فیس ٹائم یا سکائپ کے ذریعے کی جاتی ہے۔

ان کیسز میں متاثرہ شخص اور اس کے خاندان دونوں کو یقین دلایا جاتا ہے کہ دوسرا فریق اغوا ہوگیا ہے اور اگر انھوں نے بات نہ مانی تو ان کے پیارے کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔

مقامی پولیس کے مطابق کائی کے والدین نے جھانسے میں آ کر چین میں موجود ایک بینک اکاؤنٹ میں قریب 80 ہزار امریکی ڈالر کی ادائیگی کی ہے۔

Kai Zhuang

،تصویر کا ذریعہRIVERDALE POLICE DEPARTMENT

،تصویر کا کیپشن

کائی ورچوئل اغواکاری کے مبینہ متاثرین میں سے ایک ہیں

ورچوئل اغوا کیا ہے؟

امریکی تحقیقاتی ادارے ایف بی آئی کے مطابق قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں کو کم از کم گذشتہ دو دہائیوں سے ورچوئل اغوا کاری کا علم ہے۔

اس کے کئی طریقے ہوسکتے ہیں لیکن یہ ہمیشہ تاوان وصول کرنے کا ایک جھانسہ ہوتا ہے۔ اس میں متاثرین کو جھانسہ دیا جاتا ہے کہ وہ اپنے پیاروں کو چھڑوانے کے لیے تاوان کی بھاری رقم کی ادائیگی کریں۔ انھیں یہ یقین دلایا جاتا ہے کہ ان کے پیاروں پر تشدد کیا جا رہا ہے یا وہ مارے جانے کے قریب ہیں۔

ایف بی آر کے مطابق ’روایتی‘ اغوا کے برعکس ورچوئل اغواکاری میں کسی کو بھی اصل میں اغوا نہیں کیا جاتا۔ جعلساز محض جھانسہ اور دھمکیاں دیتے ہیں تاکہ متاثرہ شخص حقیقت جاننے سے قبل جلدی سے تاوان ادا کر دے۔

یہ بھی پڑھیے

چینی طلبہ کن ممالک میں نشانے پر

پولیس حکام کے مطابق مغربی ممالک میں چینی طلبہ سائبر اغواکاری کا نشانہ بن رہے ہیں۔

ستمبر 2023 کے دوران برطانیہ میں ساؤتھ یورکشائر پولیس کی فراڈ کوارڈینیشن ٹیم نے ایک تنبیہ جاری کی جس کے مطابق شمالی انگلینڈ میں شفیلڈ کے علاقے میں منتقل ہونے والے غیر ملکی طلبہ کو محتاط رہنے کا کہا گیا تھا۔

اس میں کہا گیا کہ برطانیہ کے یونیورسٹی اور کالجز میں زیرِ تعلیم چینی شہریوں کو اس جعلسازی میں نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

متاثرہ شخص سے ایک جعلساز رابطہ کرتا ہے اور دعویٰ کرتا ہے کہ اس کا تعلق چینی سفارتخانے، امیگریشن، کسٹم، پولیس یا رائل میل سے ہے۔

وہ دعوے کرتے ہیں کہ وہ ایک عالمی جرم کی تحقیقات کر رہے ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ متاثرین چین کے ایک اکاؤنٹ میں رقم بھیجیں ورنہ ان کے لیے بُرے نتائج ہوسکتے ہیں۔

ساؤتھ یورکشائر پولیس نے کہا کہ بعض اوقات جرائم پیشہ افراد متاثرین کو دھمکیاں دے کر انھیں جھانسہ دینے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ متاثرہ افراد سے کہا جاتا ہے کہ وہ اس واقعے کے بارے میں کسی کو کچھ نہیں بتائیں گے۔

The London Eye with Big Ben in the background

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

برطانیہ ان ملکوں میں سے ہے جہاں چینی طلبہ کو ورچوئل اغواکاری کا نشانہ بنایا گیا ہے

آسٹریلیا میں نیو ساؤتھ ویلز (این ایس ڈبلیو) کی پولیس نے متنبہ کیا کہ اکتوبر 2023 کے دوران ورچوئل اغوا کے کئی کیسز سامنے آئے جو قدرے پیچیدہ تھے۔

ڈیٹیکٹو سپریٹنڈنٹ جوزف ڈوہی نے کہا کہ ان جھانسوں کے تانے بانے چین سے ملتے ہیں۔ جعلساز متاثرین کو دھوکہ دیتے ہیں کہ وہ طاقتور چینی شخصیت ہیں۔ پھر وہ ان کے پیاروں کو بھی یہی کہتے ہیں۔

ڈوہی نے پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ ’اس جعلسازی کے نتیجے میں لوگوں نے ایک ریاست سے دوسری ریاست تک سفر کیا، وہ بیرون ملک بھی گئے۔ ایسا ہم نے پہلے کبھی نہیں دیکھا۔ کچھ متاثرین تھائی لینڈ اور کمبوڈیا گئے اور بعض آسٹریلیا کی دوسری ریاستوں تک گئے۔‘

این ایس ڈبلیو کے حوالے سے آسٹریلوی نشریاتی ادارے اے بی سی نے بتایا کہ اکتوبر میں تین کیس سامنے آئے جن میں جرائم پیشہ نیٹ ورکس نے 20 سے 23 سال کی عمروں کے نوجوانوں سے رابطہ کیا اور بتایا کہ وہ ایک بااختیار چینی محکمے کے لیے کام کرتے ہیں۔

متاثرین کو 338880 امریکی ڈالر ادا کرنے کا حکم دیا گیا۔ انھیں دھمکی دی گئی کہ انھیں چین ڈیپورٹ کر دیا جائے گا جہاں ان پر کسی جرم کے ارتکاب کا الزام لگایا جائے گا۔

ایک واقعے میں سڈنی میں ایک 20 سالہ مرد کو ہتھکڑیاں لگائی گئیں۔ انھیں مجبور کیا گیا کہ وہ ’سرکاری دستاویزات کے ساتھ‘ مقامی پرواز میں سوار ہوں۔ ان دستاویزات کو انھیں شنگھائی پولیس کی طرف سے ایڈیلیڈ اور وکٹوریا میں متاثرین کو تھمانا تھا۔

اس شخص کے خاندان کو 135730 امریکی ڈالر تاوان دینے کا کہا گیا مگر انھوں نے منع کر دیا اور این ایس ڈبلیو پولیس سے رابطہ کیا۔

سنہ 2020 میں این ایس ڈبلیو پولیس نے کم از کم آٹھ مصدقہ ورچوئل اغواکاری کے کیسز پر ایک تنبیہ جاری کی تھی۔ ان میں 13 لاکھ 55,538 امریکی ڈالر سے زیادہ کے تاوان بھرے گئے۔ ان میں سے کسی بھی کیس میں کوئی شخص اصل میں اغوا نہیں ہوا تھا۔

اپریل 2020 کے دوران سڈنی کے ایک کیس میں پولیس کو بتایا گیا کہ ایک چینی طالبہ کے والدین سمجھ رہے تھے کہ ان کی بیٹی کو اغوا کر لیا گیا ہے۔ انھوں نے دو لاکھ ڈالر سے زیادہ کی رقم تاوان کی مد میں ادا کی۔ جعلساز نے خود کو چینی پولیس کا اہلکار بتایا تھا۔

تحقیقات کے بعد معلوم ہوا کہ خاتون محفوظ حالت میں اپنے گھر موجود تھیں۔

Pictures of the staged Chinese student kidnappings in 2020 which were provided to the Australian police

،تصویر کا ذریعہNew South Wales police

،تصویر کا کیپشن

2020 میں آسٹریلوی پولیس کو چینی طالبعلم کے جھوٹے اغوا کی یہ تصویر بھیجی گئی تھی

اگست 2023 کے دوران جاپان ٹائمز نے خبر دی تھی کہ جاپان میں کچھ چینی طلبہ کو اسی طرح کے حالات میں دھوکے بازوں نے بلیک میل کیا تھا۔

ایک کیس میں چینی طالبہ کے والدین نے 42300 امریکی ڈالر ادا کیے۔ انھیں ایسی تصویر بھیجی گئی جس میں بظاہر ان کی بیٹی پر تشدد ہو رہا تھا۔

بعد میں پتا چلا کہ طالبہ کو ایک ایسے شخص کی کال موصول ہوئی تھی جو خود کو چینی پبلک سکیورٹی کا اہلکار بتا رہا تھا۔

اس شخص نے دعویٰ کیا کہ ان کا گرفتاری کا وارنٹ جاری ہوچکا ہے لہذا انھیں والدین کے سامنے یہ ڈرامہ رچانا ہوگا کہ انھیں اغوا کر لیا گیا ہے اور رہائی کے لیے والدین کو تاوان ادا کرنا ہوگا۔

پولیس حکام چین سے تعلق رکھنے والے غیر ملکی طلبہ سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ وہ موصول ہونے والی تمام فون کالز کو سکرین کریں، مقامی قونصلیٹ سے ’سرکاری طلبی‘ کے حوالے سے جانچ کریں اور پولیس کو فوری اطلاع دیں اگر انھیں نشانہ بنایا گیا ہے۔

BBCUrdu.com بشکریہ