طارق ملک نے جواب میں بھی کہا کہ براڈ شیٹ کے لیے کام کرنے والے نیب اہلکاروں کو اثاثوں کی ریکوری کا کوئی تجربہ نہیں تھا، میں نیب اور براڈ شیٹ کے درمیان مذاکرات کا حصہ نہیں تھا۔
انہوں نے کہا کہ نیب کے تین سے چار اہلکاروں کی خدمات براڈ شیٹ کے لیے وقف تھیں، میں نے براڈ شیٹ کے لیے کنسلٹنسی کی خدمات سرانجام دیں، اور جیری جیمز سے رابطے میں تھا۔
طارق ملک نے کہا کہ احساس ہوگیا تھا کہ براڈ شیٹ اثاثوں کی ریکوری کے لیے سنجیدہ کوششیں نہیں کررہی، نیب، براڈ شیٹ کی صلاحیتوں کے بارے میں غلط اندازہ لگا بیٹھا تھا۔
عدالت میں پیش کردہ ای میل کے مطابق جولائی 2000 میں طارق ملک نے معاملے سےعلیحدہ ہونے کا فیصلہ کرلیا تھا، اپریل 2001 میں طارق ملک نے جیری جیمز کے نام ای میل میں براڈ شیٹ کی ناقص کارکردگی پر تحفظات کا اظہار کیا، طارق ملک کی گواہی کو بغیر ’کراس ایگزامینیشن‘ کے قبول کیا گیا، جبکہ طارق ملک کی واحد گواہی پاکستان کے حق میں تھی۔
Comments are closed.