بدھ14؍شوال المکرم 1442ھ26؍مئی 2021ء

’نازیوں کا شکاری‘ جو ہولوکاسٹ کے 80 سال بعد بھی ممکنہ مجرموں کے تعاقب میں ہے

ہولوکاسٹ: ’نازیوں کا شکاری‘ جو آج بھی زندہ رہ جانے والے مجرموں کے تعاقب میں ہے

  • سوامی ناتهن ناتاراجن
  • بی‌بی‌سی

Dr Efraim Zuroff in Zagreb

،تصویر کا ذریعہDarko Mihalic

،تصویر کا کیپشن

ڈاکٹر زیروف کا کہنا ہے کہ کسی مجرم کے عمر رسیدہ ہو جانے کی وجہ سے آپ اس کا جرم معاف نہیں کر سکتے

یورپ میں یہودیوں کے قتل عام، جسے ’ہولوکاسٹ‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، کو 80 سال سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے اور اس قتل عام کے مجرموں پر جرمنی کے شہر نیورمبرگ میں چلائے گئے تاریخی مقدمات کا فیصلہ ہوئے دہائیاں بیت چکی ہیں۔

ان مقدمات سے بچ جانے والے ملزم یا تو مر چکے ہوں گے یا بہت بوڑھے ہو گئے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود نازی جرمنی کی حکومت میں شامل افراد کی تلاش کا وسیع تجربہ رکھنے والے ڈاکٹر ایفرایم زیروف کی ہولو کاسٹ میں ملوث افراد کو تلاش کر کے بدلہ لینے کی آگ کیوں ٹھنڈی نہیں ہو رہی؟

انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ اس کی بہت سی وجوہات ہیں، لیکن سب سے پہلے اور سب سے اہم وجہ یہ ہے ان میں چند لوگ ہوں گے جو کبھی اپنے کیے پر نادم نہیں ہوئے ہوں گے۔

اسرائیل میں اپنے گھر سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’میں نے اس تمام عرصے میں کبھی کوئی نازی مجرم ایسا نہیں دیکھا جس نے اپنے کیے پر پشیمانی کا اظہار کیا ہو یا کفارہ ادا کرنے کی بات کی ہو۔‘

سائمن ویسینتھل سینٹر کے چیف ’نازی شکاری‘ یا نازیوں کو تلاش کرنے والے ڈاکٹر زیروف ان مشوروں پر حیران ہیں کہ نازی مجرموں کی عمر زیادہ ہونے کی وجہ سے اب بخش دینا چاہیے۔

ان کا اندازہ ہے کہ اب بھی چند سو نازی ہیں جو قانون کی گرفت میں نہیں آ سکے اور وہ ان عناصر کو انصاف کا سامنا کرنے پر مجبور کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

دروازے پر دستک

Standing from right to left : Rabbi Marvin Hier, Efraim Zuroff, California Governor Jerry Brown and Simon Wiesenthal

،تصویر کا ذریعہArt Waldinger, Simon Wiesenthal Center

،تصویر کا کیپشن

ہولوکاسٹ میں بچ جانے والے آج بھی اس اذیت کو یاد کرتے ہیں

ڈاکٹر زیروف کا کہنا ہے کہ جب تک یہ کوشش جاری رہے گی یہ لوگ سکون سے نہیں سو سکیں گے اور کبھی بھی اطمینان سے نہیں کہہ سکیں گے کہ ایک دن اُن کے دروازے پر دستک نہیں ہو گی۔

اُن کا مؤقف ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ جرم کی سنگینی کم نہیں ہوتی اور مجرم کی عمر زیادہ ہو جانے کی وجہ سے اس کے گھناؤنے جرائم کو معاف نہیں کیا جا سکتا۔

وہ کہتے ہیں کہ ایک کامیاب استغاثہ متاثرین اور ان کے خاندانوں کو انصاف فراہم کرتا ہے، اور مستقبل کے ممکنہ مجرموں کے لیے عبرت بن جاتا ہے۔

قانونی کامیابیاں

گذشتہ چار دہائیوں کے دوران ڈاکٹر زیروف نے 20 ممالک میں رہنے والے تین ہزار سے زیادہ مشتبہ نازی مجرموں کا سراغ لگانے کی کوشش کی ہے، یہ بات الگ ہے کہ ان میں سے کچھ ان تک پہنچنے سے پہلے ہی ہلاک ہو گئے تھے۔

Dr Zuroff at a press conference in Argentina promoting "Operation Last Chance"

،تصویر کا ذریعہ Dr Efraim Zuroff

،تصویر کا کیپشن

نازیوں کے بارے معلومات فراہم کرنے والے نقد انعام حاصل کر سکتے تھے

صرف 40 کے قریب مقدمات کی اصل میں سماعت ہو سکی اور ان مقدمات کا سامنا کرنے والوں کو بہت کم کو سزا سُنائی جا سکی۔ اس کے باوجود ڈاکٹر زیروف قانون میں ترمیم کیے جانے کی وجہ سے بہت پُرامید ہیں۔

’ماضی میں، 12 یا 13 سال پہلے، جرمنی میں نازیوں کے خلاف مقدمہ چلانے کے لیے آپ کو یہ ثابت کرنا پڑتا تھا کہ اس شخص نے ایک مخصوص شخص کے خلاف ایک مخصوص جرم کیا تھا اور اس کا محرک نسلی نفرت تھی۔‘

یہ بھی پڑھیے

اُن کا کہنا ہے کہ ایسا اکثر معاملات میں عملی طور پر ناممکن تھا، لیکن اب اس قانونی شرط کو ختم کر دیا گیا ہے۔ آج، آپ کو صرف یہ ثابت کرنا ہے کہ اس شخص نے ایک مخصوص ڈیتھ کیمپ میں کام کیا تھا۔ جس میں گیس چیمبر یا شرح اموات زیادہ تھیں۔ اور یہ دستاویزات کے ساتھ کیا جا سکتا ہے۔‘

رفتار سست پڑنا

Nazis at the Nuremberg Trials: Goering, Hess, von Ribbentrop, and Keitel in front row

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

ہولوکاسٹ میں ملوث کچھ لوگوں پر جنگ کے فوراً بعد مقدمات چلائے گئے

دوسری جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد بہت سے ممالک نے نازیوں اور اُن کے ساتھیوں کو پکڑا اور اُن پر مقدمہ چلایا۔

ڈاکٹر زیروف کہتے ہیں کہ نیورمبرگ ٹرائلز تو صرف اصل مسئلہ کا معمولی سا حصہ ہے۔ مغربی جرمنی میں سنہ 1949 سے سنہ 1985 تک دو لاکھ کیسوں کی تحقیقات ہوئیں، ایک لاکھ 20 ہزار افراد پر فردِ جرم عائد کی گئی، لیکن صرف سات ہزار سے بھی کو سزائیں دی گئیں۔

تاہم، نازیوں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کا ابتدائی جوش 1960 کی دہائی میں ٹھنڈا پڑ گیا، اور آج ڈاکٹر زیروف کہتے ہیں، حکام کے پاس ان کوشش کے لیے وقت اور وسائل فراہم نہ کرنے کی ٹھوس وجوہات موجود ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ اگر آپ 90 برس کے نازی کا کسی عادی قاتل سے موازنہ کریں۔ کسی بھی عام ملک میں پولیس اس عادی قاتل یا ’سیریل کلر‘ کی تلاش کو ترجیح دے گی کیونکہ جب تک وہ پکڑا نہیں جاتا وہ دوسرے شہریوں کے لیے بھی خطرہ بنا رہے گا۔ ایک 90 سالہ نازی کے کسی کو قتل کرنے کے کیا امکانات ہیں؟ یہ صفر ہیں۔‘

لہذا اگر نازیوں کو انصاف کے کٹہرے میں لانا ہے، تو یہ زیروف جیسا منتقم شخص ہی کر سکتا ہے، جسے سخت محنت کرنی پڑے گی اور اس کے پاس ایسے عناصر کو ڈھونڈے کے لیے وقت بھی بہت کم بچا ہے۔

ڈاکٹر زیروف نے برطانوی اخبار ’دی گارڈین‘ کو بتایا کہ وہ واحد شخص ہیں جو زندہ رہ جانے والے نازیوں کی صحت کے لیے دعا گو ہیں۔

بچے کھچے نازیوں کو تلاش کرنے کی اپنی کوششوں کو تیز کرتے ہوئے، انھوں نے ایک دہائی قبل ’آپریشن لاسٹ چانس‘ دوبارہ شروع کیا، جس میں نازی مجرموں کے بارے میں معلومات فراہم کرنے والے کے لیے 25 ہزار ڈالر کا نقد انعام رکھا گیا۔

کامیابیاں

Dinko Sakic on the day of his verdict

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

ڈنکو ساکک کو جب 20 سال قید کی سزا سنائی گئی تو وہ مسکرا دیے تھے

ڈاکٹر زیروف کی آج تک کی سب سے بڑی کامیابی آخری معلوم زندہ بچ جانے والے حراستی کیمپ کے کمانڈر، ڈنکو ساکِک کو سزا دلوانا ہے، جس نے سنہ 1944 میں موجودہ کروشیا میں جیسنوواک کیمپ کی کمانڈ کی تھی۔

اس کیمپ میں ایک لاکھ سے زیادہ لوگ مارے گئے تھے۔ ڈاکٹر زیروف کے کام کی وجہ سے، ساکک کو چار اکتوبر 1998 کو 20 سال قید کی سزا سُنائی گئی۔

جب زیروف فیصلے کے بعد کمرہ عدالت سے باہر نکلے تو انھیں ایک طویل قامت شخص نے روکا اور اُن کا شکریہ ادا کیا۔

ڈاکٹر زیروف یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس شخص نے اُن سے کہا کہ ’اگر آپ نہ ہوتے تو یہ ٹرائل کبھی نہ ہوتا۔ مجھے نہیں معلوم تھا کہ وہ کون ہے۔‘

یہ شخص مونٹی نیگرو سے تعلق رکھنے والے ایک ڈاکٹر میلو بوسکووچ کا بھائی تھا جسے سنہ 1944 میں کیمپ میں قید رکھا گیا تھا۔

ڈاکٹر زیروف کہتے ہیں ڈاکٹر میلو بوسکووچ کو بغیر کسی ثبوت کے ساکک نے پکڑ لیا تھا، جس کا مقصد مزاحمتی سرگرمیوں پر سزا دینا تھا۔

ڈاکٹر زیروف نے مزید کہا کہ ’میلو بوسکووچ نے ساکک کو بتایا تھا کہ انھیں پھانسی پر نہ لٹکایا جائے۔ اس پر ساکک نے اپنا پستول نکالا اور ان کے سر میں گولی مار دی اور انھیں قتل کر دیا۔‘

’میں آپ کو پورے یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ اُس شخص نے ایک ہزار سال میں کبھی خواب میں بھی نہیں دیکھا ہو گا کہ ڈنکو ساکک کو جمہوری ملک کروشیا میں ایک قومی ہیرو کا درجہ رکھتا تھا اس کے خلاف مقدمے چلایا جا سکے گا، لیکن ایسا ہی ہوا۔‘

ساکک نے نہ تو پچھتاوے کا اظہار کیا اور نہ ہی کسی شرمندگی کا، جو کہ نازیوں کے اپنے جرائم کے حوالے سے رویوں میں ڈاکٹر زیروف کے لیے بڑی اہم بات ہے۔

ناکامیاں

Sandor Kepiro (R) is welcomed by his psychologist Anna Szoor (L) as he sits in a wheelchair at Budapest Municipal Court on June 24, 2011

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

عدالت نے فیصلہ کیا کہ سینڈور کیپیرو پر چلنے والے ماضی کے مقدمات میں پیش کی گئی دستاویزات کی بنیاد پر مقدمہ نہیں چلایا جا سکتا

بہت سے مواقع پر ڈاکٹر زیروف کی اس استقامت کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔

انھوں نے ہنگری کے ایک سابق افسر سینڈور کیپیرو کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کی کوشش کی اور برسوں کی محنت کے بعد سنہ2011 میں ہنگری کے شہر بوڈاپیسٹ میں ان پر مقدمہ چلا۔

ڈاکٹر زیروف نے الزام لگایا کہ کیپیرو ہنگری کے اُن 15 افسران میں سے ایک تھے جو جنوری 1942 کے نووی ساڈ قتل عام میں ملوث تھے۔ اس قتل عام میں تین ہزار سے زیادہ لوگ مارے گئے تھے۔

مزید پڑھیے

کیپیرو اور دیگر افسران کو پہلے ہی سنہ 1944 میں ایک غیر قانونی آپریشن کرنے کا مجرم قرار دیا گیا تھا، لیکن افسران کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔

اپنے کیس کو ثابت کرنے کے لیے ڈاکٹر زیروف نے پہلے مقدمے کی عدالتی کارروائی پر انحصار کیا، لیکن عدالت نے تمام ثبوت ناقابل قبول قرار دے دیے۔

انھوں اس معاملے پر پانچ سال کام کیا تھا اور یہاں تک کہ زندہ بچ جانے والوں سے ملنے کے لیے نووی سڈ بھی گئے تھے۔ یہ ان کے لیے ایک بہت بڑا اور تکلیف دہ دھچکا تھا۔

ڈاکٹر زیرو کہتے ہیں کہ ’اگلے دن، جب میں اسرائیل واپس جانے کا انتظار کر رہا تھا تو میں نے رونا شروع کر دیا۔ لیکن آخر میں، میں متاثرین اور ان لوگوں کے بارے میں سوچتا ہوں جو ان مظالم میں بچ گئے۔ وہ جس کیفیت سے گزرے، میرے ساتھ جو کچھ ہوا، وہ اس سے کہیں زیادہ تکلیف دہ ہے۔‘

ذاتی محرک

Dr Zuroff 's great uncle Rabbi Efraim Zar

،تصویر کا ذریعہDr Efraim Zuroff

،تصویر کا کیپشن

ڈاکٹر زیروف کا نام افرایم ان کے جس چچا کے نام پر رکھا گیا تھا وہ بھی نازیوں کے ہاتھوں مارے گئے تھے

جب ڈاکٹر زیروف نے لتھوانیا کا سفر یہ جاننے کے لیے کیا کہ وہاں یہودیوں کے ساتھ کیا ہوا تو اس تحقیق کے دوران انھیں اس سانحے سے اپنے قریبی تعلق کا سامنا بھی کرنا پڑا۔

ڈاکٹر زیروف کا نام ’افرایم‘ اُن کے دادا کے بھائی کے نام پر رکھا گیا تھا، جو لتھوانیا میں ایک ربی (یہودی پیشوا) تھے۔

وہ اس اپارٹمنٹ میں گئے جہاں ان کے چچا ٹھہرے تھے۔ اس کے بعد انہوں نے لیتھوانیا میں قتل عام کے 35 الگ الگ مقامات اور بیلاروس میں پانچ مقامات کا دورہ کیا۔

وہ کہتے ہیں کہ ‘ہر روز میں دو یا تین اجتماعی قبروں پر جاتا، اور مرنے والوں کے لیے دعائیں پڑھتا۔ میں جانتا تھا کہ میں ایک بہت بڑے گڑھے کے پاس کھڑا ہوں جو کبھی سینکڑوں اور یا ہزاروں مرنے والوں سے بھرا ہوا ہو گا۔‘

‘میں جانتا ہوں کہ میرے اپنے چچا اُن میں سے ایک تھے اور میرے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا اور ضبط کا بندھن ٹوٹ گیا۔ یہ ایک بہت شدید جذباتی تجربہ تھا۔‘

Dr Zuroff standing in front of a mass grave in Lithuania

،تصویر کا ذریعہDr Efraim Zuroff

،تصویر کا کیپشن

ڈاکٹر زیروف نے اجتماعی قبروں پر دعا کی

’ان کا کہنا ہے کہ لیتھوانیا میں رہنے والے دو لاکھ 20 ہزار یہودیوں میں سے دو لاکھ بارہ ہزار کو نازی قید کے دوران قتل کر دیا گیا تھا۔

13 جولائی 1941 کو میرے چچا ربی افریم زار کو ولنیئس میں لتھوانیائی محافظوں کے ایک گروپ نے داڑھی والے یہودیوں کی تلاش میں پکڑ لیا۔ انھیں لوکوشکس جیل لے جایا گیا اور بظاہر یا تو وہیں یا پونر میں ستر ہزار یہودیوں کے اجتماعی قتل کے مقام پر قتل کر دیا گیا۔‘

انھوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’مجھے قاتل نہیں ملے۔‘

مستقبل

انھیں جن لوگوں کی تلاش ہے اُن کی طرح وہ بھی بوڑھے ہو رہے ہیں۔

زیروف اب 73 سال کے ہیں اور ان کے 15 پوتے پوتیاں ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ بقیہ نازی ممکنہ طور پر مر چکے ہوں گے یا جو بچے کھچے ہوں گے وہ اُن کے پوتے پوتیوں کے بالغ ہونے سے پہلے اس دنیا سے چلے جائیں گے۔

Zuroff with his youngest grand daughter Daniela

،تصویر کا ذریعہDr Efraim Zuroff

،تصویر کا کیپشن

ڈاکٹر زیروف کہتے ہیں جب ان کے پوتے پوتیاں جوان ہوں گے تب تک تمام نازی مر چکے ہوں گے

انھیں اس بات پر فخر ہے کہ اُن کا کام ہولوکاسٹ کی یاد کو زندہ رکھے ہوئے ہے، اور اُن کا خیال ہے کہ نازیوں کو تلاش کرنے والوں کے طریقوں کو انسانیت کے خلاف جرائم میں ملوث افراد کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔

لیکن وہ اپنے تجربے سے نسل کشی کے متاثرین کو انصاف فراہم کرنے کے لیے موجودہ عدالتی نظام پر یقین نہیں رکھتے اور وہ اس بارے میں روانڈا کے معاملے کا حوالہ دیتے ہیں، جہاں وہ 1994 میں نسل کشی کے بعد مشیر کے طور پر گئے تھے۔

BBCUrdu.com بشکریہ
You might also like

Comments are closed.