’میں آپ کی محبت میں پاگل ہوں۔۔۔‘ وہ خطوط جو ایک ڈکٹیٹر نے مسلم مردوں تک نہ پہنچنے دیے

خطوط

  • مصنف, آرتھر اسیراف
  • عہدہ, مورخ، کیمبرج یونیورسٹی

نوآبادیاتی دور کے کچھ ضبط شدہ خطوط اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ کس طرح سپین کی خواتین کی جانب سے مراکش کے مردوں کو لکھے جانے والے ’محبت نامے‘ اُن تک کبھی نہ پہنچے کیونکہ اُس دور میں یہ سب کرنا ممنوع تھا۔

اسی طرح کا ایک خط ملا ہے جس میں جذبات سے مغلوب کارمیلا نامی ایک خاتون بڑے احتیاط سے ایک صفحے پر لکھتی ہیں کہ ’آپ سپین کب واپس آئیں گے؟‘

یہ اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ ’اُن‘ کی واپسی کارمیلا کے لیے کتنی اہمیت کی حامل تھی۔

انھوں نے سپین کے شہر غرناطہ (گرینیڈا) سے سنہ 1944 میں لکھا کہ ’سچ سچ بتائیں، کہیں آپ کسی دوسری عورت کے ساتھ تو نہیں؟‘

لیکن جس آدمی کے لیے یہ پیغامات لکھے گئے تھے وہ اسے کبھی نہیں پڑھ پائے۔ کارمیلا کا سرحدوں سے پرے محبت کا خط مراکش میں کبھی اپنی منزل تک نہیں پہنچا۔

اس کی بجائے یہ سپین کے آرکائیوز میں کہیں گم ہو گیا۔ ہسپانوی خواتین اور مراکش کے مردوں کے درمیان سینکڑوں پیغامات غیر متوقع طور کسی کونے میں دب کر رہ گئے۔

سنہ 1930 اور 1950 کی دہائی کے درمیان پکڑے جانے والے یہ خطوط نوآبادیاتی دور میں ممنوعہ محبت اور مباشرت کے تعلقات کی تاریخ بیان کرتے ہیں۔

کئی دہائیوں تک مراکش میں ہسپانیہ کے نوآبادیاتی حکام منظم طریقے سے اس قسم کے خطوط کو ضبط کرتے رہے۔

ضبط شدہ خطوط محبت کے جذبات سے لبریز الفاظ سے بھرے ہوئے ہیں۔

والنسیا سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون لکھتی ہیں کہ ’میں آپ کی محبت میں پاگل ہوں۔۔۔‘

ایک دیوار

وہ محبت نامے بھلا دیے گئے

بعض خطوط کے ساتھ کچھ تصاویر بھی ہیں۔ ایک کے بعد لفافوں میں رکھی ان تصاویر میں سنورے ہوئے بالوں والی خواتین کے درجنوں پورٹریٹ ہیں جو اپنے محبوب کو یہ بتانے کے لیے ڈالی گئی ہیں کہ اب وہ کیسی لگ رہی ہیں۔

ایک خاتون نے سائیکل پر سوار ہوئے اپنی تصویر بھیجی جو ان کی روزمرہ زندگی کا ایک لاپرواہی میں بنایا گیا ’سنیپ شاٹ‘ تھا۔

یہ خطوط اس وقت تک آرکائیوز کی دھول کھاتے رہے جبکہ تک کہ ماہرین تعلیم جوزف لوئی میٹیو ڈیسٹے اور نیوس موریل گارسیا کے ہاتھ نہ لگے۔ انھوں نے نہ صرف انھیں تلاش کیا بلکہ انھیں پڑھ کر شائع بھی کیا۔

ہر خط میں ناآسودہ رشتے کی ایک دلکش جھلک ملتی ہے لیکن ہر خط ہمیں اس جبر کے بارے میں بھی بتاتا ہے جس کا سامنا ان رشتوں نے اپنے دور میں کیا۔

ہسپانوی حکام نے ان تعلقات کو ناکام بنانے کے لیے ہر ممکن کوشش کی۔

کیونکہ سنہ 1937 میں جاری ایک ہدایت نامے میں واضح طور پر کہا گیا تھا کہ ’عام اصول کے طور پر مراکش کے فوجیوں اور ہسپانوی خواتین کے درمیان ہونے والی شادیوں کو روکنا ضروری ہے۔‘

سنہ 1912 کے بعد سے سپین نے مراکش کے ایک حصے پر خود مختاری کا دعویٰ کیا تھا، جس نے فرانس کے ساتھ ملک کو دو علاقوں میں تقسیم کر دیا تھا۔

بربر برادری کے جنگجوؤں نے اس کے خلاف مزاحمت کی۔ اس میں سب سے زیادہ بدنام زمانہ جنگ سنہ 1921 اور 1926 کے درمیان ہوئی جو طویل اور خونریز جنگ تھی اور اس میں دنیا نے عبدالکریم الخطابی کی قیادت میں ہسپانوی فوج کا خاتمہ دیکھا۔

اس چیلنج پر قابو پانے کے لیے ہسپانوی حکومت نے مراکش میں اپنے فوجیوں کی تعداد میں اضافہ کیا اور ہزاروں مراکشیوں کو اپنی فوج میں خدمات انجام دینے کے لیے بھرتی کیا۔

سنہ 1930 کی دہائی تک ملک کے شمال کے ساتھ بحر اوقیانوس کے ساحل سے مشرق میں الجزائر کی سرحد تک ایک لمبی پٹی اصیلہ مؤثر طریقے سے سپین کے زیر انتظام تھی اور اس کا دارالحکومت تطوان تھا۔

یہ علاقے میں ان فوجی اڈوں میں سے ایک تھا جہاں سے سنہ 1936 میں جنرل فرانسسکو فرانکو نے ریپبلکن حکومت کے خلاف بغاوت کی تھی اور اس نے ہسپانوی خانہ جنگی کو جنم دیا تھا۔

یہ بھی پڑھیے

نگرانی

محبت کرنے والوں کے درمیان دوریاں پیدا کی گئیں

جیسے ہی جنگ شروع ہوئی تو اچانک ہسپانوی فوج میں بھرتی ہونے والے ہزاروں مراکشی مردوں کو فرانکو کی افواج کے ساتھ لڑنے کے لیے سمندر پار سپین بھیج دیا گیا۔

فوج کے علاوہ طلبا، تاجر اور دیگر کارکنان بھی ان کے ساتھ جنگ میں شامل ہوئے اور وہ ملک بھر کے شہروں کے ساتھ ساتھ دور دراز دیہی علاقوں میں رہ گئے۔

بہرحال بہت سے دوسری یورپی نوآبادیاتی املاک کے برعکس یہ سپین سے صرف ایک پتھر کی دوری پر ہے کیونکہ آبنائے جبرالٹر میں اس کے تنگ ترین مقام پر مراکش کا ساحل جزیرہ نما آئبیرین کے جنوبی سرے سے صرف 14 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔

وہ جہاں بھی گئے مراکشی مردوں کی ہسپانوی خواتین سے ملاقاتیں ہوئیں۔

سلامانکا نامی شہر میں کونچہ نامی ایک خاتون کی مراکشی شخص نصر سے ملاقات ہوئی جو کہ وہیں قریب میں تعینات ایک مراکشی فوجی تھا۔

دیوانہ وار محبت میں گرفتار ہو کر کونچہ نے سنہ 1938 میں اس سے شادی کرنے کی اجازت کے لیے حکام کو لکھا۔

حکام نے کونچہ سے نفرت کا اظہار کرتے ہوئے انھیں ’بوڑھی، بدصورت، موٹی اور لنگڑی‘ قرار دیا۔

حکام کے مطابق نصر نے اس خاتون میں صرف اس لیے دلچسپی ظاہر کی تھی کیونکہ کونچہ کے پاس اپنا ذاتی مکان تھا اور اس دلچسپی نے ’محبت کے شعلے‘ کو جگا دیا تھا۔

حکام کو باضابطہ احکامات دیے گئے تھے کہ اس قسم کے تعلقات کو روکنے کے لیے وہ ’ممکنہ طور پر جتنی مشکلات ہو سکے‘ پیدا کریں۔ وہ کھلے عام پابندی لگائے بغیر یہ سب کرنا چاہتے تھے۔

چونکہ فرانکو کی حکومت مراکش کے فوجیوں کی وفاداری پر انحصار کرتی تھی اس لیے انھوں نے ایسے تعلقات کو واضح طور پر غیر قانونی نہیں بنایا۔ اس کے بجائے انھوں نے عملی طور پر اسے ناممکن بنانے کے لیے ہر طرح کے حربے آزمائے اور اس کے لیے انھوں ایک پورا لائحہ عمل تیار کر رکھا تھا۔

مثال کے طور پر اگر کوئی ہسپانوی عورت مراکش کے کسی مرد کو خطوط لکھتی ہوئی پائی گئی تو وہ اس کے مراکش میں داخلے پر پابندی لگا دیں گے۔

اسی طرح وہ اکثر مراکش کے مردوں کے سپین میں داخل ہونے پر پابندی لگا دیتے تھے، جس سے کہ ان کے تعلقات ناممکن ہو جائیں۔

سنہ 1948 میں زراگوزا سے کارمین کے مراکش میں اس کے عاشق عبدالسلام کے نام ایک خط روکا گیا۔ تطوان میں حکام نے فوری طور پر دونوں کے سرحد پار جانے پر پابندی لگا دی۔

خط میں کارمین نے اپنی بیٹی کی ولادت کی خبر دی جو اب اپنے والد کو دیکھے بغیر بڑی ہو گی۔ حکام بچی کو بھی خاطر میں نہیں لائے۔

جنرل فرانکو کی آمریت سنہ 1975 میں ختم ہو گئی

،تصویر کا ذریعہAFP

،تصویر کا کیپشن

جنرل فرانکو کی آمریت بالآخر سنہ 1975 میں ختم ہو گئی

وہ ان رشتوں کو آخر اس قدر حقارت سے کیوں دیکھتے تھے؟

اس کا کچھ حد تک جواب آمریت کے رجعتی نظریے میں مضمر ہے۔

فرانکو کی حکومت جارحانہ طور پر بدسلوکی پر مبنی تھی۔ وہ سختی سے خواتین کی نقل و حرکت پر کنٹرول رکھ رہی تھی اور انھیں ملازمت سے دور رکھ رہی تھی۔

وہ خود کو کیتھولک مذہب کے محافظ کے طور پر بھی دیکھتی تھی اور مذہبی وجوہات کی بنا پر مسلمان مردوں سے شادی کرنے والی خواتین کو ’بد دین‘ کے طور پر دیکھتی تھی۔

لیکن حکام کے نزدیک سب سے بڑی واحد وجہ ’نسلی وقار‘ تھی۔

نوآبادیاتی حکمرانی کو جاری رکھنے کے لیے سپین والے خود کو مراکش سے برتر نظر آنا چاہتے تھے۔

چونکہ حکومت شادی کو عورت کی مردوں کے ہاتھوں ماتحتی کے طور پر دیکھتی تھی اس لیے نوآبادیاتی فرق کے تحت کسی بھی ایسی شادی کو وہ ہسپانوی عورت کو مراکشی مرد کے تابع کرنے کے مترادف سمجھتی تھی۔

اگر یہ بات عام ہو جاتی ہے تو اس سے استعماری تسلط کی بنیاد کے کمزور ہونے کا خدشہ تھا۔

اس کے برعکس ہسپانوی مردوں اور مراکش کی خواتین کے درمیان تعلقات جو محافظوں میں بہت زیادہ تھے ان پر بہت زیادہ قدغن یا پابندی نہیں کیونکہ وہ معاشرے میں طاقتور ڈھانچے کے مطابق تھے۔

یہ سب محض سپین کے لیے مخصوص نہیں تھا: یورپی خواتین کے نوآبادیاتی مردوں کے ساتھ تعلقات میں داخل ہونے کا خوف تمام یورپی نوآبادیاتی انتظامیہ میں عام تھا۔

پڑوسی فرانسیسی خطے میں فرانسیسی حکام نے اس قسم کے تعلقات کے سیاسی نتائج کے لیے انھیں اسی طرح کی ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھتے تھے۔

ایسٹ انڈیز میں ڈچ اور ہندوستان میں انگریزوں نے یورپی خواتین اور نوآبادیات کے مردوں کے درمیان تعلقات کو کہیں زیادہ خطرناک دیکھا، اور اسی کے مطابق ان کی نگرانی کی۔

اگرچہ ان تعلقات کی حوصلہ شکنی کے لیے اقدامات کا دائرہ نامنظوری سے لے کر پابندی تک تھا لیکن ان میں بنیادی اصول ایک ہی تھا یعنی ایسے تعلقات ان حاکم قوموں کے لیے ایک خطرہ تھے۔

بہرحال یہ خطوط یہ ظاہر کرتے ہیں کہ نوآبادیاتی معاشرے کی سطح کے نیچے میل جول عام تھے اور ان سے تعلقات کی ایک پورا سلسلہ نکلتا تھا جن میں دوستیاں، صحبتیں، جنسی ملاقاتیں اور شادیاں شامل تھیں۔

ان خطوط کو شائع کرنے والوں کا کہنا ہے کہ ان خطوط کو کھولنا سنسنی خیز تھا کیونکہ یہ ان کی زندگیوں کی ایک ایسی کھڑکی کھول رہے ہیں جن کے بارے میں سرکاری دستاویزات ہمیں شاذ و نادر ہی بتاتی ہیں لیکن یہ کسی حد تک پریشان کن بھی نظر آتا ہے کیونکہ زیادہ تر خطوط کبھی بھی اپنی منزل تک نہیں پہنچ سکے۔

یہ رازداری پر حملے کی طرح محسوس ہوتا ہے کیونکہ انھوں نے کبھی نہیں سوچا ہو گا کہ ان کا مقدر آرکائیوز ہوں گے۔

سنہ 1956 میں جب مراکش آزاد ہوا تو تطوان میں مسلط حکومت کا خاتمہ ہو گیا اور اس کے آرکائیوز کو بہت حد تک فراموش کر دیا گیا۔

ان میں سے زیادہ تر کا مقدر میڈرڈ کے قریب یونیورسٹی ٹاؤن الکیلا دی ہیناریس میں انتظامیہ کے مرکزی آرکائیوز تھا جہاں افریقہ میں سپین کی نوآبادیاتی تاریخ کے بیشتر حصوں کی طرح انھیں بھی بھلا دیا گیا تھا۔

لیکن ان میں سے کچھ خطوط کی حالیہ اشاعت کے باوجود ان کی کہانیاں غیر معروف ہیں اور ایک طویل عرصے سے فراموش شدہ محفوظ شدہ دستاویزات سے ابھی تک تمام راز افشا نہیں ہوئے ہیں۔

BBCUrdu.com بشکریہ