جمعہ9؍ شوال المکرم 1442ھ21؍مئی 2021ء

میگھن، ہیری اور برطانیہ: حالات اس نہج پر کیسے پہنچے؟

میگھن مارکل، شہزادہ ہیری اور برطانیہ: حالات اس نہج پر کیسے پہنچے؟

Harry and Meghan's wedding

ایک وقت تھا کہ ڈیوک اور ڈچس آف سسیکس شہزادہ ہیری اور میگھن مارکل کو برطانوی شاہی خاندان کا جدید روپ تصور کیا جاتا تھا، لیکن جوڑے نے شاہی زندگی چھوڑ کر امریکہ میں بسنے کا فیصلہ کیا۔

خیال ہے کہ اس سے بکنگھم پیلس کو دھچکا لگا لیکن یہاں سوال یہ ہے کہ حالات اس موڑ پر کیسے پہنچے؟

محبت کی ایک افسانوی کہانی

2016 کے اوآخر میں یہ افواہیں گردش کرنے لگیں کہ شہزادہ ہیری اور امریکی اداکارہ میگھن مارکل کے درمیان افیئر ہے۔ میگھن کو اس سے قبل اپنے معروف ٹی وی شو ’سوٹس‘ کی بنا پر بہت پذیرائی ملی تھی۔

ان دونوں کی ملاقات ایک مشترکہ دوست کے ذریعے ہوئی اور 18 ماہ بعد ان کی منگنی ہوگئی۔

دونوں کے تعلقات منظر عام پر آنے کے فوری بعد انھیں میڈیا کی بے پناہ توجہ ملنا شروع ہوچکی تھی۔ کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ ان کی مدد سے برطانوی شاہی خاندان میں کھلبلی مچ سکتی ہے۔ اس کی وجہ یہ بتائی گئی کہ یہ ایک مختلف نسلوں کے افراد کا جوڑا ہے، اسے نوجوانوں میں مقبولیت حاصل ہے اور میگھن شوبز کا حصہ رہ چکی ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

اپنی منگنی کے بعد ہیری نے میڈیا کو بتایا کہ انھیں معلوم تھا کہ میگھن ہی ان کی ہم سفر بنیں گی۔ مئی 2018 میں کروڑوں لوگوں نے دیکھا کہ دونوں کی شادی کیسے دھوم دھام سے ہوئی۔

ایک لمحے کے لیے لگا کہ اس جوڑے کو سب ہی پسند کرتے ہیں، عوام کے ساتھ ساتھ میڈیا بھی۔

Harry and Meghan

پھر مسئلہ کہاں پیدا ہوئی؟

شروعات یہاں سے ہوئی جب برطانوی میڈیا میں میگھن کو شاہی خاندان کے ایک نئے فرد کی طرح پیش کیا گیا۔ ایسی تحاریر دیکھی گئیں کہ ’آپ ان کی طرح حسین کیسے لگ سکتی ہیں؟‘

کراؤن کرانیکلز کی مدیر اور تعلقاتِ عامہ کی ماہر وکٹوریا ہاورڈ کہتی ہیں کہ ’کئی لوگوں کا لگا تھا کہ شاہی خاندان میں اب تبدیلی آئے گی کیونکہ وہ نہ صرف غیر سفید فام تھیں بلکہ ان کا تعلق امریکہ سے تھا اور وہ طلاق یافتہ تھیں۔‘

’سب کہنے لگے یہ تو کمال ہے۔ وہ کھل کر بات کرتی ہیں اور فیمنسٹ بھی ہیں۔ یہ دونوں فرد ایک ساتھ بہت مقبول بھی تھے۔‘

تاہم منگنی سے پہلے بھی ایسے اشارے ملے تھے کہ میگھن کو برطانوی ٹیبلائڈ اخبار ہدف بنا سکتے ہیں۔

جب شہزادہ ہیری نے پہلی بار 2016 کے اوآخر میں اپنے افیئر کو تسلیم کیا تو اس وقت بھی انھوں نے میڈیا کے کچھ حلقوں کو تنقید کا نشانہ بنایا جنھوں نے ان کی گرل فرینڈ کے ساتھ ’بدزبانی کی ہے اور انھیں ہراسانی کا سامنا کرنا پڑا۔‘

ہیری نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ ’ان میں سے کچھ باتیں بہت زیادہ عوامی سطح کی گئی ہیں۔‘

’ایک قومی اخبار کے صفحۂ اول کے ذریعے ان پر ذاتی حملے، کالم میں نسلی امتیاز، جنسی تعصب، سوشل میڈیا پر ٹرولنگ اور انٹرنیٹ پر چھپنے والے کالم کے نیچے ایسے نسل پرستانہ کمنٹس۔‘

Harry and Meghan

ہاورڈ کہتی ہیں کہ ٹیبلائڈ اخباروں کی جانب سے ایسا رویہ غیر معمولی نہیں اور ایسی خواتین کے لیے بہت زیادہ میڈیا کوریج مشکل ہوسکتی ہے جو شاہی خاندان کا حصہ بننے جا رہی ہوں۔ جب سنہ 2007 میں کیٹ مڈلٹن اور شہزادہ ولیم کا بریک اپ ہوا تھا تو میڈیا پر افواہوں کو اس بریک اپ کی وجہ بتایا گیا تھا۔

’ٹیبلائڈ پریس اور شاہی خاندان کی خواتین کے تعلقات میں اُتار چڑھاؤ آتے رہے ہیں۔ جب وہ پہلے شاہی خاندان کا حصہ بنتے ہیں تو میڈیا کا ردعمل کافی مثبت ہوتا ہے۔ ایسی بےضرر تحاریر شائع کی جاتی ہیں کہ ’وہ کون سی کریم استعمال کرتی ہیں؟‘ پھر ایک سال بعد ان اخباروں کو احساس ہوتا ہے کہ محبت بھری تحاریر بور کر رہی ہیں۔ اس لیے وہ اپنے دوستوں اور سابق ساتھیوں کے ذریعے متنازع باتیں سامنے لاتے ہیں۔ اس طرح بد نیتی پر مبنی خبریں شائع کی جاتی ہیں۔‘

ہیری کے بیان سے واضح تھا کہ وہ میگھن پر ہونے والے حملوں پر خاموش رہنے والے نہیں ہیں۔ جب اس جوڑے نے شاہی زندگی ترک کی تو انھوں نے کہا تھا کہ وہ برطانیہ میں اس ’زہریلے‘ ماحول سے بچنا چاہتے ہیں جو پریس نے بنایا ہے۔

خبر رساں ادارے یاہو کے لیے شاہی دوروں کی کوریج کرنے والی صحافی جیسیکا مورگن کا کہنا ہے کہ ’ہیری نے دیکھا ہے کہ پریس نے ان کی والدہ کے ساتھ کیا سلوک کیا تھا اور وہ نہیں چاہتے تھے کہ ان کی اہلیہ کے ساتھ بھی ایسا ہی ہو۔‘

’ڈیانا کھل کر بات کرتی تھیں، انھیں اپنی آواز پر مہارت تھی اور وہ نہیں چاہتی تھیں کہ کوئی انھیں خاموش کرے۔ یہاں میگھن اور ان میں مماثلت ہے۔ جبکہ میگھن سیاہ فام بھی ہیں۔‘

تاریخ خود کو دہرا رہی ہے؟

Princess Diana

جب لیڈی ڈیانا سپینسر شاہی خاندان کا حصہ بنی تھیں تو میڈیا میں اس بارے میں مثبت خبریں شیئر کی گئی تھیں۔ میگھن کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا تھا۔

ہاورڈ کہتی ہیں کہ ’ڈیانا کو شروع میں بہت پیار ملا تھا۔۔۔ وہ اشرافیہ میں شامل ایک خوبصورت نوجوان خاتون تھیں۔ وہ مقبول تھیں اور کچھ غلط نہیں کرسکتی تھیں۔‘

لیکن اپنے سابقہ شوہر شہزادہ چارلس کے ساتھ طلاق کے بعد ڈیانا کو پاپارازی فوٹوگرافرز کی جانب سے تنگ کیا جاتا تھا۔ سنہ 1993 میں وہ ایک پاپارازی پر چیخی تھیں کہ ’تم لوگ میری زنذگی کو جہنم بناتے ہو۔‘ یہ فوٹوگرافر ان کا پیچھا کر رہا تھا۔

جِم میں ان کی خفیہ تصاویر لی گئی تھیں۔ افواہوں کے مطابق ڈیانا کے نئے پارٹنر دودى الفايد کے ساتھ ان کی تصاویر 10 لاکھ سے زیادہ ڈالرز میں فروخت ہوئی تھیں۔

پیرس میں ایک پاپارازی کی جانب سے ان کا پیچھا کیا جار رہا تھا کہ جب ان کی کار کو انڈر پاس میں ایک حادثہ پیش آیا۔ اس حادثے کے بعد میڈیا اور ان کے بیٹوں کے درمیان محبت اور نفرت کا ایک تعلق شروع ہوا۔ ان بیٹوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا کہ کیسے میڈیا کی مداخلت سے ڈیانا کی زندگی متاثر ہوئی تھی۔

ایک ’بے رحم‘ مہم

شہزادہ ہیری شاہی خاندان کا حصہ ہیں اور ان کے والد تخت کے وارث ہیں۔ آغاز سے ان کی زندگی میڈیا کی توجہ کا باعث رہی ہے اور ان کی نئی پارٹر کے لیے اس میں کچھ مختلف نہیں ہونے والا تھا۔

شروع میں میگھن کو یہ پُرعزم، غیر سفید فام خاتون کے طور پر پیش کیا گیا اور بعد میں میڈیا کا دھیان ان کے طلاق، خاندانی زندگی، سابقہ پیشہ اور نسل کی جانب مرکوز ہوا۔

Newspapers featuring Harry and Meghan

میل آن لائن پر ایک تحریر میں یہ غلط معلومات دی گئی کہ میگھن کا بچپن لاس اینجلس میں گزرا تھا جہاں جرائم پیشہ افراد گینگز کی صورت میں متحرک تھے۔ جبکہ ان کا اکثر بچپن ہالی وڈ کے حلقوں میں گزرا تھا جہاں انھوں نے نجی سکول سے تعلیم حاصل کی تھی۔ اسی ویب سائٹ کی ایک دوسری تحریر میں کہا گیا کہ ان کی والدہ ’ایک افریقی نژاد امریکی خاتون ہیں جو ایل اے میں رہتی ہیں‘ اور میگھن کا ’غیر ملکی ڈی این اے‘ ہے۔

میگھن کا کہنا تھا کہ ’جب وہ شاہی خاندان کا حصہ بنیں تو سب بہت مثبت تھا۔ لوگ خوش تھے۔ لیکن پھر سب بدل گیا۔ پریس کی جانب سے نسل پرستانہ لہجہ اختیار کیا گیا۔‘

’ایسا لگتا ہے جیسے سیاہ فام افراد پر حملہ کیا گیا ہے۔ یہ مجھے اپنے پر اور میرے لوگوں پر ایک ذاتی حملہ معلوم ہوتا ہے۔ برطانیہ میں بطور ایک سیاہ فام خاتون مجھے معلوم ہے کہ نسلی امتیاز کیا ہوتا ہے۔۔۔ یہ زبان و لہجے کی بات ہے۔‘

Kate and Meghan

ڈچز سے متعلق ہیڈلائنز میں انھیں ’مشکل‘، ’اپنی بات منوانے والی‘ اور ’بدمعاش‘ جیسے الفاظ سے پکارا گیا ہے۔ یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ میگھن نے کینسنگٹن پیلس سے دو ذاتی اسسٹینٹس کو نکالا ہے۔ وہ اس بات کی تردید کرتی ہیں اور اسے ان پر ایک نیا ذاتی حملہ قرار دیتی ہیں۔ بکنگھم پیلس اس کی تفتیش کر رہا ہے۔

لیکن آن لائن مبصرین نے موازنہ کیا ہے کہ کیٹ اور میگھن پر ٹیبلائڈز نے نے الگ الگ طرح سے خبریں دی ہیں۔

جنوری 2018 میں ڈیلی ایکسپریس میں بتایا گیا کہ میگھن کو ایواکاڈوز پسند ہیں اور اسے قحط یا قتل کی علامت سے جوڑا دیا۔ لیکن اسی اخبار نے 15 ماہ پہلے بتایا کہ کیٹ ایواکاڈو کھا رہی ہیں اور یہ تو صبح سویرے خراب طبیعت کا علاج ہے۔

مورگن کے مطابق وقت آگیا ہے کہ ہم نسل کی بنیاد پر رویے میں تبدیلی کا جائزہ لیں۔ ’ایک مقبول خاتون ہونے کا مطلب ہے آپ کو بڑے پیمانے پر نوٹ کیا جاتا ہے۔ اگر آپ سیاہ فام خاتون ہیں تو آپ کی بہت زیادہ جانچ پڑتال کی جاتی ہے کیونکہ ان سے امید کی جاتی ہے کہ وہ زیادہ عمدہ اصول اپنائیں گی اور بے مثال ہوں گی۔‘

’جب کیٹ شاہی اصول کی خلاف ورزی کرتی ہیں تو کہا جاتا ہے کہ وہ ابھی سیکھ رہی ہیں جبکہ میگھن کی جانب سے اپنی کار کا دروازہ خود بند کرنا ایک بڑی خبر بن جاتا ہے۔ یہ اس نظام میں اور ادارے کی سطح پر مسئلہ ہے۔‘

اسی طرح کی میڈیا کوریج کے بعد اکتوبر 2019 میں ہیری نے برطانوی ٹیبلائڈز کی مذمت میں ایک بیان جاری کیا تھا۔ انھوں نے اسے اپنی اہلیہ کے خلاف ایک ’بے رحم‘ مہم اور پروپیگنڈا قرار دیا تھا۔ جوڑے نے اعلان کیا تھا کہ وہ آئندہ ڈیلی مرر، دی سن، دی ڈیلی میل اور ڈیلی ایکسپریس سے بات نہیں کریں گے۔

ہاورڈ کہتی ہیں کہ ’کچھ ٹیبلائڈ میگھن پر توجہ مرکوز کرتے ہیں کیونکہ انھیں معلوم ہے کہ اس سے تہلکہ پھیلے گا۔۔۔ ایسی خبروں پر زیادہ بات چیت ہوگی اور انھیں زیادہ شیئر کیا جائے گا۔‘

لیکن وہ کہتی ہیں کہ پبلیسیٹی دو طرفہ سڑک ہے۔

’ہیری اور میگھن کو چاہیے کہ میڈیا سے رابطے میں رہیں تاکہ ان کی اچھی باتوں کو بھی کوریج ملے۔ یہ ان کے مفاد میں ہے کہ اچھا کھیلیں۔ انھیں معلوم ہے کہ انھیں پریس کی ضرورت ہے اور پریس کو ان کی۔‘

Harry and Meghan

’میڈیا کو یہ پسند نہ آیا کہ ہیری اور میگھن نے آغاز میں ہی ایک قدم پیچھے لے لیا۔ انھوں نے کہا ہمیں اکیلا چھوڑ دو اور پریس کو یہ پسند نہیں آیا۔‘ حال ہی میں میگھن نے میل آن سنڈے اور میل آن لائن کے خلاف جملہ حقوق سے متعلق ایک دعویٰ جیتا ہے۔ یہ ان کی جانب سے اپنے والد کو لکھے گئے ایک خط سے متعلق مقدمہ تھا جسے اخبار نے شائع کیا تھا۔

ہائی کورٹ کے فیصلے میں کہا گیا تھا کہ ادارہ اپنے اخبار اور ویب سائٹ پر میگھن کی فتح کی خبر لگائے۔ لیکن ادارہ اس پر اپیل کرنے کا منصوبہ رکھتا ہے۔

دی میل آن لائن اور میل آن سنڈے کی مالک کمپنی ڈی ایم جی میڈیا نے اس تحریر میں اٹھائے گئے سوالات کے ردعمل میں تاحال کوئی جواب نہیں دیا۔ یہی کمپنی ایکسپریس میڈیا کی بھی مالک ہے۔

ٹیبلائڈ اخباروں سے ان کے تنازعات کے دوران یہ افواہیں بھی گردش کرنے لگیں کہ ان کا شاہی خاندان سے جھگڑا ہوا ہے۔

جنوری 2020 میں جوڑے نے اپنی شاہی زندگی ترک کرنے کا اعلان کیا۔ یہ فیصلہ پیلس سے مشاورت کے بغیر کیا گیا تھا اور حکام نے اس پر ’مایوسی‘ ظاہر کی تھی۔ یہ جوڑا پھر اپنے بیٹے آرچی کے ساتھ کیلیفورنیا منتقل ہوگیا تھا۔ فروری میں ملکہ برطانیہ نے اعلان کیا تھا کہ یہ جوڑا اب شاہی خاندان میں اپنے منصب پر واپس نہیں آئے گا۔

ہاورڈ کہتی ہیں کہ اس انٹرویو کے دیر پا اثرات ہوں گے۔ ’یہ شاہی خاندان کے لیے ایک تاریخی لمحہ ہوگا اور اس بار وہ گلاب کی طرح پاک نہیں رہ پائیں گے۔‘

BBCUrdu.com بشکریہ
You might also like

Comments are closed.