بدھ14؍شوال المکرم 1442ھ26؍مئی 2021ء

’میری بیٹی کو کہا گیا کہ انڈروئیر میں پوز کرو‘: دوستی سے بلیک میلنگ تک کی ایک کہانی

کورونا وائرس کی وبا کے دوران بچوں کے ساتھ آن لائن جنسی ہراس کے واقعات: ’میری بیٹی کو کہا گیا کہ وہ انڈروئیر میں پوز کرے‘

  • وکٹوریا پریسڈسکایا
  • بی سی نیوز، یوکرین

آن لائن ہراسانی

دنیا بھر میں بچوں کی خیراتی تنظیموں کی جانب سے اس تشویش کا اظہار کیا گیا ہے کہ کورونا وائرس کی وبا کے دوران بچوں کے ساتھ انٹرنیٹ پر نازیبا رویے اور ہراساں کیے جانے کے واقعات میں کافی اضافہ ہوا ہے۔

یورپی ملک یوکرین میں ایک این جی او چائلڈ ریسکیو سروس کی جانب سے کی گئی ایک تحقیق کے مطابق اس وبا کے دوران چھ برس سے 17 برس کے بچوں اور نوجوانوں میں ہر چار میں سے ایک کو انٹرنیٹ پر ان کے جسم کے بارے میں سوالات کا سامنا کرنا پڑا یا کسی نے ان بچوں سے ان کی کم کپڑوں میں تصاویر کا مطالبہ کیا۔

الونا صرف 12 برس کی تھیں جب وہ شدید اضطراب کا شکار ہو گئیں۔ وہ کئی کئی دن اپنے کمرے میں خود کو بند کر لیتیں، کھانا کھانے اور خاندان کے دوسرے افراد سے بات چیت کرنے سے اجتناب برتتیں۔

ان کی والدہ اوکسانا کہتی ہیں کہ ایک جانب سے ایسا ہوتا اور دوسری جانب وہ کبھی کبھی اتنا پرجوش ہو جاتیں کہ ’ان پر ہنسی کا دورہ پڑ جاتا اور وہ سارے وقت مجھ سے بغل گیر ہوتیں۔‘

ان کی درخواست پر دونوں ماں اور بیٹی کے نام تبدیل کیے گئے ہیں۔

آن لائن ہراسانی

اوکسانا اپنی بیٹی کے چھ ماہ تک جاری رہنے والے اس عذاب کے بارے میں بتاتی ہیں کہ کس طرح سوشل میڈیا پر ان کو ایک نامعلوم شخص یا کسی نامعلوم گروہ نے ہراساں کیا اور یہ سارا معاملہ یوکرین میں کورونا وائرس کی وبا کی پہلی لہر کے دوران شروع ہوا۔

ان کی والدہ کہتی ہیں ’آپ کو علم ہے کہ نوجوان کس طرح سے اپنی خود مختاری چاہتے ہیں اور اپنے لیے جگہ بنانا چاہتے ہیں تو ہم نے الونا کے ساتھ ایسا ہی کیا۔ وہ پڑھائی میں اچھی تھی اور ہماری ہمیشہ مدد کرتی۔ تو ہمارے لیے کوئی وجہ نہیں تھی کہ اس پر اعتماد نہ کریں۔‘

لیکن پھر اوکسانا نے اپنی بیٹی کے رویے میں آہستہ آہستہ تبدیلی دیکھنی شروع کی جو کہ ویسے بہت خوش باش رہنے والی تھیں اور یہ ان کے موبائل فون کے مسلسل استعمال سے شروع ہوا۔

جب بھی اوکسانا اپنی بیٹی کو کہتیں کہ وہ موبائل کم استعمال کریں تو الونا جارحانہ رد عمل دیتیں۔

’وہ تو بس ہر وقت اپنے فون میں لگی رہتی تھیں اور مجھے معلوم تھا کہ وہ کسی کو میسج کر رہی ہے، حتیٰ کہ رات کے وقت بھی۔‘

آن لائن ہراسانی

اور پھر الونا کی ذہنی صحت متاثر ہونے لگی۔

وہ اپنے کمرے میں خود کو بند کر لیتی اور کہتیں کہ ان کا باہر جانے کا دل نہیں۔ وہ اپنی والدہ کو کہتی کہ وہ اچھا نہیں محسوس کر رہی لیکن کبھی یہ نہیں بتاتی کہ انھیں ہوا کیا ہے۔

’یوکرین میں لاک ڈاؤن چل رہا تھا اور سب کچھ ایک ساتھ ہوا۔ میں اور میرے خاوند اپنی نوکریوں کے لیے پریشان تھے اور اپنے مستقبل کے بارے میں سوچ رہے تھے تو شاید ہم نے بھی اپنی بیٹی کی طرف اتنی توجہ نہیں دی۔ پھر ایک رات وہ زار و قطار روتے ہوئے میرے پاس آئی۔ میں نے اس سے پوچھا کہ کسی نے تم کو تکلیف دی ہے تو اس نے کہا کہ نہیں لیکن شاید میں نے خود کیا ہو۔‘

اوکسانا کو اس کے بعد یہ جاننے میں کہ ان کی بیٹی کے ساتھ کیا ہوا ہے، مزید کئی دن لگے۔

آن لائن ہراسانی

ہوا دراصل یہ تھا الونا کو لگا کہ انھوں نے سوشل میڈیا ایپ انسٹاگرام پر ایک 15 سالہ لڑکے سے دوستی کی ہے، جو اس لڑکے کی پروفائل پر درج تھا۔

وہ نوجوان خوبصورت اور دلکش تھا اور وہ الونا کی بے حد تعریف کرتا کہ وہ اتنی حسین ہیں کہ ماڈل بن سکتی ہیں۔ کئی ہفتوں تک وہ دونوں موسیقی سنتے اور رات گئے تک باتیں کرتے رہتے۔

الونا نے اپنی والدہ کو بتایا کہ انھیں لگا کہ وہ اس نوجوان کو سب کچھ بتا سکتی ہیں لیکن پھر ایک دن اس کے پیغامات آنے بند ہو گئے۔

الونا اس نوجوان کے ساتھ اپنے تعلقات میں اتنی خوش تھیں کہ جب ان کے پیغامات آنے بند ہوئے تو الونا نے بار بار میسج کر کے پوچھا کہ کیا ہوا ہے۔

پھر بالآخر ایک دن اس لڑکے نے جواب دے ہی دیا۔

اس نے کہا ’مجھے لگتا ہے کہ تم مجھ سے پیار نہیں کرتی اور اگر تم واقعی پیار کرتی تو تم مجھ سے زیادہ کھل کر بات کرتی۔ کیا تم یہ ثابت کرنے کے لیے تیار ہو؟‘

آن لائن ہراسانی

پہلے پہل اس نے پوچھا کہ الونا اپنی تصاویر اور ویڈیوز اس لڑکے کو بھیجے، پھر اس نے مختلف پیغامات بھیجنے شروع کیے۔

’کیا تم مجھے اپنے وہ پاجامے دکھا سکتی ہو جو تم کو سالگرہ پر ملے تھے؟‘

’کیا تم مجھے ورزش کرنے سے پہلے وارم اپ ہونے کی ویڈیو بھیج سکتی ہو؟‘

لیکن پھر جیسے جیسے وقت گزرتا گیا، اس لڑکے کے مطالبات بھی بڑھتے چلے گئے۔ اس نے الونا کو کہا کہ وہ انڈروئیر میں پوز کرے، اور پھر کہا کہ انڈروئیر کے بغیر پوز کرے۔ اس لڑکے نے الونا سے پھر کہا کہ وہ ویڈیو لائیو سٹریم کرے جس میں الونا اپنے جسم کو خود محسوس کرے یا نہاتے ہوئے لائیو سٹریم کرے۔

جب الونا نے ایسا کرنے سے منع کر دیا تو اس لڑکے کا موڈ تبدیل ہو گیا اور اس کے ساتھ ساتھ ان دونوں کی گفتگو کا ماحول بھی یکسر بدل گیا۔

الونا کو دھمکی آمیز پیغامات ملنے شروع ہو گئے جس میں اس کو کہا گیا کہ جو تصاویر اس نے لڑکے کو بھیجی تھیں وہ سوشل میڈیا پھر پھیلا دی جائیں گی اور الونا کے والدین تک بھیج دی جائیں گی۔

ان پیغامات میں الونا کو کہا گیا کہ جو کچھ اس نے خود بھیجا ہے وہ یوکرین کے قانون کے تحت غیر قانونی ہے اور اس کے خلاف پولیس کو شکایت کی جائے گی۔

اس کے فوراً ساتھ الونا کو بہت سارے اکاؤنٹس سے پیغامات آنے شروع ہو گئے جس میں بتایا گیا کہ وہ جانتے ہیں کہ الونا کہاں رہتی ہیں اور کس سکول جاتی ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

الونا کی والدہ اوکسانا کو شبہ تھا کہ یہ پیغامات کسی فرد واحد کی جانب سے نہیں بلکہ ایک گروپ کی جانب سے کیے جا رہے ہیں۔

بالآخر الونا کو کہا گیا کہ اگر وہ یہ سلسلہ بند کرنا چاہتی ہیں تو انھیں ذاتی طور پر ملاقات کے لیے آنا ہو گا۔ اس پیغام میں کہا گیا کہ کسی کو کوئی تکلیف نہیں دی جائے گی تو وہ پریشان نہ ہوں۔

اوکسانا کہتی ہیں کہ وہ بہت بہت شکر گزار ہیں کہ یہ وہ موقع تھی جب الونا نے اپنی والدہ سے اس بارے میں بات کی۔

’میں یہ تصور بھی نہیں کر سکتی کہ اگر وہ ان لوگوں سے ملتی تو اس کے ساتھ کیا ہوتا۔‘

الونا کے ساتھ جو ہوا اسے ’آن لائن گرومنگ‘ بھی کہا جاتا ہے یعنی دھوکہ دہی اور عیاری کے ذریعے پہلے سوشل میڈیا پر کسی انسان سے دوستی کی جاتی ہے، اس کے ساتھ رشتہ اور تعلق قائم کیا جاتا ہے اور پھر بات بڑھ کر آن لائن یا حقیقی زندگی میں جنسی ہراس اور تشدد تک پہنچ جاتی ہے۔

سوشل میڈیا نیٹ ورکس جیسے انسٹاگرام، فیس بک، ٹک ٹاک وغیرہ سب ایسے الگورتھم کا استعمال کرتے ہیں تاکہ صارفین ایسے دوست بنا سکیں جو ان کے ہم عمر ہو، ان کی رہائش، ان کی جنس وغیرہ ملتی جلتی ہو اور ان کی دلچسپی کی مشترکہ چیزیں ہوں۔

لیکن ان ہی الگورتھم کی مدد سے آن لائن ’شکاری‘ افراد نوجوانوں کو تلاش کرتے ہیں اور حیلے بہانوں سے ان کا فائدہ اٹھاتے ہیں۔

یہ افراد فیک اکاؤنٹس بنا کر ان نوجوان لڑکے لڑکیوں کی ذاتی معلومات جمع کرتے ہیں اور خود کو ایسا بنا کر پیش کرتے ہیں کہ لوگ ان کے شوق اور خیالات کو دیکھ کر ان کی جانب راغب ہو جائیں۔

بچوں کے تحفظ کی تنظیمیں کہتی ہیں کہ سوشل میڈیا کمپنیوں کی جانب سے اس قسم کا رجحان فروغ دیا جاتا ہے جہاں وہ صارفین کو کہتے ہیں کہ بتائیں کہ ان کے ذہنوں میں کیا چل رہا ہے اور اس کی وجہ سے کئی بچے بچیاں شکاری افراد کا ہدف بن جاتے ہیں کیونکہ وہ ان ’سٹیٹس پیغام‘ کے ذریعے سمجھے جاتے ہیں کہ یہ نوجوان اس وقت کسی کرب کی حالت سے گزر رہا ہے۔

آن لائن ہراسانی

کورونا وائرس کی وبا کے دوران دنیا بھر کے لاکھوں نوجوانوں نے آن لائن ہزاروں گھنٹے صرف کیے ہیں کیونکہ وہ یا آن لائن کلاسز لے رہے ہیں یا وہ اپنے دوستوں سے انٹرنیٹ پر بات کر رہے ہیں۔

بین الاقوامی این جی او انٹرنیٹ واچ آرگنائزیشن کے مطابق آن لائن زیادہ وقت صرف کرنے کی وجہ سے ساری دنیا میں بچوں کے ساتھ ہراساں کیے جانے کے واقعات میں بھی تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ بین الاقوامی سائبر کرائم پولیس کے مطاب لاک ڈاؤن کی وجہ سے پیدا ہونے والے ماحول نے ایسی صورتحال پیدا کر دی کہ بچوں کے پاس آن لائن وقت گزارنے کے علاوہ اور کوئی چارہ بھی نہیں۔

یوکرین کی این جی او چائلڈ ریسکیو سروس نے بچوں کے لیے انٹرنیٹ پر موجود خطرات کے بارے میں اپنی تحقیق میں چھ سے 17 برس کی عمر کے سات ہزار سے زیادہ بچوں سے انٹرویو کیے۔

ان کی تحقیق سے یہ بات سامنے آئی کہ ہر چار میں ایک بچے کو اس دوران انٹرنیٹ پر ان کے جسم کے بارے میں ذاتی نوعیت کے سوالات کا سامنا کرنا پڑا یا ان سے کہا گیا کہ وہ اپنی کم کپڑوں والی تصاویر بھیجیں۔

اس تحقیق کی سربراہی کرنے والی ڈاکٹر اولینا کاپرالسکا کہتی ہیں کہ اس تحقیق کے نتائج ’ہولناک‘ تھے اور یہ بات سامنے آئی کہ سب سے زیادہ ہراساں کیے جانے کے واقعات دس برس سے 17 برس کی عمر کے نوجوانوں کے ساتھ رونما ہوئے۔

وہ بتاتی ہیں کہ کچھ بچوں کو کہا گیا کہ وہ کیمرے کے سامنے خود کو ہاتھ لگائیں اور کچھ کو کہا گیا کہ وہ اصل زندگی میں انجان لوگوں سے ملاقات کریں۔

’سب سے زیادہ پریشان کن بات یہ تھی کہ ان میں سے نصف سے زیادہ بچوں نے ان تمام واقعات کے بارے میں کسی بڑے کو اطلاع نہیں دی کیونکہ وہ شرمندہ تھے۔ میرے خیال میں یہ بہت اہم اشارہ ہے والدین کے لیے، بچوں کی نگرانی کرنے والوں کے لیے یا ان بچوں کے اساتذہ کے لیے کیونکہ بچے عام طور پر کم سنی کے باعث خطرناک صورتحال کو پہچان نہیں پاتے اور اس نوعیت کے خطرات اصل زندگی میں جنسی ہراس کا سبب بن سکتے ہیں۔‘

زوم پر خطرہ

انٹرنیٹ پر تعلیم حاصل کرنے کی وجہ سے اب بچوں کے لیے ایک نئی طرز کا خطرہ پیدا ہو گیا ہے۔

یوکرین کی سائبر پولیس کے چیف انسپیکٹر رومن سوچکا کہتے ہیں کہ اب ’زوم کے ذریعے بچوں کو ہراساں کیا جا رہا ہے لیکن ان واقعات کا سکرین شاٹس کی غیر موجودگی میں ثابت کرنا بہت دشوار ہوتا ہے۔‘

آن لائن ہراسانی

یوکرین کے دارالحکومت کیئوو میں ماریہ کا بیٹا لوگوس سیکنڈری سکول میں پانچویں جماعت کا طالبعلم ہے اور صرف ایک مہینے میں درجنوں بار ان کی کلاس کے لیکچروں کے دوران انھیں ’زوم بومبنگ‘ کا سامنا کرنا پڑا یعنی یعنی زوم کال کے دوران انجانے لوگ ان کے آن لائن لیکچر میں گھس گئے اور بچوں کو گالیاں دیں اور برا بھلا کہا۔

جب پہلی دفعہ یہ ہوا تو کلاس ٹیچر اتنی حواس باختہ ہوئیں کہ وہ ویڈیو میٹنگ سے نکل گئیں اور وہ انجانے لوگ طلبہ کے ساتھ اکیلے رہ گئے۔

دوسری بار جب یہ واقعہ ہوا تو ماریہ کے 11 سالہ بیٹے نے اپنی والدہ کو بتایا کہ ان کی پوری کلاس کے سامنے ایک فحش ویڈیو چلائی گئی اور دوسری ویڈیو جس میں ایک برہنہ شخص کیمرہ کے سامنے مشت زنی کر رہا ہے۔

سکول کے ہیڈ ٹیچر اینڈرے پروتوس کا کہنا ہے کہ ان کا ماننا ہے کہ ان کے کسی شاگرد نے ورچوئل کلاس روم کا پاسورڈ ملزمان کے ساتھ شیئر کیا۔ انھوں نے متعدد واقعات کی اطلاع سائبر پولیس کو دی لیکن سب 15 کیسز کی اطلاع نہیں دی کیونکہ وہ کہتے ہیں کہ ’آن لائن پڑھائی کی وجہ سے زوم پر ایسے واقعات تمام ہی سکولوں میں ہو رہے ہیں۔‘

ماریہ کہتی ہیں کہ بہت سے دیگر والدین اس معاملے پر پولیس کے ساتھ ملوث ہونے کے خواہشمند نہیں تھے۔

یہ بھی پڑھیے

سماجی مقامات کو محفوظ بنانا

ماریہ کے بیٹے اور ان کے کلاس فیلو کے ساتھ جو ہوا وہ ’غیر مہذب طور پر جسم کی نمائش‘ تھا، ایک بہت ہی سنگین جرم تھا (حالانکہ کسی مجرمانہ مقدمے کی پیروی نہیں کی گئی)۔

ایلونا کے کیس میں چائلڈ پورنوگرافی دیکھنے اور تقسیم کرنے کے ارادے سے کسی بچے سے آن لائن دوستی کرنا وغیرہ، فروری میں یوکرین میں غیر قانونی قرار دے دیا گیا۔ لہذا الونا کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ اس وقت تکنیکی طور پر کوئی جرم نہیں تھا۔

آن لائن ہراسانی

ایلونا کی والدہ کہتی ہیں ’ہم نے اس کا فون نمبر بدل دیا، اس کے تمام سوشل میڈیا اکاؤنٹس کو ڈیلیٹ کر دیا لیکن وہ ابھی بھی باہر جاتے یا گھر میں اکیلے رہتے ہوئے خوفزدہ محسوس کرتی ہیں۔‘

’ان کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ اس کے بارے میں ابھی بھی بہت شرمندہ ہیں اور مجھے ڈر ہے کہ یہ ان کے مستقبل کے رشتوں اور دوسروں پر اعتبار کرنے کی صلاحیت پر اثرانداز ہو گا۔‘

چائلڈ تھراپسٹ ڈاکٹر اولینا نگولا کا کہنا ہے کہ ’آن لائن بدسلوکی کی نوعیت کی وجہ سے تصاویر لازمی طور پر انٹرنیٹ پر گردشی کرتی ہیں۔ جس کی وجہ سے متاثرین کو شدید قسم کے ذہنی تناؤ سے گزرنا پڑتا ہے۔‘

ڈاکٹر نگولا کے مطابق ’حتیٰ کے نیند کے مسائل، گھبراہٹ کے دورے، خودکشی اور خود کو نقصان پہنچانے کے خیالات بھی آنے لگتے ہیں۔‘

ذمہ دار کون ہے؟

فیس بک، انسٹاگرام، ٹک ٹاک اور یوٹیوب سمیت سوشل میڈیا کے تمام بڑے پلیٹ فارمز کا کہنا ہے کہ وہ اپنی ایپس کو نوجوانوں کے لیے محفوظ بنانے کے لیے سخت محنت کر رہے ہیں۔

لیکن نازیبا مواد کو تلاش کرنے اور پھر اسے ہٹانے کے لیے مختلف ٹولز کو بنانے کی کوششوں کے باوجود بچوں کی وکالت کرنے والے گروپس کا کہنا ہے کہ اس طرح کے مواد کو اپ لوڈ اور شیئر کرنے سے روکنے کے لیے کوئی خاطر خواہ کام نہیں کیا جا رہا۔

ایک سب سے بڑا مسئلہ عمر کی تصدیق کا ہے۔ بہت سے سوشل میڈیا پیلٹ فارمز کو استعمال کرنے کے لیے درکار عمر 13 ہے کیونکہ قانونی طور پر کمپنیاں کسی کی بھی رضامندی کے بغیر ان کی عمر سے زیادہ ذاتی معلومات جمع نہیں کرسکتی ہیں۔

تاہم چائلڈ ریسکیو سروس کی رپورٹ سے مزید معلومات ملی ہیں کہ 6 سے 11 سال کی عمر کے یوکرینی بچوں میں سے ایک تہائی کے انسٹاگرام یا ٹِک ٹاک اکاؤنٹ ہیں۔

اپنا اکاؤنٹ بنانے کے لیے ان بچوں نے یا تو اپنی جعلی سالگرہ یا عمر داخل کی یا کسی بالغ کو ان کے لیے اکاؤنٹ بنانے کو کہا۔

آن لائن ہراسانی

والدین کیا کر سکتے ہیں؟

کورونا وائرس لاک ڈاؤن کے دوران بچے سوشل میڈیا پر زیادہ وقت گزار رہے ہیں۔

یہ اپنے دوستوں سے رابطے میں رہنے کا ایک اچھا طریقہ ہے لیکن ضروری ہے کہ ان کے پاس ایسا کوئی بالغ شخص موجود ہو جس سے وہ کسی بھی ایسی چیز کے بارے میں بات کر سکیں جو آن لائن انھیں پریشان کرے۔

والدین یا بچوں کی نگہداشت کرنے والے نوجوانوں سے یہ پوچھ سکتے ہیں کہ وہ کون سی گیم کھیل رہے ہیں اور انھیں سوشل میڈیا پر کیا کرنا پسند ہے۔

اس بارے میں بات کرنا ضروری ہے کہ انھوں نے کون سی تصویریں دیکھی اور شئیر کیں۔ نوجوانوں کی آن لائن زندگی پر اعتماد اور دلچسپی انھیں محفوظ رکھنے میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔

آن

BBCUrdu.com بشکریہ
You might also like

Comments are closed.