میرا وقاص گورایہ کو قتل کرنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا، ملزم کا عدالت میں بیان
- رفاقت علی
- بی بی سی اردو ڈاٹ کام، لندن
احمد وقاص گورایہ کو قتل کرنے کی سازش کے الزام میں لندن میں مقدمہ چل رہا ہے
ایک برطانوی شخص جس کے خلاف ایک پاکستانی بلاگر کو قتل کرنے کی سازش کرنے کے الزام میں لندن کی عدالت میں مقدمہ چل رہا ہے، نے عدالت کو بتایا ہے کہ اس کا پاکستانی بلاگر وقاص گورایہ کو قتل کرنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا اور وہ صرف اس شخص سے رقم حاصل کرنے کی کوشش کر رہا تھا جس نے اُن کا کاروبار تباہ کر دیا تھا۔
محمد گوہر خان پر الزام ہے کہ نیدرلینڈز میں مقیم بلاگر احمد وقاص گورایہ کو قتل کرنے کے لیے بطور اجرتی قاتل اُن کی خدمات حاصل کی گئی تھیں۔
محمد گوہر خان کا پولیس کو دیا گیا بیان عدالت میں پڑھ کر سنایا گیا۔ محمد گوہر خان نے کہا کہ ان کا ورلڈ وائڈ کارگو سروس کے نام سے کاروبار تھا جس میں برطانیہ سے اشیا پاکستان پہنچائی جاتی تھیں اور مسٹر ’مڈز‘ اُن کے ایک ڈلیوری ایجنٹ تھے۔
ملزم محمد گوہر خان نے عدالت کو بتایا کہ مسٹر مڈز سے اُن کی جان پہچان اس وقت ہوئی جب اُن کے خاندان نے انھیں تعلیم کی غرض لندن سے لاہور بھجوایا تھا اور وہاں وہ اپنے رشتے داروں کے ساتھ رہ رہے تھے۔
ملزم گوہر خان نے عدالت کو بتایا کہ مسٹر مڈز کی وجہ سے ان کا کاروبار تباہ ہوا اور مسٹر مڈز کے ذمے ان کی رقم تھی۔
محمد گوہر خان نے عدالت کو بتایا کہ مسٹر مڈز نے ان سے رابطہ کر کے کہا کہ ان کے پاس ایک پراجیکٹ ہے اور اگر وہ کر لیں تو اس کے عوض ان کو ایک لاکھ برطانوی پاؤنڈز کی رقم مل سکتی ہے۔
ملزم گوہر خان نے کہا کہ ابتدا میں انھیں اس پراجیکٹ کی تفصیلات کے بارے میں کچھ علم نہیں تھا لیکن اُنھوں نے اس کوشش میں پراجیکٹ کرنے کی ہامی بھری تاکہ وہ کسی طرح مسٹر مڈز سے اپنی رقم وصول کر لیں۔
گوہر خان نے عدالت کو بتایا کہ مسٹر مڈز ایک مڈل مین تھے اور انھیں نہیں معلوم کہ رقم کہاں سے آ رہی تھی۔ ملزم گوہر خان نے کہا کہ مسڑ مڈز نے پراجیکٹ کی رقم میں سے اپنا حصہ مانگا اور یہ طے ہوا کہ اُنھیں ایک لاکھ پاؤنڈز میں سے 20 ہزار پاؤنڈز ملیں گے۔
ملزم گوہر خان نے عدالت کو بتایا کہ وہ متشدد شخص نہیں ہیں اور اُنھیں نہیں یاد کہ اُنھوں نے زندگی میں کسی کو مُکا بھی مارا ہو۔
گوہر خان نے کہا کہ اُنھیں یقین نہیں آ رہا تھا کہ پاکستان میں کسی کے پاس اتنی رقم ہے اور وہ صرف کسی ایسے موقع کی تلاش میں تھے کہ کسی طرح وہ مسٹر مڈز سے اپنی رقم حاصل کر لیں اور اسی لیے پراجیکٹ کو مکمل کرنے کی ہامی بھر رہے تھے۔
ملزم گوہر خان نے عدالت کو بتایا کہ اُنھوں نے نیدرلینڈز جانے کا فیصلہ اس لیے کیا تاکہ وہ مسٹر مڈز کو یقین دلا سکیں کہ وہ پراجیکٹ کو مکمل کرنے کا اردہ رکھتے ہیں۔
گوہر خان نے بتایا کہ اُنھوں نے کچھ رقم کا تقاضا کیا اور انھیں کچھ رقم ہُنڈی کے ذریعے بھیجوائی گئی اور شاہ جی کے نام سے جانے جانے والے ایک شخص نے لندن میں کچھ رقم ان کے حوالے کی۔
عدالت کو بتایا گیا کہ ملزم گوہر خان کو روٹرڈیم میں واٹس ایپ پر احمد وقاص گورایہ کے گھر کا پتہ اور اُن کی تصویر مہیا کی گئی۔
ملزم گوہر خان نے پولیس کو بتایا کہ اُنھوں نے چند روز روٹرڈیم میں قیام کیا اور اس دوران دو بار اس پتے پر گئے جو اُنھیں دیا گیا تھا۔ ایک بار اُنھوں نے اُوبر ٹیکسی میں بیٹھ کر علاقے کا دورہ کیا اور ایک مرتبہ خود اپنے طور پر وہاں گئے۔
ملزم نے بتایا کہ روٹرڈیم میں قیام کے دوران اُنھوں نے ہوٹل کے عملے کے علاوہ کسی اور شخص سے کوئی بات چیت نہیں۔
ملزم گوہر خان نے پولیس کو بتایا کہ وہ متشدد شخص نہیں ہیں اور روٹرڈیم میں ڈچ پولیس کی گاڑی نے جب دو بار اُن کے گرد چکر لگایا تو وہ گھبرا گئے۔
ملزم گوہر خان نے پولیس کو بتایا کہ اُنھوں نے اس پتے کی جہاں پاکستان بلاگر مقیم تھے، دو بار ویڈیو اس لیے بنائی تاکہ وہ مسٹر مڈز کو یہ باور کروا سکیں کہ وہ پراجیکٹ پر کام کر رہے ہیں اور اُنھیں ادائیگی کی جائے۔
ملزم گوہر خان نے بارہا پولیس کو بتایا کہ اُن کا روٹرڈیم جانے کا واحد مقصد اپنے کاروباری نقصانات کو پورا کرنا تھا۔
ملزم نے تسلیم کیا کہ مسٹر مڈز کے ساتھ بات چیت میں انھوں نے ’چھوٹی مچھلی، بڑی مچھلی اور شارک مچھلی‘ کی تمثیل کو استعمال کیا۔
ملزم نے بتایا کہ وہ مسٹر مڈز کے ساتھ بات چیت میں لفظ ’ہم‘ کا استعمال کرتے رہے تاکہ اُنھیں یہ باور کروا سکیں کہ اور لوگ بھی اُن کے ساتھ اس پراجیکٹ پر کام کر رہے ہیں (تاہم) حقیقت میں اُن کے ساتھ کوئی اور شخص نہیں تھا۔
یہ بھی پڑھیے
ملزم گوہر خان نے کہا کہ اُنھیں پاکستانی سیاست میں کوئی دلچسپی نہیں اور وہ احمد وقاص گورایہ کو نہیں جانتے تھے اور نہ انھوں نے کبھی اُن کے بارے میں جاننے کی کوشش کی۔
ملزم گوہر خان نے پولیس کو بتایا کہ ان میں قتل کرنے کی ہمت ہی نہیں ہے۔
ملزم کے وکیل کے ایک سوال پر استغاثہ کے گواہ نے تسلیم کیا کہ پولیس کو جتنی بھی معلومات ملی ہیں وہ گوہر خان کے ٹیلیفون سے ملی ہیں جو پولیس نے اُن کی نیدرلینڈز سے واپسی پر لندن میں گرفتاری کے وقت قبضے میں لیا تھا۔
استغاثہ کے گواہ نے یہ بھی تسلیم کیا کہ ملزم گوہر خان کے روٹرڈیم میں چاقو خریدنے کی جو رسید ملی ہے وہ بھی ملزم سے ہی ملی ہے۔
احمد وقاص گورایہ نے اپنے بیان میں کہا کہ وہ سوشل میڈیا کے ذریعے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہیں تاکہ پاکستان میں حالات ٹھیک ہو سکیں
احمد وقاص گورایہ کا بیان
استغاثہ نے بلاگر احمد وقاص گورایہ کا بیان بھی عدالت میں پڑھ کر سنایا۔
احمد وقاص گورایہ نے اپنے بیان میں کہا کہ وہ بہاولنگر میں پیدا ہوئے اور آج کل اپنے خاندان کے ہمراہ نیدرلینڈز میں مقیم ہیں۔ وقاص گورایہ نے کہا کہ وہ پاکستان میں اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد حکومتِ پاکستان کی سکالرشپ پر اعلیٰ تعلیم کی غرض سے یورپ آئے۔
وقاص گورایہ نے بتایا کہ انھیں یورپ سے تعلیم مکمل کر کے پاکستان واپس لوٹنا تھا اور وہ حکومت کے ساتھ پانچ برس تک کام کرنے کے پابند تھے۔
احمد وقاص گورایہ نے اپنے بیان میں خود کو تہذیبی طور پر مسلمان، سیکولر، بائیں بازو کی طرف جھکاؤ رکھنے والا ترقی پسند لبرل کہا۔
احمد وقاص گورایہ نے کہا کہ اُنھوں نے 2015 میں خفیہ طور پر ایک بلاگ شروع کیا جس میں پاکستانی اداروں کا مذاق اڑایا جاتا تھا۔
اُنھوں نے کہا کہ آئی ایس آئی کو ان کے بلاگ کا علم ہو گیا۔ سنہ 2017 میں آئی ایس آئی نے انھیں پاکستان سے اٹھا لیا اور پھر دو ہفتوں بعد انھیں رہا کیا گیا۔
احمد وقاص گورایہ نے کہا کہ وہ رہائی کے بعد استنبول کے راستے واپس نیدرلینڈز پہنچے کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ مشرق وسطیٰ کے راستے ان کا سفر کرنا خِطرناک ہو سکتا ہے۔
اپنے بیان میں اُنھوں نے کہا کہ وہ سوشل میڈیا کے ذریعے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہیں تاکہ پاکستان میں حالات ٹھیک ہو سکیں۔ بلاگر وقاص گورایہ نے کہا کہ وہ صرف پاکستانی اداروں پر تنقید کرتے ہیں۔
احمد وقاص گورایہ نے کہا کہ امریکی ادارے ایف بی آئی نے انھیں 2018 میں بتایا تھا کہ ان کا نام ہٹ لسٹ پر ہے۔
احمد وقاص گورایہ نے کہا کہ ایک بار نیدرلینڈز میں ان پر حملہ ہو چکا ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ اس کے پیچھے آئی ایس آئی تھی۔ وقاص گورایہ نے کہا کہ انھیں نومبر 2020 سے معلوم ہے کہ اُن کی زندگی کو خطرہ لاحق ہے۔
ملزم گوہر خان کٹہرے میں
ملزم محمد گوہر خان کو کٹہرے میں لایا گیا تو اُنھوں نے وکیل کے سوالوں کے جواب میں بتایا کہ اُن کی عمر 31 برس ہے، ان کے والدین 70 کی دہائی برطانیہ آئے تھے اور ان کے چھ بہن بھائی ہیں۔
ملزم گوہر خان نے بتایا کہ وہ شادی شدہ ہیں اور ان کے چھ بچے ہیں جن کی عمریں چار سے 10 برس کے درمیان ہیں۔
گوہر خان نے بتایا کہ وہ مشرقی لندن کے علاقے فارسٹ گیٹ میں پیدا ہوئے، پرائمری کی تعلیم لندن میں حاصل کی اور پھر والدین نے انھیں 13 برس کی عمر میں تعلیم کی غرض سے لاہور بھیج دیا جہاں وہ ایک ’اچھے پرائیوٹ‘ سکول میں داخل ہو گئے۔ وہ کبھی ہوسٹل اور کبھی لاہور میں اپنے رشتے داروں کے ساتھ رہتے رہے ہیں۔
احمد وقاص گورایہ (بائیں تصویر) اور دیگر دو بلاگرز سلمان حیدر اور عاصم سعید سنہ 2017 میں لاپتہ ہو گئے تھے
گوہر خان نے بتایا کہ پاکستان سے وہ کوئی امتحان پاس نہیں کر سکے اور اس کی وجہ زبان کی مشکلات تھیں۔
انھوں نے بتایا کہ وہ آج بھی اردو کو اس کے اصلی رسم الخط میں نہیں پڑھ سکتے۔
ملزم گوہر خان نے عدالت کو بتایا کہ پاکستان سے واپسی پر وہ ابتدائی طور اپنے ایک چچا کے ساتھ وائٹ چیپل کی مارکیٹ میں کام کرتے تھے۔ اس کے بعد انھوں نے ایک اور رشتے دار کی ٹریول ایجنسی پر کام شروع کیا جس کے بعد وہ مشرقی لندن کے علاقے اپٹن لین میں اپنے والد کے کاروبار میں شامل ہو گئے۔ گوہر خان نے بتایا کہ ان کے والد پراپرٹی اور گڈز فارورڈنگ کا کام کرتے تھے۔
گوہر خان نے بتایا کہ اُنھوں نے کارگو بزنس پر توجہ دی اور اسے ایک انتہائی کامیاب کاروبار میں بدل دیا۔ انھوں نے بتایا کہ پاکستان میں انھیں کاروباری مسائل پیش آ رہے تھے اور پاکستان میں ان کے ڈلیوری ایجنٹ ان کے لیے بے حد مسائل پیدا کر رہے تھے۔
انھوں نے کہا کہ انھوں نے دو ڈلیوری ایجنٹوں کی خراب کارکردگی کی وجہ سے انھیں ملازمت سے فارغ کیا اور پھر مسٹر مزمل کو اپنا ڈلیوری ایجنٹ مقرر کیا ہے۔
انھوں نے بتایا کہ مزمل ہی دراصل مسٹر مڈز ہیں جن سے اُن کی جان پہچان اس وقت ہوئی تھی جب وہ پاکستان میں رہتے تھے۔
ملزم گوہر نے بتایا کہ مزمل نے اُنھیں بے تحاشا کاروباری نقصان پہنچایا جس کی وجہ سے وہ دیوالیہ ہو گئے۔
اپنے کاروبار کی ناکامی کا ذکر کرتے ہوئے ملزم محمد گوہر خان کی آواز بھر آئی۔ ’ان لوگوں نے جائیدادیں بنا لیں اور میں دیوالیہ ہو گیا۔‘
ملزم کا بیان جاری تھا کہ عدالت کا وقت ختم ہو گیا۔
مقدمے کی کارروائی جاری ہے۔
Comments are closed.