بدھ14؍شوال المکرم 1442ھ26؍مئی 2021ء

ترک جوڑے کی وقت گزاری کے لیے شروع کی جانے والی سرگرمی جو کامیاب کاروبار میں بدل گئی

فوڈ ایپس کے ذریعے کھانوں کی ترسیل کیا ریستورانوں کا مستقل خطرے سے دوچار کر رہی ہے؟

ترک جوڑا

،تصویر کا ذریعہYONCA CUBUK

،تصویر کا کیپشن

وزوداغ اور یونکا چوبوک

ترکی سے تعلق رکھنے والا جوڑا، اوزوداغ اور یونکا چوبوک کہتے ہیں کہ کھانا ڈیلیوری کرنے والی ایک ایپ کی بدولت ان کا ایک دیرینہ خواب شرمندہ تعبیر ہو گیا ہے۔

ترکی کا یہ جوڑا سنہ 2020 میں نیویارک منتقل ہوا تھا تاہم کورونا وائرس کی وبا کے باعث وہ بروکلین میں اپنی رہائش گاہ تک محدود ہو کر رہ گئے تھے۔

چوبوک کہتی ہیں کہ ترکی میں اپنے گھر کی یاد سے دھیان بٹانے اور کورونا وائرس کے باعث پڑنے والے ذہنی دباؤ سے بچنے کے لیے انھوں نے ترکی کے پکوان گھر پر پکانا شروع کر دیے۔ ان کے مطابق ایسا کرنا وبا کے دوران ذہنی صحت کو برقرار رکھنے کے لیے بھی ضروری تھا۔

چوبوک نے مزید کہا کہ انھوں نے شہر کے مختلف حصوں میں بسنے والے اپنے دوستوں کو یہ پکوان بھیجنے شروع کیے اور اُن کی طرف سے ملنے والا ردعمل حیران کُن حد تک مثبت تھا۔

چوبوک کے مطابق اُن کے بہت سے دوستوں نے انھیں مشورہ دیا کہ وہ اس کام کو روزگار کا ذریعہ بنا لیں۔

اس کے باوجود کے دونوں میاں بیوی میں سے کسی نے بھی کبھی ’شیف‘ یا پیشہ ور باورچی کے طور پر کام نہیں کیا تھا، مگر پھر بھی انھوں نے گذشتہ سال یہ جوا کھینلے کا فیصلہ کیا اور اپنا کاروبار فوڈ ڈیلیوری ایپ ’وڈ سپون‘ پر رجسٹر کروا لیا۔

’وڈ سپون‘ ایپ سنہ 2020 میں شروع کیا گیا تھا تاکہ گھروں میں کھانا پکانے والوں کو ایسے گاہک فراہم کیے جا سکیں جو اپنے گھروں پر ہوٹلوں کے بجائے گھر میں تیارہ کردہ تازہ کھانا کھانا چاہتے ہیں۔

کھانا

،تصویر کا ذریعہYONCA CUBUK

،تصویر کا کیپشن

یہ جوڑا ایرانی، آرمینائی، عرب اور مخصوص یہودی پکوان بھی آفر کرتا ہے

آپ وڈ سپون کی ایپ کے ذریعے اپنا کھانا آڈر کرتے ہیں اور وہ آپ کو متعقلہ شیف کے کوائف بھیج دیتے ہیں۔ جب آپ کا کھانا تیار ہو جاتا ہے وڈ سپون ایپ یہ کھانا گاہک تک پہنچا دیتی ہے۔

یہ ایپ ابھی صرف نیویارک کے علاقے بروکلین میں ہی دستیاب ہے اور 120 سے زیادہ کھانا تیار کرنے والوں کے نام اس کی فہرست میں شامل ہیں، لیکن اس ایپ کے منتظمین کا اس کو وسعت دینے کا منصوبہ ہے۔

امیر اوزوداغ اور یونکا چوبوک کے کھانے اب اس ایپ پر ہفتے میں چار دن دستیاب ہوتے ہیں جبکہ ہفتے کے باقی تین دن وہ نئی ترکیبوں پر کام کرتے ہیں۔ چوبوک نے بتایا کہ وہ اب اتنا زیادہ مصروف رہتے ہیں کہ انھیں اپنی شادی کی چوتھی سالگرہ کے روز بھی کام کرنا پڑا تھا۔

وڈ سپون کی وجہ سے ان میاں بیوی کو کاروبار کا آغاز کرنے کے لیے کوئی جگہ خریدنے یا کرائے پر حاصل کرنے کی ضرورت بھی نہیں پڑی۔

یہ بھی پڑھیے

یونکا کہتی ہیں کہ ’وڈسپون ہمیں ایک ایسا پلیٹ فارم فراہم کرتا ہے جہاں ہم اپنی کہانی بیان کر سکتے ہیں۔‘

’ہم صرف کباب اور پلاؤ ہی نہیں فروخت کرتے، ہمارا سب سے زیادہ فروخت ہونے والا کھانا دالوں کا سوپ اور مالٹوں اور پالک کا سٹو ہے اور یہ دونوں ڈشز ویجیٹیرین ہیں۔‘

وڈسپون کے بانی لی ریسشیف کہتے ہیں کہ وبا شروع ہونے کے ساتھ ہی انھوں نے اپنے کاروبار کا آغاز کیا تھا جو ان کے لیے بڑا فائدہ مند ثابت ہوا۔ وہ کہتی ہیں کہ ریسٹورانٹس میں کام کرنے والے بہت سے لوگوں کو نیا روزگار چاہیے تھا۔

وڈسپون میں کسی بھی گھریلو شیف کے شامل ہونے سے پہلے کمپنی کو ’فوڈ سیفٹی سرٹیفیکٹ‘ دکھانا پڑتا ہے اور کمپنی اُن کے باورچی خانے میں کسی کو بھیج کر معائنہ بھی کرواتی ہے۔

سی تھری گروپ

،تصویر کا ذریعہMason Adam

،تصویر کا کیپشن

سی تھری گروپ مختلف ریستورانوں کے کھانے ایک ہی آرڈر میں فراہم کرتی ہے

گھریلو شیف کو اپنا کاروبار متعقلہ مقامی حکام کے پاس بھی رجسٹر کروانا پڑتا ہے اور’فوڈ ہائیجین‘ ٹیسٹ بھی کروانا پڑتا ہے۔

وڈسپون کو فی الحال امریکہ میں وسعت دی جا رہی ہے لیکن یہ برطانیہ میں بھی متعارف کروایا جا سکتا ہے جہاں فوڈ بزنس کسی بھی رہائشی پراپرٹی سے کرنا قانونی طور پر جائز ہے۔

کووڈ کی وبا کے باعث ریسٹورانوں کے بند ہونے سے گذشتہ دو سال میں ’ٹیک اویز‘ یعنی کھانا گھروں تک مہیا کرنے والے ایپس کے لیے زبردست موقع ثابت ہوا ہے۔

برطانیہ کے سب سے بڑی فوڈ ایپ ’جسٹ ایٹ‘ کی آمدن سنہ 2020 میں 72 کروڑ پچاس لاکھ تک پہنچ گئی جب کہ ’ڈور ڈیش‘ نامی ایپ کی آمدن میں تین گنا اضافہ ہوا اور یہ 2.9 ارب تک پہنچ گئی۔

ان ایپس کو استعمال کرنے والے صارفین کو اکثر یہ شکایت رہتی ہے کہ وہ ایک وقت میں ایک سے زیادہ ریسٹورانٹس سے مختلف کھانے منگوانے کا آرڈر نہیں دے سکتے اور ایک وقت میں مختلف کھانوں کا مزہ نہیں لے سکتے۔

لیکن اب یہ صورتحال بدل رہی ہے اور کچھ ایپس، جن کی تعداد بڑھ رہی ہے، ایسی سہولت فراہم کر رہے ہیں۔

ریسٹورانٹس

،تصویر کا ذریعہMason adma

،تصویر کا کیپشن

اب ایک ہی وقت میں پیزا اور برگر آرڈر کیے جا سکتے ہیں

اس میں سرفہرست ’گو بائے سٹیزن‘ ہے جسے ریسٹورانٹس اور ٹیک اوے گروپ سی تھری چلاتا ہے۔ یہ اپنے گاہکوں کو اس بات کی سہولت فراہم کرتا ہے کہ وہ اس کے مختلف براڈز سے ایک ہی وقت میں کھانا آڈر کر سکتے ہیں مثلاً اومامی برگر، کرسپی رائس، سیسی ڈی کرین یا سیم کرسپی چکن سے۔

اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کھانا پک کر تیار ہونے کے ساتھ ہی گاہکوں کو بھجوا دیا جائے، ’سی تھری‘ گروہ امریکہ بھر میں آٹھ سو کچن یا باورچی خانے چلاتے ہیں جو کہ ایک خوراک تیار کرنے کی ایک بہت بڑی تنصیب ہے جہاں ایک ہی چھت کے نیچے بہت سے باورچی خانے کام کرتے ہیں جو صرف گھروں کو بھجوانے کے لیے کھانے بناتے ہیں۔

مزید پڑھیے

سی تھری گروپ کی سربرہ سام نازارین کہتی ہیں کہ ’ہماری ایپ گاہکوں کو یہ سہولت فراہم کرتی ہے کہ وہ اپنے ایک ہی آرڈر میں سی تھری برینڈ کے ہوٹلوں کے تمام کھانوں میں سے اپنے پسندیدہ کھانوں کا انتخاب کریں۔‘

مزید براں سی تھری برینڈز کے علاوہ کمپنی دوسرے لوگوں کے ریسٹورانٹس اور فوڈ بزنس کرنے والوں کو اپنے کچن میں مدعو کر کے انھیں سکھانے کا موقع فراہم کر رہی ہے، ان میں کیلیفورنیا کے ریسٹورانٹس سوم سوم فریس میڈیٹرینن اور فلوریڈا کا سنڈی لوس کوکز بھی شامل ہیں۔

کچن یونائٹڈ

،تصویر کا ذریعہKITCHEN UNITED

،تصویر کا کیپشن

کچن یونائٹڈ ایک ہی چھت تلے مختلف کچن چلاتی ہے

کچن یونائٹڈ کے چیف ایگزیکٹیو مائیکل مونٹیگانو کہتے ہیں ’ایک ہی بل اور ایک ہی وقت میں ہر چیز مہیا اور بھجوائی جاتی ہے۔ اگر ایک ہی گھر میں ایک فرد سوشی کھانا چاہتا اور دوسرا فرد پیزا کھانا چاہتا تو یہ ایک ہی آرڈر میں فراہم کرنا بالکل ممکن ہو گیا ہے۔‘

کچن یونائٹڈ مکس اس وقت امریکہ میں دس شہروں میں موجود ہے جب کہ آٹھ دیگر شہروں پر انھیں قائم کیا جا رہا ہے۔

ایپ کے ذریعے کھانوں کی ترسیل کے بڑھتے ہوئے کاروبار سے کیا ریسٹورانٹ کے بزنس اور ٹیک اویز جو کہ پہلے ہی دباؤ یا مشکل کا شکارہیں، کیا ان کی مشکلات میں اضافہ نہیں ہو گا؟

برطانیہ میں ریسٹورانٹس کی ناقد اینڈی ہیلر کا کہنا ہے کہ اُن کے خیال میں کچھ لوگوں کو یہ اچھا نہ لگے کہ ایک ہی ایپ کے ذریعے ایک ہی وقت میں دو مختلف ریسٹوانٹس سے کھانا آرڈر کریں۔

پیزا

،تصویر کا ذریعہGetty Images

انھوں نے کہا کہ ‘اگر میں ایک مینو دیکھوں جس میں دو یا تین مختلف چیزیں درج ہوں اس سے مجھے لگے گا کہ یہ کوئی عام کیٹرنگ کمپنی ہے جو کاروباری سطح پر بنائے گئے کھانے بیچ رہی ہے۔‘

ہیلر مزید کہتے ہیں کہ کچھ کھانے جیسا کہ ’کری‘ ڈلیوری کے لیے بہت مناسب ہیں۔ جبکہ فرانس اور جاپانی کھانے ٹیک اوے کے لیے زیادہ مناسب نہیں ہیں کیونکہ انھیں ریسٹورنٹس میں خوبصورتی سے پیش کرنے کا خاص انداز ہوتا ہے جب یہ کام کسی پلاسٹک کے ڈبے میں نہیں کیا جا سکتا۔

ان کا کہنا تھا کہ ’ان ڈش کا نصف مزا تو ان کے پیش کرنے کے انداز میں ہوتا ہے۔‘

BBCUrdu.com بشکریہ
You might also like

Comments are closed.