موبائل فون کا استعمال میزائل حملے میں 89 روسی فوجیوں کی ہلاکت کی وجہ بنا: روس
روس نے تصدیق کی ہے کہ نئے سال کے آغاز پر یوکرین کی جانب سے کیے گئے ایک میزائل حملے میں اس کے کم از کم 89 فوجی ہلاک ہوئے ہیں۔ اگرچہ ہلاک ہونے والے روسی فوجیوں کی اصل تعداد کی تصدیق نہیں ہو سکی ہے تاہم یہ روس، یوکرین جنگ کے آغاز کے بعد سے ہونے والے کسی حملے میں فوجی ہلاکتوں کی سب سے بڑی تعداد ہے۔
یوکرین نے یکم جنوری کی نصف شب یوکرین کے مقبوضہ شہر دونیتسک کے علاقے ماکیوکا میں جبری فوجی بھرتیوں کے ایک سینٹر کو میزائل سے نشانہ بنایا تھا۔
روس نے اس حملے میں 89 فوجیوں کی ہلاکت کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ فوجیوں کی جانب سے ممنوعہ فون کے استعمال کی وجہ سے دشمن کو اُن کے ہدف کا پتا لگانے کا موقع ملا۔
یوکرین کا دعویٰ ہے کہ حملے میں ہلاک ہونے والے فوجیوں کی تعداد کہیں زیادہ ہے۔ یوکرین نے دعویٰ کیا ہے اس حملے میں روس کے کم از کم 400 فوجی ہلاک ہوئے جبکہ 300 زخمی ہوئے ہیں۔
روس کی جانب سے جاری کردہ بیان کے مطابق یکم جنوری کو ایک ووکیشنل کالج پر امریکی ساختہ ’ہیمارس راکٹ سسٹم‘ سے چھ میزائل داغے گئے، جن میں سے دو کو مار گرایا گیا۔
روسی فوج نے بدھ کی صبح ٹیلی گرام پر ایک بیان میں کہا کہ رجمنٹ کے ڈپٹی کمانڈر لیفٹیننٹ کرنل بچورن بھی ہلاک ہونے والوں میں شامل ہیں۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ ایک تحقیقاتی کمیشن واقعے کی تحقیقات کر رہا ہے۔
انھوں نے مزید کہا کہ یہ ’پہلے ہی سے واضح‘ ہے کہ حملے کی بنیادی وجہ یوکرینی ہتھیاروں کی رینج میں موجود فوجیوں کے پاس موبائل فونز پر پابندی کے باوجود موجودگی اور ’بڑے پیمانے پر فون کا استعمال‘ تھا۔
فوجیوں کی رہائش والی عمارت ملبے کا ڈھیر بن گئی
قصوروار کو سزا
انھوں نے کہا کہ ’اس بات نے دشمن کو میزائل حملے کے لیے فوجی اہلکاروں کے مقام کا پتہ لگانے اور ان کا تعین کرنے کا اہل بنایا۔‘
بیان میں مزید کہا گیا کہ تحقیقات میں قصوروار پائے جانے والے اہلکاروں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے گا، اور مستقبل میں ایسے واقعات کو روکنے کے لیے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔
روس نے نئے سال پر ہونے والے حملے میں ہلاک ہونے والے روسی فوجیوں کی تعداد پہلے 63 بتائی تھی تاہم بعدازاں اسے بڑھا کر 89 کر دیا گیا۔ اس بات کی تصدیق کرنے کا کوئی طریقہ نہیں ہے کہ حقیقت میں کتنے فوجی ہلاک ہوئے۔ ماسکو کے لیے میدان جنگ میں ہونے والی ہلاکتوں کی تصدیق کرنا انتہائی مشکل امر ہے۔
یہ بھی پڑھیے
ووکیشنل یعنی پیشہ ورانہ کالج اس وقت جبری طور پر بھرتی کیے جانے والے اہلکاروں سے بھرا ہوا تھا۔ وہاں موجود لوگ ستمبر میں صدر ولادیمیر پوتن کی جانب سے جزوی طور پر موبلائز کیے جانے والے 300,000 لوگوں میں سے تھے۔ اس جگہ کے قریب گولہ بارود بھی ذخیرہ کیا جا رہا تھا اور حملے کے بعد یہ پوری عمارت ملبے کے ڈھیر میں تبدیل ہو گئی ہے۔
کچھ روسی مبصرین اور سیاست دانوں نے فوج پر نااہلی کا الزام لگاتے ہوئے کہا ہے کہ فوجیوں کو کبھی بھی ایسی رہائش گاہ میں نہیں رکھنا چاہیے جو سکیورٹی کے حساب سے کمزور ہو۔
دونیتسک میں روس کی پراکسی اتھارٹی کے ایک سابق سرکردہ اہلکار پاول گوباریف نے کہا کہ ایک عمارت میں بڑی تعداد میں فوجیوں کو رکھنے کا فیصلہ ’مجرمانہ غفلت‘ تھا۔
انھوں نے خبردار کیا کہ اس غفلت کے لیے ’اگر کسی کو سزا نہیں دی گئی تو یہ اور بھی خراب ہو گا۔‘
ماسکو کی مقامی پارلیمنٹ کے ڈپٹی سپیکر آندرے میدویدیف نے کہا کہ یہ پیشین گوئی کی جا سکتی ہے کہ بجائے کمانڈر کے جس نے ان میں سے بہت سے لوگوں کو ایک جگہ پر رکھنے کا اصل فیصلہ کیا تھا فوجیوں کو مورد الزام ٹھہرایا جائے گا۔
روسی صدر ولادیمیر پوتن نے منگل کے روز ایک حکم نامے پر دستخط کیے جس کے تحت فوجی خدمت کے دوران مارے جانے والے نیشنل گارڈ کے فوجیوں کے اہلخانہ کو 50 لاکھ روبل یعنی تقریبا 70 ہزار امریکی ڈالر ادا کیے جائیں گے۔
Comments are closed.